ڈاکٹر محمد مشتاق
1945ء میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر اقوام متحدہ کی تنظیم وجود میں لائی گئی۔ اس تنظیم کے منشور میں حق خود ارادیت کو تمام انسانوں کا بنیادی حق قرار دیا گیا۔ اگرچہ یورپی قابض طاقتوں، بالخصوص بیلجیم نے اس شق پر بہت اعتراض کیا تھا لیکن اس شق کو منشور سے حذف نہیں کیا گیا۔ تاہم ان قابض طاقتوں کے دباؤ کی وجہ سے اصل شق میں تبدیلی کی گئی اور ایک نسبتاً کمزور شق منشور میں داخل کی گئی۔
منشور کے تحت ”لوگوں کے حق خود ارادیت کے احترام پر مبنی بین الاقوامی تعلقات“ کی تشکیل کو تنظیم کا بنیادی مقصد قرار دیا گیا۔ منشور نے تمام چھوٹی بڑی ریاستوں کے لیے مساوات کا اصول بھی تسلیم کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ریاستوں کے ”اندرونی معاملات“میں مداخلت کو ناجائز بھی قرار دیا ہے۔ منشور میں یہ بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کے حق خود ارادیت کا احترام کیا جائے۔ واضح رہے کہ منشور کے تحت تمام رکن ریاستوں پر لازم کیا گیا ہے کہ وہ انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر تنظیم کے بنیادی مقاصد کے حصول کے لیے کوشش کریں۔
اقوام متحدہ کی تنظیم کے قیام کے وقت چوہتر (74) علاقے ایسے تھے جن کو Non-self-governing territories کہا جاتا تھا، یعنی وہ علاقے جن پر وہاں کے لوگوں کی اپنی حکومت نہیں ہے۔ منشور کے گیارھویں باب میں ان علاقوں کو ان کے اوپر قابض طاقتوں کے پاس ”امانت“ (Trust) قرار دیا گیا اور ان کی ذمہ داری یہ قرار دی گئی کہ وہ ان علاقوں کے لوگوں کی بہبود اور ترقی کا خیال رکھیں گے۔ میثاقِ مجلسِ اقوام کے نظامِ انتداب کو اب منشور کے بارھویں باب کے تحت ”نظامِ امانت“ (Trusteeship System) میں تبدیل کردیا گیا اور اس کی نگرانی کے لیے تیرھویں باب کے تحت Trusteeship Council قائم کی گئی۔ نظامِ انتداب کے تحت جو علاقے ایسی طاقتوں کو دیے گئے تھے جنہوں نے دوسری جنگ عظیم میں شکست کھائی ان کو اب اس نئے نظام کے تحت دیگر ریاستوں کو دیا گیا۔ ان Trust Territories کی تعداد گیارہ تھی۔
اس نظام کے تحت مشرقی تیمور کا علاقہ بھی تھا جس پر انڈونیشیا اور پرتگال کا تنازعہ بھی تھا۔ انڈونیشیا نے مشرقی تیمور کے لیے اندرونی خود مختاری کا بھی وعدہ کیا لیکن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے مطابق جب 1999ء میں مشرقی تیمور کے لوگوں سے استصواب رائے کیا گیا تو ان کی اکثریت نے آزادی کو ترجیح دی۔
فلسطین اور ماورائے اردن کا علاقہ 1918ء سے برطانوی انتداب کے تحت تھا۔ 1948ء میں برطانیہ نے اقوام متحدہ کے سامنے اپنی معذوری ظاہر کی اور کہا کہ اب وہ انتداب کی ذمہ داری مزید اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس دوران میں صہیونی تنظیم کے پیروکاروں کی کاوشوں سے برطانیہ، امریکا، فرانس اور دیگر مغربی طاقتوں کے تعاون اور مدد اور جرمن نازیوں کے مظالم کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں یہودی دنیا کے کونے کونے سے فلسطین میں آبادکاری کے لیے پہنچ گئے تھے۔ ان کے اور مقامی عرب آبادی کے درمیان خونریز جھڑپیں بھی ہوتی رہیں۔ بعض یہودیوں نے عرب آبادی اور برطانوی حکومتی اہلکاروں پر حملوں کے لیے تنظیمیں بھی بنائیں۔ بالآخر جب معاملہ اقوام متحدہ کے سامنے پیش ہوا تو جنرل اسمبلی نے فلسطین کو یہودیوں اور عربوں کے درمیان تقسیم کا فیصلہ کرلیا۔ واضح رہے کہ اس وقت جنرل اسمبلی میں اکثریت مغربی ممالک اور ان کے اتحادیوں کی تھی۔ اس تقسیم کے اعلان کے ساتھ فسادات پھوٹ پڑے۔ برطانیہ نے فلسطین سے نکلنے کا اعلان کیا لیکن صہیونی تنظیم کی باقاعدہ مدد جاری رکھی۔ مئی 1948ء میں صہیونی تنظیم بالآخر ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ عربوں کو جنگ میں شکست ہو گئی۔ البتہ یروشلم اور ماورائے دریائے اردن کے علاقے پر ہاشمی امیر عبد اللہ کی حکومت برقرار رہی۔
1956ء میں نہر سویز کے بحران کے موقع پر اسرائیل، برطانیہ اور فرانس نے مشترکہ طور پر مصر پر حملہ کیا لیکن عالمی دباؤ کے نتیجے میں انہیں واپس ہٹنا پڑا۔ اس جنگ کا اور کوئی نتیجہ نکلا ہو یا نہ نکلا ہو، لیکن اتنا ضرور ہوا کہ عرب قوم پرستی کو مزید تقویت ملی اور جمال عبد الناصر کو قوم پرستی کے اس مذہب کے پیغمبر کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ 1967ء میں تیسری جنگ کے موقع پر عربوں کی مشترک طاقت کو عبرتناک اور انتہائی ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اسرائیل نے مزید کئی علاقوں پر قبضہ قائم کرلیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یروشلم پر اسرائیل کا قبضہ ہوا۔ اس قبضے کے بعد ”عرب اسرائیل“ تنازعے نے ”فلسطیینوں اور یہودیوں“ کے تنازعے کی شکل اختیار کرلی۔ یہاں یہ بات ذکر کرنا ضروری ہے کہ 1967ء کی جنگ میں جو علاقے اسرائیل نے قبضے میں لیے یروشلم سمیت ان تمام علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ اقوام متحدہ کے موقف کے مطابق ناجائز ہے اور وہ ریاست اسرائیل کا حصہ نہیں ہیں، بلکہ ان علاقوں میں اسرائیل کو قابض طاقت (Occupying Power) کی حیثیت حاصل ہے۔
مزیدپڑھیے: آزادی کی جنگ اور بین الاقوامی قانون، ڈاکٹر محمد مشتاق (آخری حصہ)
”برطانوی ہند“ کا تعلق نظام انتداب سے نہیں تھا۔ تاہم دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کے لیے ہندوستان پر قبضہ برقرار رکھنا ناممکن ہوگیا تھا۔ چنانچہ برطانوی حکومت نے ہندوستان پر قبضہ ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ ہندوستانی سیاستدانوں کا اس امر پر اختلاف تھا کہ برطانیہ کے قبضے کے خاتمے پر کیا ہندوستان ایک سیاسی وحدت کے طور پر برقرار رہے یا اسے تقسیم کردیا جائے۔ 1946ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کی کامیابی نے تقسیم کی راہ ہموار کردی جس کو روکنے کی آخری کوشش کے لیے برطانیہ نے تین وزراء بھجوائے لیکن پنڈت نہرو کی ایک بھیانک سیاسی غلطی نے تقسیم کو یقینی کردیا۔
برطانوی ہند میں کچھ علاقے ایسے تھے جن پر برطانیہ کا مکمل کنٹرول تھا اور کچھ علاقوں میں مقامی سرداروں، نوابوں، راجوں، شہزادوں اور والیان کا اختیار تسلیم کیا گیا تھا۔ ان مؤخر الذکر علاقوں کو ”شاہی ریاستیں“ (Princely States) کہا جاتا تھا۔
