عتیق انور راجہ
پاکستانی قوم کو اب اس فلسفے کو سمجھنا ہوگا جسے اقبالؒ نے پیش کیا اور جس کی تکمیل قائد اعظم ؒ کے ہاتھوں ہوئی۔قائد اعظم نے کہا تھا کہ پاکستان ہم صرف زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں بنارہے بلکہ ہم ایک ایسی ریاست کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں جہاں قران وسنت کے مطابق لوگ زندگیاں گزار سکیں۔کئی عشروں بعد ملک کو وہ وزیر اعظم ملا ہے جو آج پھر کہہ رہا ہے کہ پاکستان بنانے کی وجہ اسلامی نظام حکومت قائم کرنا تھا۔وزیر اعظم نے پھر کہا ہے کہ پاکستان ایشین ٹائیگر بننے کے لیے نہیں بنایا گیا تھا بلکہ پاکستان ریاست مدینہ کے طرز پر بنایا گیا تھا جہاں عدل ہو جہاں انصاف ہو جہاں حق بات کہنے میں ذرا بھی ڈر نہ۔جب تک ہم اپنی اصل راہ کا تعین نہیں کر لیتے ہماری منزل ہم سے دور رہے گی۔
ریاست مدینہ والا نظام انصاف لاگو کر نے سے پاکستانی عوام کو اوپر اٹھایا جاسکتاہے۔چوروں کو ان کے کیے کی سزا ہر حال میں ملے گی۔اور غریب کی داد رسی بھی آسانی سی ہونے لگے گی۔بس ہم اسلام کے اصولوں پر پورا پورا عمل کرنے کی کوشش کرنا ہوگی۔ہم سچ بولنا ہوگا۔اللہ جھوٹوں کے ساتھ کبھی نہیں دیا کرتا۔ہم جب اپنے معاملات میں سچ بولیں گے عدل کریں گے تو رب کی رحمتیں اس ملک پر عام ہوں گی۔ایک مسلمان جب احکام الہی ہر مکمل کاربند ہوتا ہے تو وہ مومن بن جاتا ہے۔جس کی ہر دعا رب کے حضور قبولیت حاصل کر لیتی ہے۔نام کے مسلمان تو ہم سب ہیں مگر اپنے فائدے کے لیے ڈنڈی مارنے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاتے۔مکمل دین پر عمل کرنا ہوگا۔نماز روزے کا اہتمام کرنے والے,ذکواۃ دینے والے,حج کرنے والے,سنت کے مطابق داڑھی رکھنے والے,قربانی کرنے ل والے مسلمان تو ہمیں ملک کے ہر شہر قصبے گاوں اور گھر میں نظر آجاتے ہیں۔
لیکن یا خدایا ہم پھر بھی محکوم و مظلوم ہیں۔کسی اللہ والے سے پوچھا حضور یہ مومن کون ہوتا ہے؟انہوں نے بڑی محبت سے دیکھا نظریں جھکائیں اور کچھ یوں گویا ہوئے مومن وہ ہے جس سے دوسرے امن میں رہیں۔عالی ظرف ہو, ہمدردِ ہو, انسانیت کاخیر خواہِ ہو,خودّار اور خوگرِ قناعت ہو,شیریں کلام اور نرم زباں ہو, اتنا بڑا دل رکھتا ہو کہ دوسروں کے قصور معاف کر سکے, اپنی ذات کے لئے کسی سے انتقام نہ لے,جو خدمت لے کر نہیں خدمت کر کے خوش ہو,جوطاقت سے تو دبایا نہ جا سکے مگر حق آگے بلا تامل سر جھکا دے
جس کے دشمن بھی اس کے کردار پر انگلی نہ اٹھا سکیں۔اور وہ اللہ کے سوا کسی کے اجر پر نگاہ نہ رکھے۔بہت غور کیا مگر اپنے آس پاس ایسے مسلمان کی جھلک نظر نہ آئی جو مومن کی ساری صفات رکھتا ہو۔ہاں ایسے بہت سے مسلمان نظر آئے جو برما,فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کے لیے کچھ کرنے کا شدید جذبہ رکھتے ہیں مگر ان مجاہدوں کے لیے اپنے رشتہ داروں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو معاف کرنا ناممکن تھا۔ مسلمان ہونے پر فخر نہیں کرتے بلکہ دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش میں رہتے ہیں کہ ہم بہت روشن خیال ہیں۔کشمیر ایک بار پھر دنیا کا فلیش پوائنٹ بن چکا ہے۔وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا دو ٹوک لہجہ دنیا کے ایوانوں میں بڑی توجہ سے سنا جانے لگا ہے۔مسئلہ کشمیر کشمیریوں نے خود زندہ رکھا ہوا ہے نہ صرف زندہ رکھا ہوا ہے بلکہ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے اس آگ کو دھکاتے رہتے ہیں۔
