ڈاکٹر محمد مشتاق
آزادی کی جنگ کی شرعی حیثیت پر الگ گفتگو کی ضرورت ہے لیکن چوں کہ بعض لوگ بین الاقوامی قانون سے ناواقفیت کی بنیاد پر یہ سمجھتے ہیں کہ معاصر قانون کی رو سے اسے ناجائز سمجھا جاتا ہے ، اس لیے یہاں اس ضمن میں بین الاقوامی قانون کی کچھ تفصیلات دی جارہی ہیں ۔
بین الاقوامی قانون میں آزادی کی جنگ کے جواز اور عدم جواز پر بحث ”حق خود ارادیت“ (Right of Self-determination) کے لیے جد و جہد پر بحث کے ضمن میں شروع ہوئی۔
معاصر بین الاقوامی قانونی نظام کی ابتدا یورپ میں ”قومی ریاست“(Nation-state) کے تصور سے ہوئی۔ اس تصور کا بنیادی مفروضہ یہ تھا کہ ایک ریاست کے اندر رہنے والے لوگ ایک قوم ہیں۔ یورپ میں یہ تصور جس طرح وجود میں آیا اور جس طرح اس نے پرانے نظام کی جگہ لی اس پس منظر میں یورپ کی حد تک اس تصور سے کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہیں ہوا، اگرچہ کہیں کہیں ایک ریاست کے اندر رہنے والے لوگ خود کو ”الگ قوم“ متصور کرکے ”آزادی“ حاصل کرنے اور ”الگ ریاست“ کی تشکیل کے لیے آواز بلند کرتے رہے۔ البتہ جب یورپی اقوام کے قبضے کے خلاف ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں مزاحمت کا سلسلہ شروع ہوا تو ”قومی آزادی کی جنگ“ (War of National Liberation) کے جواز اور عدم جواز پر بحث بھی شروع ہوئی۔
ظاہر ہے کہ قابض قوتیں ابتدا میں اس کے جواز کی قائل نہیں ہوسکتی تھیں، اور چوں کہ بیسویں صدی کے ربع اول تک یورپی قوموں کا تصور یہی تھا کہ ریاست کو جنگ شروع کرنے کا مطلق اختیار ہے جو اس کے اقتدار اعلی (Sovereignty)کا لازمی نتیجہ ہے، اس لیے یورپی قبضے اور تسلط کے خلاف جہاں بھی مزاحمت ہوئی اسے ناجائز قرار دیا گیا اور مزاحمت کاروں کو ”دہشت گرد“ (Terrorists) کا خطاب دیا گیا۔ یہیں سے آزادی کی جنگ اور دہشت گردی کے تعلق پر بحث شروع ہوئی۔ پھر آزادی کی جنگ لڑنے والوں نے بھی دہشت گردی کے خطاب کو اپنے لیے اعزاز سمجھنا شروع کیا اور یہ بات مشہور ہوگئی کہ ایک شخص جسے دہشت گرد کہتا ہے وہ دوسرے کے نزدیک آزادی کی جنگ لڑنے والا مجاہد ہے:
One man’s terrorist is another’s freedom fighter.