جون 1947ء میں ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے تقسیم ہند کا جو منصوبہ پیش کیا اس کے تحت طے پایا کہ چونکہ بنگال اور پنجاب کے صوبوں میں ایک طرف مسلمانوں کی اکثریت ہے اور دوسری طرف غیر مسلموں کی، اس لیے اگر وہاں کی اسمبلیاں تقسیم کا فیصلہ کریں تو پھر ان صوبوں کو تقسیم کرکے مسلم اکثریتی علاقے پاکستان میں اور ہندو اکثریتی علاقے بھارت میں شامل کردیے جائیں گے۔ صوبہ سرحد کے متعلق فیصلہ کیا گیا کہ یہاں کے عوام سے استصواب رائے کیا جائے گا کہ وہ پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ۔ یہ فیصلہ اس بنا پر کیا گیا کہ اس صوبے میں کانگریس کے اتحادی سرخپوشوں کی حکومت تھی، حالانکہ یہاں کی آبادی کی انتہائی غالب اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ استصواب رائے میں لوگوں کی غالب اکثریت نے پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کے حق میں ووٹ دیا۔
شاہی ریاستوں کے سربراہان کو حق دیا گیا کہ بھارت یا پاکستان میں کسی کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ کرلیں۔ اگرچہ بعض ریاستوں کے سربراہان نے خود مختار رہنے کا آپشن بھی مانگا مگر اسے تسلیم نہیں کیا گیا۔ اکثر ریاستوں کی جغرافیائی پوزیشن ایسی تھی کہ ان کے سربراہان کے پاس عملاً کوئی آپشن نہیں تھا۔ مثال کے طور پر سوات کی ریاست کا الحاق لازماً پاکستان سے ہونا تھا اور جوناگڑھ کا الحاق لازماً بھارت سے ہی ہونا تھا۔ البتہ جموں و کشمیر کی ریاست ایسی تھی جس کے سربراہ کے پاس یقینا یہ موقع تھا کہ وہ پاکستان یا بھارت میں کسی کے ساتھ بھی شامل ہونے کا فیصلہ کرسکتا تھا، اور یہی تنازعے کا باعث بنا۔ پھر جب تنازعے نے جنگ کی شکل اختیار کرلی اور معاملہ سلامتی کونسل کے پاس چلا گیا تو سلامتی کونسل نے فیصلہ کیا کہ جموں و کشمیر کے عوام سے استصواب رائے کیا جائے۔ یوں پہلی دفعہ حق خود ارادیت کا معاملہ نظام انتداب اور نظام امانت سے باہر علاقوں تک بھی چلا گیا۔
مزیدپڑھیے: آزادی کی جنگ اور بین الاقوامی قانون، ڈاکٹر محمد مشتاق (حصہ اول)
دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپی قابض طاقتیں کمزور ہوگئی تھیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایشیا، افریقہ، مشرق بعید اور لاطینی امریکا میں ان کے خلاف مزاحمت میں مزید شدت آتی گئی۔ اس دوران میں بین الاقوامی سطح پر حالات کی تبدیلی میں ایک اور عامل نے اہم کردار ادا کیا اور وہ تھا روس کا امریکا اور مغربی طاقتوں کے مد مقابل کے طور پر سامنے آنا۔ 1949ء میں روس کی مدد سے چین میں کمیونسٹوں نے امریکی اتحادی نیشنلسٹ حکومت کو شکست دے کر عوامی جمہوریۂ چین کی تشکیل کا اعلان کیا۔ 1950ء میں امریکا اور اس کے اتحادیوں نے شمالی کوریا پر حملہ کیا جسے روس اور چین کے تعاون سے پسپا کیا گیا اور بالآخر جنگ بندی کا سمجھوتہ کرنا پڑا۔
