کاشف مرزا-کنکریاں
وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے تمام تعلیمی ادارے 15 جولائی تک بند رکھنے کا فیصلہ کرلیا ہےجبکہ نویں، دسویں، گیارہویں اور بارہویں جماعتوں کے امتحانات بھی منسوخ کردیئے گئے ہیں۔جبکہصوبائی وزیر تعلیم سعید غنی نے کہا ہے کہ سندھ میں امتحانات ہونے یا نا ہونے کا فیصلہ محکمہ تعلیم کی اسٹیرنگ کمیٹی کرے گی،وزراء تعلیم کے اجلاس میں سندھ نے اسکول کھلنے کی تاریخ بڑھانے کی بات کی تھی ا ور اس پر اتفاق کیا تھا مگر امتحانات منسوخ کرنے کے حوالے سے کوئی بات طے نہیں کی تھی۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ ہمیں “کرونا ” کی صورت میں ایک ایسی آفت کا سامنا ہے جسکا فوری علاج نظر نہیں آرہا،ہم اس “وبا” کے پس منظر میں زیر بحث آنے والے مختلف متنازعہ ایجنڈوں پر صرف نظر کرتے ہوئے غور کریں تو حکومت کا یہ فیصلہ جلد بازی معلوم ہو رہا ہے۔فیصلہ کرتے ہوئے حکومت نے لگے بندے جن اصحاب سے مشورہ کیا ان میں شاید ہی کوئی ماہر تعلیم شامل ہو۔ دنیا جس نہج پر جا رہی ہے وہاں “وباؤں” کے امکانات آنے والے دنوں میں بڑھنے کا عندیہ دے رہے ہیں مگر پہلے قدم پر ہتھیار ڈال کر ہم نے آنے والی نسلوں پر ایک نفسیاتی عفریت مسلط کر دیا ہے جو ہمارے نظام تعلیم کو خس و خاشاک کی نذر کر دے گا۔کورونا کا بہانہ بناکر 15 جولائی تک تعلیمی اداروں کو بند رکھنااور بورڈ کے امتحانات کو منسوخ کرنا تعلیم دشمنی کے مترادف ہے۔یہی وجہ ہے کہآل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن نے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے تعلیم دشمن قراردیاہےاوریکم جون سے سکول کھولنے کےلیے وزیر اعظم،وزرااعلی، گورنرز، چیف جسٹس اورآرمی چیف سے اپیل کی ہے۔15 جولائی تک تعلیمی اداروں کو بند کرنے کے حکومتی فیصلہ کو مسترد کرتے ہوے مطالبہ کیا کہ حکومتSOPsجاری کرےاور یکم جون سےملک بھر میں تمام سکولز ھرصورت کھولنے کااعلان کرے۔کیونکہکورونا وائرس سے جاری لاک ڈاؤن کے باعث 2کروڑطلباکےتعلیمی نقصان کاازالہ ناممکن ہے۔
15جولائ تک تعلیمی اداروں کی بندش سے 50%تعلیمی ادارے مکمل بنداور10لاکھ لوگ بےروزگارہوجائینگے۔فیڈریشن نےاس عمل کو نجی تعلیمی اداروں کا معاشی قتل عام قرار دیاہے ،کیونکہ ٹیچرز کی تنخواہیں فکس اورملک بھر میں 90 فیصد اسکول عمارتیں کرائے پر ہیں۔مزیدمطالبہ کیا کہ وزیراعظم پاکستان پرائیویٹ سکولزکیلیے’’تعلیمی ریلیف پیکیج ‘‘ کااعلان کریں،اوروزیراعظم و چیف جسٹس پاکستان سے داد رسی کی اپیل کی ہے،اورمطالبہ کیا ہے کہ جہاں ایس او پیز کی پابندی کے ساتھ دیگر شعبوں کو کھولا جارہاہے وہاں تعلیم جیسے حساس شعبے کو بھی احتیاطی تدابیر کے ساتھ کھولا جاسکتاہے۔آل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن نےسکولز کی ٹائمنگ صبح 7 تا10اور2شفٹ میں سماجی فاصلے کو برقرار رکھ کے کلاسز جاری رکھنے کی بھی تجویز دی ہے۔بلکہانسانیت کے جذبہ اور کورنٹائیں سے نبٹنے کے لیے ملک بھرکے مستحق طلبا کی فیس ادائیگی کے لیے کرونا ایجوکیشنل ریلیف فنڈبھی قائم کر دیاہے،وزیر اعظم پاکستان اور صوبائی وزراءاعلی کوملک بھر کے 2لاکھ پرائیویٹ سکولزآئسولیشن سینٹرز اور قرنطینہ سنٹرز بنانیں اور 15 لاکھ ٹیچرز بطوروالیئنٹیرز پیشکش بھی کر دی گئی۔