پہلی جنگ عظیم کے خاتمے (1918ء) پر جو بین الاقوامی نظام وجود میں آیا اس میں آزادی کی جنگ اور حق خود ارادیت کی جد و جہد کی بحث کو ایک نیا رخ دیا۔
اس جنگ عظیم میں ترکی اور جرمنی نے شکست کھائی اور ان کے زیر تسلط علاقوں پر برطانیہ، فرانس اور ان کے اتحادیوں کا قبضہ ہوگیا۔ جنگ کے دوران میں ہی انہوں نے مستقبل کے متعلق جن امور پر آپس میں اتفاق کیا تھا ان میں ایک امر یہ تھا کہ جنگ کے بعد ان علاقوں کو کس طرح تقسیم کرنا ہے، بالخصوص مشرق وسطی کے نقشے کو نئے سرے سے بنانے (Redrawing the Map of the Middle East) کا منصوبہ بنایا جاچکا تھا۔ اسی طرح افریقہ کے وہ علاقے جو اس وقت تک جرمنی کے قبضے میں تھے ان کی تقسیم کا بھی فیصلہ ہوچکا تھا۔ 1918ء میں ”میثاقِ مجلسِ اقوام“ (Covenant of the League of Nations) کے ذریعے ایک عالمی تنظیم قائم کی گئی۔ ان علاقوں کی تقسیم کے لیے میثاق کے تحت ایک ”نظامِ انتداب“ (Mandate System) وضع کیا گیا جس کے تحت طے پایا کہ یہ علاقے مختلف یورپی طاقتوں کو بطور ”ذمہ داری“ (Mandate) دیے جائیں گے اور ان یورپی طاقتوں کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ ان علاقوں کے لوگوں کو اپنی حکومت خود چلانے (Self-rule) کا اہل بنائیں اور اس مقصد کے لیے ان کی تربیت کریں۔ پھر جب وہ اس کے اہل ہوجائیں گے تو یورپی طاقتیں ان پر قبضہ ختم کرلیں گی۔ یوں دو صدیوں سے جاری ظلم و استحصال کو ایک قانونی شکل دے دی گئی۔
اس نظام کے تحت مقبوضہ علاقوں کو تین درجوں میں تقسیم کیا گیا:
درجۂ اول (Mandate ‘A’): اس درجے میں رکھے گئے علاقوں کو کاغذات کی حد تک یہ حق دیا گیا کہ وہ اپنے اوپر قبضے کے لیے یورپی طاقتوں میں کسی کو اپنی مرضی سے چن سکتے ہیں۔ ویسے عملاً ایسا کچھ نہیں ہوا اور عراق کے امیر فیصل نے فرانس جاکر جب اس سلسلے میں مذاکرات کی کوشش کی تو کسی نے اس کی بات سنی ہی نہیں۔ ان علاقوں میں قابض یورپی طاقت کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ ان علاقوں کے لوگوں کو ”انتظامی امور میں مشورے اور تعاون“دیں یہاں تک کہ یہ خود اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے اہل ہوجائیں۔ عرب علاقے جو اس وقت تک عثمانی سلطنت کا حصہ تھے اس درجے میں رکھے گئے۔ شام کا علاقہ فرانس کے سپرد کیا گیا جبکہ عراق، فلسطین اور دریائے اردن کے پار کا علاقہ برطانیہ کو دیا گیا۔ یاد رہے کہ 1917ء میں برطانوی وزیر خارجہ بالفور نے عالمی صہیونی تنظیم کے سربراہ کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ جنگ کے خاتمے پر برطانیہ فلسطین میں یہودیوں کے لیے ”قومی وطن“ (National Home) کی تشکیل میں ہر ممکن مدد دے گا۔
درجۂ دوم (Mandate ‘B’): اس درجے میں زیادہ تر افریقہ کے وہ علاقے رکھے گئے جو اس وقت تک جرمنی کے مقبوضہ جات تھے۔ ان علاقوں کو مجلس اقوام کی تمام ممبر ریاستوں کی تجارت کے لیے آزاد رکھا گیا۔ البتہ قابض ریاستوں کی ذمہ داری قرار دی گئی کہ وہ ان علاقوں میں غلاموں کی تجارت اور اسلحے کی ترسیل ختم کرنے کی کوشش کریں۔ ٹانگانائیکا کو برطانیہ، بیلجیم اور پرتگال میں، جبکہ کیمرون اور ٹوگولینڈ کو برطانیہ اور فرانس میں تقسیم کردیا گیا۔
درجۂ سوم (Mandate ‘C’): اس درجے میں مغربی افریقہ اور بحر الکاہل میں جرمنی کے سابقہ مقبوضہ جات کو رکھا گیا۔ مغربی افریقہ کے علاقوں کو جنوبی افریقہ کے حوالے کیا گیا جبکہ بحر الکاہل کے علاقوں کو آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جاپان میں تقسیم کیا گیا۔ مجلس اقوام کی ممبر ریاستوں کو ان علاقوں میں تجارت کی قطعاً اجازت نہیں تھی۔ واضح رہے کہ درجۂ دوم اور درجۂ سوم کے علاقوں کے لوگوں کو قابض فوج میں ملازمت کی اجازت بھی نہیں تھی۔