1956ء میں نہر سویز کے تنازعے کے موقع پر اگرچہ روس نے مصر کی مدد نہیں کی لیکن اس موقع پر امریکا نے اسرائیل، برطانیہ اور فرانس کے خلاف سلامتی کونسل میں قرارداد پیش کرکے ان کو واپس ہونے پر مجبور کیا اور اس تنازعے کے بعد برطانیہ اور فرانس کو مشرق وسطی میں اپنے کئی اڈے ختم کرنے پڑے۔ اس خلا کو پر کرنے کے لیے امریکا اور روس میں دوڑ شروع ہوئی۔ کئی عرب ممالک میں اشتراکی حکومتیں قائم ہوئیں۔ سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکی نظام کی کشمکش نے جلد ہی افریقہ اور ایشیا کے بیشتر علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
چونکہ سرمایہ دارانہ نظام کو قابض طاقتوں کا نظام سمجھا جاتا تھا اس لیے ان علاقوں میں قابض طاقتوں کے خلاف مزاحمت کرنے والے لوگوں نے اشتراکی نظام میں کافی کشش محسوس کی۔ دوسری طرف چینی گوریلا مزاحمت کار بھی ان کے لیے نمونہ اور ماڈل بن گئے۔ اس لیے ان علاقوں میں ”قومی آزادی“ کی تحریکوں اور اشتراکیت نے مل کر ایک نئے نظریے کی تشکیل کی۔ دنیا کے مختلف خطوں میں آزادی کے لیے جد و جہد کرنے والوں نے باقاعدہ مسلح جد و جہد بھی شروع کی اور ایک دفعہ پھر قومی آزادی کی جنگ اور دہشت گردی کے درمیان موازنہ کیا جانے لگا۔ تاہم اب توازن کا رخ قومی آزادی کے لیے لڑنے والوں کے حق میں تھا۔ اس پس منظر میں 1960ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے مقبوضہ علاقوں کے لیے مشہور ”اعلان آزادی“ (Declaration of Independence) کیا۔
اس قرارداد میں ایک طرف یہ بات تسلیم کی گئی کہ حق خود ارادیت سے انکار بین الاقوامی جنگوں کا باعث بنتا ہے اور دنیا میں امن کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کے اوپر سے ”غیروں کے تسلط“ (Alien Domination) کا خاتمہ کیا جائے، تو دوسری طرف اس قرارداد میں اس حقیقت پر بھی زور دیا گیا کہ کئی مقبوضہ علاقوں کے لوگوں کی جد و جہد کامیابی سے ہمکنار ہوچکی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا گیا کہ کئی دیگر علاقوں میں آزادی کی تحریکیں دن بدن زور پکڑتی جارہی ہیں اور ان کو دبانا اب ممکن نہیں رہا ہے۔ اس پس منظر میں ”تمام لوگوں“ کے لیے حق خود ارادیت کا اعلان کیا گیا۔ پھر بالخصوص مقبوضہ علاقوں کے لوگوں کے لیے اس بنیادی انسانی حق کے تحفظ اور نفاذ کو لازمی اور دنیا کے امن کے لیے ضروری قرار دیا گیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ ان علاقوں کے لوگوں کو اپنی حکومت خود چلانے کے لیے نااہل نہیں قرار دیا جاسکتا خواہ وہ سیاسی، معاشی یا تعلیمی طور پر پسماندہ ہوں۔ ان لوگوں کے خلاف طاقت کے استعمال کو ناجائز قرار دیا گیا اور اس بات پر زور دیا گیا کہ تمام مقبوضہ علاقوں سے غیروں کے قبضے کو پوری طور پر ختم کردیا جائے۔ البتہ ریاستوں کے ”اندرونی معاملات“ میں مداخلت کی پابندی کو اس قرارداد میں بھی دہرایا گیا تاکہ آزادی کی تحریکوں کی مدد کے بہانے سے ریاستیں دوسری ریاستوں میں مداخلت کرکے عالمی عدم استحکام کا باعث نہ بن سکیں۔