9، 10 ویں اور 11، 12 ویں کے اکھٹے امتحانات لینے کی تجویز،دسویں اور بارہویں کے امیدواروں کو4سے 6 فیصد اضافی مارکس دینے کی تجویز،نویں جماعت کے تمام طلبہ کو بلا تخصیص دسویں جماعت میں پروموٹ کرنے کی تجویز، پریکٹیکل کے مجموعی نمبرز میں سے نصف نمبرز طلبہ کو دینے کی تجویز ہے۔گیارہویں جماعت کے تمام طلبہ کو بارہویں جماعت میں پروموٹ کردیا جائے گا،بارویں جماعت کے موجودہ طلبہ کے نمبرز گیارہویں کے نمبرز کے مساوی دئیے جائیں گے،طلبہ کو اپنے نمبرز بڑھانے کیلئے دوبارہ امتحان دینے کا موقع دینے کی تجویز،طلبہ کو نمبر بڑھانے کیلئے جلد کوئی لائحہ عمل بنائے جانے کا امکان ہے۔لیکن سوال ہے کہدسویں جماعت کے پیپرز پہلے ہی لے چکے ہیں،تو بورڈ نتائج کا اعلان کیسے کرے گا؟اگر مذکورہ بالا سوال ہاں میں ہے،تو پھر ان پریکٹیکل کے بارے میں کیا کہنا ہے جو طلبا سے ابھی نہیں لیاگئے؟بورڈ کلاس کے تمام طلبا کو اگلے درجے تک ترقی دینے کے لئے فروغ دینے کا معیار یا طریقہ کار کیا ہے؟آئی بی سی سی کے آج کے اجلاس میں چیئرمین نے کہا کہ ہم نے تمام طلبا کو انکے پچھلے نتائج پر ترقی دینے کا فیصلہ کیا ہے تو پھر ان طلباء کا کیا ہوگا جو کبھی بھی کسی بھی بورڈ کے امتحانات میں نہیں آئے ہیں؟اگر کسی طالب علم نے گذشتہ سال کلاس 9 ویں یا فرسٹ ائیر میں 450 نمبرحاصل کیے ہیں تو پھر وہ دسویں یا بارہویں کلاس کے لئے کتنے نمبر حاصل کرے گا کیوں کہ انکے پیپرز ابھی تک نہیں کروائے گئے ہیں؟ طلباء میں سے بہت سے ضمنی کمپارٹمنٹ کے امتحانات کے بارے میں پوچھ رہے ہیں؟ وہ امتحان میں حاضر ہوئے بغیر پاس ہوں گے یا نہیں؟ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ کب اور کیسے ہم تعلیمی بورڈ سے اپنا سرٹیفکیٹ حاصل کریں گے؟
جماعت نہم، دہم، گیارھویں اور بارھویں کے امتحانات کی منسوخی کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے،اگر نہم اور گیارھویں کے بچوں کی اگلی کلاسز میں پروموشن ہورہی ہے تو کس پیمانے کو بنیاد بناکر؟ جو بچے کسی وجہ سے ایف ایس سی پارٹ ون میں خاطر خواہ نتائج نہیں دے پاتے وہ امپرومنٹ کے ساتھ پارٹ ٹو میں اپنے گریڈز کو بہتر کرنیکی بھرپور کوشش کرتے ہیں تاکہ میڈیکل کالجزاورانجنئیرننگ یونیورسٹیز میں داخلے کی دوڑ میں شامل ہوجائیں۔امتحانات کا انعقاد مرحلہ وار مختلف طریقوں سے ممکن ہے اور حکومت کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ورچوئل یونیورسٹی طرز کا کوئز سسٹم جس میں طلباء کو مرضی کی ڈیٹ شیٹ کے مطابق آن لائن امتحان لیا جائے۔مضمون کے اعتبار سے ہر تعلیمی بورڈ متعلقہ مضمون کے 4 پیپر تیار کروائے اور بورڈ سے الحاق شدہ ہرسکول وکالج میں بورڈ کا نگران عملہ تعینات کیا جائے اور 10 کمروں میں 50 طلباء کا پیپر رکھا جائے۔