پاکستان عسکری لحاظ سے پہلے بھی ناقابل شکست رہا ہے۔پینسٹھ کی جنگ ہو یا کارگل فوجی لحاظ سے پاکستان نے دشمن کے چھکے چھڑانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی مگر جب مذاکرات کی بات آئی ہمارے سیاست دانوں نے جیتی ہوئی بازیاں اغیار کی جھولی میں ڈال دیں۔آج اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان دونوں محاذ پر ایک ساتھ طاقت ور نظر آرہا ہے۔صرف وزیر اعظم کا دلیرانہ لب و لہجہ کفر کے ایوانوں میں لرزہ طاری کیے ہوئے ہے۔جب سے انہوں نے اقتدار سنبھالا ہے وہ مسلسل کشمیر پر بات کر تے چلے آرہے ہیں اورآج دیر سے ہی سہی دنیا کو خیال آگیا ہے کہ کشمیر ہی وہ خطہ ہے جو نہ صرف پاک و ہند بلکہ دنیا کو متاثر کر سکتا ہے۔
دنیا نے تسلیم کر لیا ہے کہ کشمیر بھارت کا اندرونی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک تصفیہ طلب مسئلہ ہے جسے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی ضرورت ہے۔آج پاکستان کے ساتھ دنیا کی آواز مل رہی ہے۔اور وقت دور نہیں جب پاکستان معاشی طور پر بھی طاقت ور ہو جائے گا۔بھارت کے ٹوٹنے اور پاکستان کے عالمی طاقت بننے کا وقت اب بلکل قریب آپہنچا ہے۔کشمیر ہی نہیں بلکہ بھارت میں دوسری بہت سی ریاستیں آزادی کا اعلان کرنے والی ہیں۔ قائد اعظمؒ نے کشمیری راہنماوں کو سمجھایا تھا ”کہ تمہاری نسلیں پچھتائیں گی اگر تم نے پاکستان سے الحاق نہ کیا‘مگر ان عقل کے اندھوں نے بھارت کا ساتھ دیا اور یوں کشمیر میں ظلم و جبر کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔مگر آج جب بھارت نے دنیا کے سارے قوانین کو روندتے ہوئے کشمیر کو اپنا حصہ قرار دے دیا ہے۔توجن کشمیریوں کے اجداد نے پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو ترجیع دی تھی ان کی اولادوں کو سمجھ آچکی ہے کہ ان کے بڑوں سے غلطی ہوئی تھی۔اب دیکھتے ہیں جب کرفیو ہٹے گا تو کشمیری نوجوان کس طرح مزاحمت کرتے ہیں۔ کیاکیااب بھارت کے شدت پسندہندو کشمیر کی بیٹیوں کو زبردستی اپنی بیویاں بنانا شروع کردیں گے۔اور کشمیری جواب میں صرف پتھر بازی کرتے رہیں گے۔ بھارتی میڈیا کے ہی مطابق کشمیر میں تعینات بہت سے بھارتی فوجی شدید ذہنی دباو کی سے وجہ بہت بڑی تعداد میں خودکشی کر رہے ہیں۔اب کشمیری نوجوان تھوڑی اور ہمت کریں اور بھارتی فوج سے اسلحہ چھیننا شروع کریں, اپنے جوانوں کی تربیت کریں اور گوریلا کاروائیاں کرتے ہوئے کشمیر کوبھارتی فوج کا قبرستان بنادیں۔حقیت یہ ہے کہ آج نظریہ پاکستان جیت چکا ہے اور ہنددوں کا اصل روپ کھل کے سامنے آچکا ہے۔شکر ہے ہماری سیاسی اور عسکری قیادت اس وقت ایک پیج پر ہے۔