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری محسوس ہوتی ہے کہ پہلی جنگ عظیم سے قبل ان یورپی طاقتوں نے جن علاقوں پر قبضہ کیا تھا ان پر وہ اپنا قبضہ قانونی طور پر جائز اور مستقل سمجھتی تھیں اور انتداب کا نظام ان کے لیے نہیں تھا۔ چنانچہ مثال کے طور پر برصغیر کو 1857ء سے ”برطانیۂ عظمی“کا حصہ سمجھا جاتا تھا اور اسے ”برطانوی ہند“ کہا جاتا تھا۔ برطانیہ کے بادشاہ کے القابات میں ایک لقب ”شہنشاہِ ہند“ کا بھی تھا۔
1919ء کے ورسائی معاہدے (Treaty of Versailles) میں یورپ کی حد تک علاقائی تنازعات کے حل بھی کوشش کی گئی۔ چنانچہ جرمنی کے مقبوضہ علاقے ”طاس ِسار“ (Saar Basin) کو فرانس کے قبضے میں دیا گیا تاکہ جرمنی کے حملے سے فرانس کو جو نقصان پہنچا اس کی تلافی ہوسکے! البتہ ساتھ ہی طے پایا کہ اس علاقے کے لوگوں سے پندرہ سال بعد استصواب رائے (Plebiscite) کیا جائے گا۔ 1935ء میں کیے گئے استصواب رائے میں لوگوں کی غالب اکثریت نے جرمنی کے ساتھ الحاق کے حق میں رائے دی۔
1864ء میں جرمنی نے ڈنمارک سے شمالی اور مرکزی شلیز وگ (Schlezwig) کے علاقے قبضے میں لیے تھے۔ یہاں جب استصواب رائے کیا گیا تو شمالی علاقے نے ڈنمارک کے ساتھ اور مرکزی علاقے نے جرمنی کے ساتھ الحاق کو اختیار کیا۔
ایک اور استصواب رائے کے ذریعے بالائی سلیشیا (Upper Silesia) کو جرمنی اور پولینڈ کے درمیان تقسیم کردیا گیا۔
مزیدپڑھیے: آزادی کی جنگ اور بین الاقوامی قانون، ڈاکٹر محمد مشتاق (حصہ دوم)
1917ء میں امریکی صدر ووڈرو ولسن نے یورپی طاقتوں کو تنبیہ کی تھی کہ اگر انہوں نے مقبوضہ علاقوں میں بندربانٹ کی اور لوگوں کی خواہشات اور حقوق کا خیال نہ رکھا تو ان علاقوں میں کبھی امن قائم نہیں ہوسکے گا اور یہ دنیا کے امن کے لیے بھی خطرے کا باعث بنیں گے۔ ولسن کے ان الفاظ کو حق خود ارادایت کی بہترین وضاحت سمجھا جاتا ہے:
We believe first, that every people have the right to choose the sovereignty under which it shall live; second, that the small states of the world have a right to enjoy the same respect for their sovereignty and for their territorial integrity that the powerful nations expect and insist upon; third, that the world has a right to be free from every disturbance of its peace that has its origin in aggression and disregard of the right of peoples and nations.
(ہم یقین رکھتے ہیں اولاً کہ تمام لوگوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ خود اپنے لیے وہ حکومت پسند کریں جس کے تحت وہ رہنا چاہتے ہیں؛ ثانیاً کہ دنیا کی چھوٹی ریاستیں اپنے اقتدار اعلی اور اپنی علاقائی سا لمیت کے احترام کا اتنا ہی حق رکھتی ہیں جتنا بڑی طاقتیں اپنے لیے توقع رکھتی ہیں اور اصرار کرتی ہیں؛ ثالثاً کہ دنیا کویہ حق حاصل ہے کہ اس کا امن ہر طرح کی خرابی سے محفوظ رہے جس کی جڑیں جارحیت اور لوگوں اور اقوام کے حقوق کے عدم احترام میں پائی جاتی ہیں۔)
No peace can last, or ought to last, which does not accept the principle that governments derive all their just powers from the consent of the governed, and that no right anywhere exists to hand people from sovereignty to sovereignty as if they were property.