دہم جماعت کے امتحانات ہو چکے انکی مارکنگ اگست میں کروا ئی جائے اور پریکٹیکل کے نمبرز تھیوری کی بنیاد پر دیے جائیں۔بارہویں جماعت امتحانات کی منسوخی سے زیادہ متاثر ہو گی۔میڈیکل اورانجینئرنگ کے طلبا و طالبات کے داخلوں کا انحصار انھی امتحانات پر ہے۔اگر امتحانات کے بغیر طلبا کو پروموٹ کیا جاتا ہے تو سال اول میں بعض طلباء مارکنگ اور میٹرک کے بعد ایف ایس سی میں انگریزی میڈیم میں آنے کی وجہ سے کم نمبر لے پائے تھے ان سے زیادتی ہے۔ یہاں بعض طلباء کمبائن امتحان بھی دے رہے تھے انھیں پاس کرنے کا کوئی فارمولا مرتب نہیں ہو سکتا۔لہذاٰ بارہویں کے امتحان منسوخ کرنے کے فیصلے کو ٹھنڈے دماغ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔نمبر بڑھانے کے لیے Repeat کرنے والوں کے لیے بھی امتحانات کی منسوخی حوصلہ شکن ثابت ہوگی۔خصوصاً انٹری ٹیسٹ کے انعقاد کے بعد میرٹ بناتے ہوئے سابقہ کلاس کے رزلٹ سے پیچیدگیاں پیدا ہوں گی اور داخلوں کے دوران سفارش اور رشوت کلچر اور میرٹ کی پامالی کا بھی امکان ہے۔کرونا کی وجہ سےطلبا،ٹیچرزاوروالدین ہیجانی کیفیت کا شکار ہیں جسکے نتائج بدترین ہو سکتے ہیں۔امتحانات کو احتیاطی تدابیر کے ساتھ طویل مدتی بنایا جا سکتا ہے۔ طلبا ء کی تعداد خصوصاً لازمی پرچوں میں ہر سنٹر پر100سے زائد نہ ہو اور ہر پرچہ ایک بورڈ میں تحصیل، ضلع کی بنیاد پر مرحلہ وار تعداد کے اعتبار سے رکھا جائے۔
قرنطینہ کی طرز پر طلبا و طالبات کو اپنے ہی تعلیمی اداروں میں امتحانی مدت کے دوران رکھا جاسکتا ہے اور ان سے بورڈ ز کا عملہ اپنی نگرانی میں امتحانات لے سکتا ہے۔کرونا سےمسجد، مدرسہ اور سکول ہی کو خطرہ نہیں باقی شعبہ ہائے زندگی بھی اس سے متاثر ہیں مگر حکومت کا تمام تر زور ان دو اداروں پر ٹوٹ رہا ہے۔منڈیاں، گلی،محلے رش سے بھرے ہیں۔راشن کی تقسیم کا سلسلہ بلا خوف و خطر رش کی حالت میں جاری ہے۔کچہریاں اور عدالتیں سائلین اور وکلاء سے بھر پڑی ہیں۔ان حالات میں اساتذہ حکومت کے جاری کردہ ایس او پیز کے اطلاق میں موثر کردار ادا کر کے امتحانات کا انعقاد ممکن بنا سکتے ہیں۔حکومت ہر تعلیمی ادارے کو وسائل فراہم کرے اور نجی تعلیمی اداروں کو پابند کیا جائے کہ وہ وسائل خود پیدا کریں جنکی مدد سے احتیاطی تدابیر کو لاگو کیا جاسکے۔
پنجاب میں دسویں جماعت کا امتحان ہو چکا ہے۔ جہاں تک نویں جماعت کے امتحانات کا تعلق ہے ‘وہ ابھی بھی لئے جا سکتے ہیں۔آ لبتہ گیارہویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات ضرور ہونے چاہئیں تاکہ انصاف اور میرٹ کے تقاضے پورے ہو سکیں۔نیز سپلی اور گریڈ بہتر کرنے کیلئے امتحان دینے والے بھی باآسانی ان مراحل سے گزر سکیں ‘تاکہ کسی کی کوئی حق تلفی نہ ہو۔ان دنوں سکولزاور کالجز خالی ہیں لہٰذا کورونا سے بچنے کیلئے تمام احتیاطی تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں اور سماجی فاصلہ برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ پہلے جس کمرہ میں پینتیس چالیس طلبا و طالبات ہوتے تھے اب وہاں صرف 20طلبا کی نشستیں لگا لی جائیں۔ طلبا کو گھر سے ماسک لانے پر پابند کیا جائے۔ تاہم بورڈ کی طرف سے طلبا کو سینی ٹائزر فراہم کیا جائے۔کورونا سے پہلے بھی یہی طریق کار تھا کہ طلبا اپنے اپنے پرچے مکمل کر کے میزوں پر چھوڑ دیتے تھے‘ جنہیں بعد میں نگران حضرات جمع کر لیتے تھے۔اب اسی طریق کار کی زیادہ شدت کے ساتھ پابندی کروائی جا سکتی ہے۔بورڈز امتحانات میں شامل پرائیویٹ سٹوڈنٹس بارے بھی پالیسی وضع نہ کی جاسکی۔جو امیدوار نمبر امپروو کرنا چاہتے ان کیلئے بھی کوئی فارمولا نہ بن سکا،کمپوزیٹ امتحانات دینے والوں کے بارے بھی کوئی لائحہ عمل نہ دیا گیا۔
کیمبرج اسسمنٹ انٹرنیشنل ایجوکیشن نے پاکستان میں پہلی بار اے اور او لیول کی گریڈنگ کے طریقہ کار میں “رینکنگ” Ranking بھی متعارف کرادی ہے تاہم رینکنگ کا اطلاق جون 2020 کی امتحانی سیریز کی منسوخی کے بعد براہ راست کی جانے والی گریڈنگ پر کیا جارہا ہے اور اس حوالے سے متعلقہ اسکولوں کو آگاہ بھی کردیا گیا ہے۔پاکستانی طلبہ کی یہ رینکنگ خود انکے اساتذہ ہی کریں گے جبکہ طلبہ کے گریڈز بھی آن کے اساتذہ ہی تجویز کریں گے جسے predicted grade کا نام دیا گیا ہے اس مجوزہ گریڈ کی بنیاد اور کیمبرج کے پاس موجود اپنے شواہد پر یہ ادارہ طلبہ کی حتمی گریڈنگ کرے گا اس حوالے سے کیمبرج کے اسکولوں کو جاری اعلامیے اور ای میلز میں بتایا گیا ہے طلبہ کی تعلیمی کارکردگی کی بںیاد پر ان کی گریڈنگ کے لیے اساتذہ ہر مضمون کے شواہد جمع کرکے ان کے predicted grade بھجوائیں گے ساتھ ہی ساتھ ہر گریڈ اور ہر مضمون میں طالب کی رینکنگ بھی کی جائے گی یہ رینکنگ زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم حاصل کردہ مارکس کی بنیاد پر ہوگی۔اگر کسی ایک سلیبس مضمون میں جتنے بھی طلبہ کا گروپ ایک مخصوص گریڈ لے رہا ہے اس مخصوص گریڈ میں حاصل کردہ زیادہ سے زیادہ مارکس اور کم سے کم مارکس پر طلبہ کی علیحدہ علیحدہ رینکنگ ہوگی۔یونیورسٹیوں میں تو سمسٹر سسٹم ہےاس لئے ان امتحانات کے بارے میں تقدیم و تاخیر اختیار کی جا سکتی ہے۔جہاں تک بورڈز میں سنٹرل مارکنگ کے نظام کا تعلق ہے،اسے موجودہ ایمرجنسی کے پیش نظر اس سال کیلئے معطل کیا جا سکتا ہےاور پرانے طریق کار کے مطابق خفیہ رول نمبروں کے ساتھ پرچے اساتذہ کو گھروں میں بھجوائے جا سکتے ہیں۔ان تجاویز پر عمل درآمد سے میرٹ متاثر ہوگا اور نہ ہی کسی کی حق تلفی ہوگی۔
اسکولز کےلئے کام کے دنوں کو پیر تا جمعرات چار دن فی ہفتہ کیا جاسکتا ہے، اسکول دو شفٹ میں کام کر سکتے ہیں تاکہ ایک ساتھ آنے اور ایک ساتھ بیٹھنے والے بچوں کی تعداد کو کم سے کم کیا جاسکے،اسکول کی پہلی شفٹ کا وقت صبح 7:30 سے 10:30 تک اور دوسری شفٹ کا وقت 11:00 بجے سے دوپہر 2:00 بجے تک ہو سکتا ہے، کچھ روز سے کھانسی، نزلہ زکام یا بخار میں مبتلا بچوں کو اسکول سے رخصت دے دی جائے ۔تعلیمی اداروں میں اسٹاف کو SOPs کی تربیت،والدین کو آگہی اورضروری آلات و انتظامات کو ممکن بنایا جائے، نمایاں مقامات پر احتیاطی تدابیر کے چارٹ آویزاں کیے جائیں جبکہ داخلی راستے پر تھرمل اسکینر اور سینیٹائزنگ واک تھرو گیٹ، ہر بچے اور اسٹاف کے لیے ماسک کا انتظام کیا جائے اور ہفتہ وار بنیادوں پر عمارتوں پر فیومیگیش کرائی جائے ۔