تقریباً انہی باتوں کو اگلے کئی سالوں تک دیگر اہم قراردادوں میں دہرایا گیا۔ ان میں ایک اہم قرارداد 1970ء میں منظور کی گئی جس کا عنوان تھا: بین الاقوامی قانون، ریاستوں کے مابین دوستانہ تعلقات اور تعاون کے قواعد عامہ کا اعلان“ (Declaration of the Principles of International Law, Friendly Relations and Cooperation between States)۔ اس قرارداد میں حق خود ارادیت کے حوالے سے دیگر باتوں کے علاوہ ایک اہم بات یہ کی گئی کہ حق خود ارادیت کی جد و جہد کے تین قانونی نتائج نکل سکتے ہیں:
۱۔ آزاد اور خودمختار ریاست کا قیام؛
۲۔ کسی دوسری ریاست کے ساتھ آزادانہ الحاق؛
۳۔ کسی اور سیاسی حیثیت کا تقرر جو لوگوں کی آزادانہ مرضی سے ہو۔
1967ء کے بعد سے اسرائیلی قبضے کے خلاف برسرپیکار فلسطینی مزاحمت کاروں نے اس بحث کو ایک نیا موڑ دیا کیونکہ اب جہازوں کا اغوا کرنا، لوگوں کو یرغمال بنانا اور اس طرح کے دیگر طریقوں سے قابض طاقت کو مادی اور نفسیاتی نقصان پہنچانے کا سلسلہ تیز ہوا۔ اسرائیل اور دیگر ریاستیں اسے دہشت گردی کا نام دیتی رہیں اور اس طرح ”بین الاقوامی دہشت گردی“ (International Terrorism) کی اصطلاح بھی مستعمل ہونے لگی۔ اس پس منظر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1972ء میں ایک اہم قرارداد منظور کی جس کا عنوان تھا: ”بین الاقوامی دہشت گردی کے تدارک کے لیے اقدامات“ (Measures to Prevent International Terrorism)۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ اس قرارداد کا عنوان دہشت گردی کا تدارک تھا لیکن اس میں پھر حق خود ارادیت کو تسلیم کرنے پر زور دیا گیا۔ قرارداد کے مکمل عنوان میں دہشت گردی کے اسباب کا بھی ذکر کیا گیا:
Measures to prevent international terrorism which endangers or takes innocent human lives or jeopardizes fundamental freedom, and study of underlying causes of those forms of terrorism and acts of violence which lie in misery, frustration, grievance and despair and which causes some people to sacrifice human lives, including their own, in order to affect radical changes
(دہشت گردی، جو معصوم انسانوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالتی ہے اور بنیادی آزادیوں کو نقصان پہنچاتی ہے، کی روک تھام کے لیے اقدامات اور دہشت گردی اور متشددانہ کاروائیوں کی ان اقسام کے اسباب کا مطالعہ جن کی جڑیں بے بسی، پریشانی، احساس محرومی اور مایوسی میں پائی جاتی ہیں جو بعض لوگوں کو ان کی اپنی زندگی سمیت دیگر انسانوں کی زندگیوں کی بھینٹ اس مقصد کے لیے دینے پر مجبور کردیتی ہیں کہ وہ کوئی بڑی تبدیلی لے آئیں۔ )
یہ عنوان سالہاسال تک کئی قراردادوں کو دیا گیا۔ اس عنوان کے ساتھ آخری قرارداد دسمبر 1989ء میں منظور کی گئی۔
1974ء میں جنرل اسمبلی نے ایک اور اہم قرارداد منظور کی جس کے ذریعے ”جارحیت“ (Aggression) کی تعریف پیش کی گئی۔ اگر کوئی ریاست کسی دوسری ریاست کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرے تو اقوام متحدہ کے منشور کے باب ہفتم کے تحت جارح ریاست کے خلاف سلامتی کونسل کو اجتماعی فوجی کاروائی کا اختیار ہوتا ہے۔ جنرل اسمبلی نے اس قرارداد کی دفعہ ۷ میں تصریح کی ہے کہ آزادی کی جنگ لڑنے والوں یا ان کی مدد کرنے والوں کو جارحیت کا مرتکب نہیں قرار دیا جاسکتا۔ البتہ ایک دفعہ پھر ریاستوں کو یاد دلایا گیا کہ دیگر ریاستوں کے ”اندرونی معاملات“ میں مداخلت ناجائز ہے۔