(کوئی امن اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا، نہ ہی قائم ہونا چاہیے، جب تک اس کی بنیاد اصول کے تسلیم کرنے پر نہ ہو کہ حکومتیں اپنے تمام جائز اختیارات عوام کی رضامندی سے حاصل کرتی ہیں اور کوئی ایسا حق کہیں پایا نہیں جاتا جس کے تحت لوگوں کو ایک حکومت سے دوسری حکومت کے حوالے یوں کیا جائے جیسے وہ انسان نہیں بلکہ اموال ہوں۔ )
اپنے مشہور ”چودہ نکات“میں ولسن نے ایک طرف آسٹریا اور ہنگری کے لوگوں کے لیے ”زیادہ سے زیادہ“آزادی کے مواقع دینے کی بات کی اور رومانیہ، سربیا اور مونٹے نیگرو سے غیر ملکی فوجوں کے مکمل انخلا کو ضروری قرار دیا تو دوسری طرف اس پر بھی زور دیا کہ عثمانی سلطنت میں موجود ”ترک علاقوں“ پر مشتمل ریاست کی خودمختاری کو محفوظ بنانا نہایت ضروری ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف ولسن نے حق خود ارادیت کا چیمپئن بننے کی کوشش کی اور دوسری طرف امریکی حکومت نے روسی صدر لینن کو اس بنا پر مذمت کا نشانہ بنایا ہوا تھا کہ لینن نے افریقہ اور ایشیا کی تمام اقوام کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرنے پر زور دیا تھا۔ امریکی وزیر خارجہ لینزگ نے صراحتاً قرار دیا کہ اگر حق خود ارادیت کو افریقہ اور ایشیا کی اقوام کے لیے تسلیم کیا گیا تو مستقبل کا عالمی نظام عدم استحکام کا شکار ہوجائے گا۔
اس سے معلوم ہوا کہ امریکی صدر نے جس حق خود ارادیت کی بات کی اس سے مراد صرف یورپی اقوام کا حق خود ارادیت تھا! یہی وہ دوہرا معیار ہے جو حق خود ارادیت کی جد و جہد اور آزادی کی جنگ کے سلسلے میں مغربی طاقتوں کی پالیسی کا رکن ِ رکین رہا ہے۔ چنانچہ مثال کے طور پر 1941ء میں امریکی صدر اور برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جسے ”منشور اوقیانوس“ (Atlantic Charter) کہا جاتا ہے۔ اس منشور میں بشمول دیگر امور کے کہا گیا:
They desire to see no territorial changes that do not accord with the freely expressed wishes of the people concerned. They respect the right of all peoples to choose the form of government under which they live; and they wish to see sovereign rights and self-government to those who have been forcibly deprived of them.
(وہ کوئی ایسی جغرافیائی تبدیلی دیکھنا نہیں چاہتے جو لوگوں کی مرضی کے آزادانہ اظہار کے مطابق نہ ہو۔ وہ تمام لوگوں کے اپنی پسند کی حکومت کے تحت رہنے کا حق کا احترام کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو جبراً اقتدار اعلی اور اپنی حکومت سے محروم کیا گیا ہے انہیں یہ حقوق پھر میسر ہوں۔ )
تاہم بعد میں چرچل نے دار العوام سے خطاب کے دوران میں قرار دیا کہ یہ وعدہ صرف یورپی اقوام کے لیے اور ان کے لیے کیا گیا تھا جو جرمن نازی مظالم کے تحت گھرے ہوئے تھے
[ جاری ہے]
مزیدپڑھیے: آزادی کی جنگ اور بین الاقوامی قانون، ڈاکٹر محمد مشتاق (آخری حصہ)
نوٹ:قلم کلب ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