نویں سے بارہویں جماعت کے امتحانات کے یکسر منسوخ ہونے سے بہت ساری پیچیدگیاں پیدا ہوں گی جنہیں حل کرنے میں اسکولز،والدین اور تعلیمی بورڈز سب ہی مہینوں پریشان رہیں گے ،ایک یا زیادہ پیپرز میں فیل بچے، نویں اور گیارہویں جماعت کے نتیجے کا معیار، امپرومنٹ کے امیدوار، پرائویٹ امتحان دینے والے، دوسرے بورڈز کے بچے اور ان گنت پریشانیاں سب کےلئے دشواری کا سبب ہوں گی۔نویں اور دسویں جماعت کے امتحانات یکم جولائی سے 15 جولائی تک، اور انٹرمیڈیٹ کے آمتحانات مرحلہ وار 20 جولائی سے 20 اگست تک لیے جائیں، امتحانی مراکز کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ 150 سے 200 بچوں کی تعداد رکھی جائے جبکہ امتحانی مراکز میں داخلے اور باہر نکلنے کے دوران فاصلہ رکھ کر قطار بنوائی جا سکتی ہے۔امتحانی مراکز کے داخلی راستے پر تھرمل اسکینر ڈیوائس اور سینیٹائزنگ واک تھرو گیٹ کا انتظام کیا جائے، ہر بچے اور اسٹاف کے لیے پورا وقت ماسک پہننا ضروری قرار دیا جائے، کھانسی، نزلہ زکام یا بخار میں مبتلا بچوں کو سالانہ امتحان میں شریک نہ کیا جائے ایسے بچوں کو ضمنی امتحان میں موقع دیا جائے۔امتحانی پرچوں میں مختصر جواب والے سوالات اور MCQs ہوں اور اسکے لیے 12 سے 16 صفحات پر مشتمل سوالات و جوابات کے لیے ایک ہی کاپی ہونی چاہئے،پیپر کا دورانیہ دو گھنٹے کا رکھاجائے۔معروضی اور مختصر سوالات کی وجہ سے پیپر اسیسمنٹ میں وقت کم صرف ہو گا۔دسویں جماعت کا نتیجہ 10 اگست تک جاری کر دیا جائے،نویں جماعت کا نتیجہ 30 اکتوبر تک جاری کیا جاسکتا ہے جبکہ بارہویں جماعت کے نتائج 15 اکتوبر تک جاری کر دئیے جائیں اور گیارہویں جماعت کے نتیجے 30 نومبر تک جاری ہو سکتےہیں۔سابقہ نتائج کا موجودہ کلاس کے نتائج پراطلاق کا فارمولہ آسانیوں کے ساتھ بہت سار ی قباحتیں بھی رکھتا ہے،فیل شدہ،نمبروں کو بہتر بنانے والے امتحانی امیدواروں کےمسائل بڑے اہم ہیں،خصوصاً زیادہ محنت کرکے سابقہ نتائج سے بہتر نتائج کے آرزو مند امیدواروں کو اس فیصلے سے زیادہ دکھ اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑ ے گا،دراصل یہی وہ بچے ہیں جن میں آگے بڑھنے کی صلاحیت موجود ہے اور انکو نظر انداز کرنا حوصلہ شکنی کے مترادف ہوگا۔ہمارے ملک میں مختلف بورڈزہیں اورسب کے امتحانات کا معیار ایکدوسرےسےمختلف ہے۔ٹیکسٹ بک بورڈز،تدریسی اداروں اورامتحانی بورڈزمیں ایک دوسرےسےرہنمائی ومشاورت،فیصلہ سازی،معیار بندی اور دیگر امور میں ربط و ہم آہنگی،کا فقدان پایا جاتا ہے،لہٰذااس فیصلےسےتعلیم کے معیار کا مزید نقصان ہوگا۔ ہنگامی صورت ِحال ہےاوراس میں اس قسم کے فیصلے مجبوری بن جاتی ہے،تاہم اتنی جلدی بھی نہیں کرنی چاہیے کہ بنیادی مسائل اور لوازمات کا خیال تک نہ رکھا جائے۔