1977ء میں جنیوا معاہدات کے ساتھ دو اضافی معاہدات ملحق کیے گئے اور ان اضافی پروٹوکولز میں پہلا پروٹوکول بین الاقوامی مسلح تصادم کے دوران میں عام شہریوں کے تحفظ کے متعلق ہے۔ اس پروٹوکول کی ایک اہم شق یہ ہے کہ آزادی کی جنگ کو ”بین الاقوامی مسلح تصادم“ قرار دیا گیا۔ چنانچہ کوئی ریاست یہ نہیں کہہ سکتی کہ اس کے زیر تسلط علاقے میں جاری آزادی کی جنگ اس کا ”اندرونی معاملہ“ ہے۔ مزید برآں، اس پروٹوکول نے ”مقاتل“ (Combatant) کی تعریف میں وسعت پیدا کرکے آزادی کے لیے لڑنے والوں کو بھی مقاتل کی حیثیت دی اور قرار دیا کہ قید ہونے کی صورت میں انہیں وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو جنگی قیدی کو حاصل ہوتے ہیں۔ نیز اس پروٹوکول نے تصریح کی کہ بعض ناگزیر حالات میں مقاتل باقاعدہ یونیفارم پہنے بغیر بھی لڑ سکتا ہے بشرطیکہ وہ حملے کے وقت واضح طور پر مسلح ہو اور غدر (Perfidy)کا ارتکاب نہ کرے۔ اس طرح اس نے گوریلا طرز کی جنگ کو بہت حد تک قانونی حیثیت دے دی۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی طاقتیں اور ماہرین قانون بالعموم اس پروٹوکول کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں اور کوشش کرتے رہے ہیں کہ ان شقوں کی ایسی تعبیر پیش کی جائے کہ یہ عملاً غیر مؤثر ہوجائیں۔
اس دوران میں ”ریاستی دہشت گردی“ (State Terrorism) کی اصطلاح بھی عام طور پر مستعمل ہوگئی لیکن اس اصطلاح کو دو مختلف، بلکہ متضاد، مفاہیم میں استعمال کیا جاتا رہا۔ ایک مفہوم کے تحت اسرائیل فلسطینیوں کو مدد فراہم کرنے والی ریاستوں کو ریاستی دہشت گردی کا مرتکب قرار دیتا رہا، جبکہ دوسرے مفہوم کے مطابق فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کو ریاستی دہشت گردی کا نام دیا جاتا رہا۔ 1984ء میں جنرل اسمبلی نے ریاستی دہشت گردی کے خلاف جو قرارداد منظور کی اس میں اس اصطلاح کو ان دونوں مفاہیم میں استعمال کیا گیا۔ اس لیے صحیح قانونی پوزیشن واضح ہونے کے بجائے مزید مبہم ہوگئی۔
دسمبر 1979ء میں سوویت یونین نے افغانستان میں فوجیں داخل کیں اور 1980ء کی دہائی میں سوویت قبضے کے خلاف افغانستان میں جو جنگ لڑی گئی اس نے آزادی کی تحریکوں اور معاصر دنیا میں جہاد کے تصور، نظریے اور تطبیق پر نہایت دور رس اثرات مرتب کیے۔ سوویت یونین کے خلاف مزاحمت نے عالمی سطح پر غیر وں کے تسلط کے خلاف مسلح مزاحمت کی تحریکوں کو بہت تقویت دی، بالخصوص جب 1989ء میں سوویت یونین کو افغانستان سے فوجیں واپس بلوانا پڑیں۔ 1989ء میں ہی مغربی اور مشرقی جرمنی کا الحاق ہوا اور دیوار برلن گرادی گئی۔ خود سوویت یونین کی بڑی ریاست شکست و ریخت کا شکار ہوگئی
[ جاری ہے]
نوٹ:قلم کلب ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