زندگی کے ہرشعبے سے لاک ڈاؤن اٹھایا جارہا ہے ،بہتر ہوتا کہ تمام سٹیک ہولڈرز کو موجودہ صورت حال میں متبادل نظام کی تشکیل کا کام سونپ دیا جاتا اوراس سے بہتر،ممکنہ رستے نکال لیے جاتے ۔تمام تر حفاظتی تدابیر کو اختیار کرتے ہوئے موجودہ صورت حال کو ایجوکیشن فار کروناکے لیے استعمال کیا جاتا۔بہر حال اس فیصلے کو موثراورمعیاری بنانےکےلیےممکنہ نظر ثانی،جانچ پرکھ کی ضرورت ہے۔ ماہرین تعلیم سے مشاورت کرکے ایسا میکنزم تشکیل دیاجائے جس میں صحت،تعلیمی معیار،حوصلہ افزائی اورحوٍصلہ شکنی کے پہلوؤں کو مدنظر رکھا جائے۔واضح پالیسی بناکر طلبا،والدین،اساتذہ اور اداروں کو اس حوالے سے رہنمائی دی جائے اور آئے روز کے اعلانات سے گریز کیا جاسکے۔
کرونا وائرس اور لاک ڈائون کی وجہ سے پہلے ہی تعلیم کا جس قدر نقصان ہواہے،اگلے کئی سال ہم اسکے آفٹر شاکس برداشت کرتے رہیں گے کیونکہ یہ ملک کبھی بھی ایسے فیصلے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھااوراسکی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ہم نے آج تک آن لائن نظامِ تعلیم کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی تھی،ہم نے آج تک اپنے تعلیمی ڈیپارٹمنٹس کو ماڈرنیٹ نہیں کیا اور آج جب آن لائن تعلیم کی ضرورت پڑی تو ملک کے ننانوے فیصدتعلیمی ادارے بھی ناکام ہو گئے اور اسکا نقصان کس قدر ہوا،ہمارے پاس آن لائن نظامِ تعلیم کا کوئی واضح روڈ میپ نہیں اور شاید اگلے کئی سال تک یہ ممکن بھی نہ ہو سکے۔حکومت یہ واضح کرے کہ امتحانات کی منسوخیکے بعد یونیورسٹیز میں میڈیکل‘ انجینئرنگ کا میرٹ کس بنیاد پر بنے گا؟یا نویں پاس کیے بغیر دسویں میں اور بارہویں پاس کیے بنا یونیورسٹیز میں کس بنیاد پر بھیجا جائے گا؟۔یقینا کوئی قابلِ قدر لائحہ عمل نہیں ہوگااور ہمیں آخر کار یہ فیصلہ بدلنا ہوگا اور اگر ایسا نہ کیا تو اگلے کئی سال اس فیصلے کے نقصانات ہمیں جھیلنے پڑیں گے اور محکمہ تعلیم جو پہلے ہی بیساکھیوں پہ چل رہا ہےیہ مکمل طور پر بیٹھ جائے گا۔اس حوالے سے پوری طرح مشاورت یا ہوم ورک نہیں کیا گیا۔لہذاماہرین تعلیم،جائزہ کاروں،معیار سازوں سے مشاورت،بین الاقوامی سطح پر اس قسم کی صورت حال میں دوسرے ممالک کے تجربات سے آگاہی و استفادہ ،ملکی تعلیمی و امتحانی نظام کا تنقیدی جائزہ اور اسکے ساتھ ساتھ میکنزم کی تشکیل اہم امور تھے،جنکو فیصلے سے قبل اپنی تمام تر جزئیا ت کے ساتھ ملحوظ رکھنا ضروری تھا۔ بہتر ہوتا کہ اس حوالے سے ممکنہ مسائل کو اعلان سے پہلے ماہرین کے سامنے رکھ لیا جاتا۔ ترقی یافتہ ممالک کا تدریسی و امتحانی نظام کافی حد تک سائنٹفک اصولوں کو مدنظر رکھ کر چلایا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں ہمیشہ معیار کو مقدار پر قربان کرنے کی روش ملتی رہی ہے۔ہم برابری یا مساوات کے قائل ہیں جب کہ عدل کا تقاضا ہے کہ جس کا جتنا استحقاق ہے،اسے اتنا ہی دیا جائے۔ نمبر گیم سے ہم پہلے ہی معیار تعلیم بلند کرتے آرہے ہیں!
اب جبکہ چین کےصوبےووہان،انڈیا، ایران،بنگلہ دیش،سپین سمیت دیگر کئی ممالک میں تعلیمی ادارے کھل چکے ہیں۔بورڈ امتحانات منسوخ کرنے اور طلبا کا مستقبل برباد کرنےکی بجائے بورڈ امتحانات سماجی فاصلے کو برقرار رکھ کر تمام اضافی سرکاری و پرائیویٹ اساتذہ کی ڈیوٹیاں لگا کرسرکاری و پرائیویٹ سکولز وکالجزکو امتحانی سنٹرز بناکر منعقد کیے جائیں۔بورڈ امتحانات منسوخ کرنےکیصورت میں،بورڈز کوفیس اور فنڈز کی مد میں 45لاکھ طلبا سے وصول شدہ25ارب روپےطلبا کوفوراواپس کرنےہونگے۔لہذاحکومت کوایسےغیرآئینی اقدامات بند کرنےہونگے۔پہلے ہی سندھ ہائی کورٹ کی طرف سےفیسوں بارے حکومت سندھ کےآرڈنینس و نوٹیفکیشن کو آئین سے متصادم اور غیر قانونی قراردیناپرائیویٹ سکولز کے اصولی موقف کی فتح ہے۔فیسوں کے حوالے سےحکومت پنجاب کا فیس میں 20فی صد کمی کا نوٹیفیکیشن اورآرڈیننس بھی لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بنچ میں چیلنج کردیاگیاہےکیونکہ یہ نوٹیفکیشنزآئین کے آرٹیکل 18،3،4،5، 25(1)،37اور38 سے متصادم،امتیازی اورغیر قانونی ہیں۔لہذاعجلت میں کئے گئےاسطرح کےفیصلوں سےبہت سارے محنتی طلبا وطالبات کا مستقبل تاریک ہوجائیگا۔اس فیصلے سے جہاں محنتی اور ہونہار طلبا کا نقصان ہے وہاں غیر مستحق طلبا بھی انکے برابر صف میں کھڑے ہوجائیں گے جوسراسر میرٹ کا قتل ہے۔
تعلیمی اداروں کو بھی ایس او پیز کے اصولوں کے تحت کھولا جائے تاکہ نئی نسل کا مزید نقصان نہ ہو۔حکومت جہاں مارکیٹس کو ایس او پیز کے اصولوں کے تحت کھول رہی ہے وہاں تعلیمی اداروں کے سربراہان کوبھی ایس او پیز کا پابند کرکےادارے کھولنے کی اجازت دی جائےتوبچوں کا مستقبل تاریک ہونے سے بچ جائے گا۔نیز پرائیویٹ سیکٹر کے لئے معقول مالی پیکیج کا اعلان بھی کرے تاکہ بلڈنگز کاکرایہ،اساتذہ کی تنخواہوں اور یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی کا بندوبست ہوسکے ورنہ معماران قوم کے گھروں میں چولہے بجھ جائیں گے،اسکا ذمہ دار کون ہوگا؟غیر معمولی حالات میں یقینا غیر معمولی اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں،مگر ایسے اقدامات سے ضرور اجتناب کیا جائےجن سے میرٹ اور انصاف کا خون ہو جائے!
نوٹ:قلم کلب ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ newsdesk@qalamclub.com پر ای میل کیجیے۔