آصف سلیم
سعودیہ بین القوامی سطح پہ پیٹرولیم مصنوعات کی مارکیٹ میں لیڈرشپ کیلئے نکلا ھوا ھے۔ پاکستان، ساوتھ افریقہ، کوریا، چین اور انڈیا میں سرمایہ کاری سعودیہ کے ویژن 2030 کا حصہ ھے۔ اسکے ساتھ ساتھ سعودیہ پیٹروکیمیکلز مارکیٹ میں بھی مناپلی کی منصوبہ بندی کر چکا ھے۔ اسی سوچ کے تحت سعودیہ نے اپنی پیٹروکیمیکلز پروڈیوسنگ کمپنی SABIC اور ARAMCO کو مرج کر دیا ھے کیونکہ ARAMCO بھی اب پیٹروکیمیکلز پروڈیوس کر رہی ھے اور دونوں سرکاری کمپنیاں مارکیٹ میں ایک دوسرے کے مقابل آ جاتی تھیں جس سے کسی کو ایک کو پیچھے ہٹنا پڑتا جو کہ مالی نقصان کی وجہ بن رہا تھا، دوسری طرف انہی دونوں کمنیوں کے دنیا میں 100 سے زائد ممالک میں الگ الگ دفاتر کی ایڈمنسٹریشن اور مارکیٹنگ کاسٹ بھی سعودی حکومت کو ہی مالی نقصان پہنچا رہی تھی۔
دوسری طرف خطے کا کاروباری حریف ایران چونکہ مالی لحاظ سے کمزور ھے،جبکہ کوالٹی کے لحاظ سے بھی ایرانی تیل پانچویں چھٹے نمبر پر ہے اس لئے ایران سعودیہ سے کاروباری مقابلے کی سکت نہیں رکھتا، لہذا ایرانیوں نے سعودیہ کو پچھاڑنے کیلئے سیاسی محاذ کا انتخاب کیا ہے۔ انڈیا اور چین ایران کی مارکیٹ ہے جو عنقریب سعودیہ اس سے چھین لے گا، یمن، شام، لبنان، عراق کے بعد پاکستان سعودیہ کی مارکیٹ ہے جسے ایران اپنے سروائیول کیلئے چھیننا چاہ رہا ہے
کشمیر پہ سعودی و ایرانی موقف انکی کاروباری پالیسیوں کا حصہ ہے، اس معاملے میں امہ امہ کرنے والے دوستوں سے گزارش ہے کہ افغانستان پہ سوویت حملے کے وقت ایران کی امت پسندی کیوں ظاہر نہ ہوئی اور امریکی حملے کے وقت پاکستان و ایران دونوں سہولتکاروں میں کیوں شامل رہے، یقینا اپنے اپنے ملکی مفادات نے ہمیں سہولتکار بننے پہ مجبور کئے رکھا۔ مزید یہ کہ چاہ بہار کی پورٹ انڈیا کو دینے سے بلعموم امت اور بلخصوص پاکستان کی کون سی خدمت کی ؟
آپ احباب سے گزارش ہے کہ امہ امہ کا راگ الاپنے کے بجائے پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کریں جہاں گھر اورخاندان کے افراد ایک دوسرے کیلئے بغض سے بھرے پڑے ہیں، جہاں چپڑاسی سے لیکر گریڈ 22 کے افسر تک اور ویلج کونسل کے ممبر سے لیکر پارلیمنٹ کے ممبر تک اکثریت کسی نہ کسی قسم کی بدعنوانی میں شامل ہے، جہاں سبزی فروش سے لیکر ٹریڈرز و پروڈیوسر تک اکثریت کوالٹی و کوانٹٹی میں ڈنڈی مارنے کو مارکیٹنگ ٹول اور اپنی عقلمندی سمجھتے ہیں۔ جب تک مملکت پاکستان دوسروں کے سہارے پہ چلتا رہے گا تو آپکو بھی کبھی ایرانی اور کبھی سعودی استعمال کرتے رہیں گے، لہذا پہلے اپنے آپ کو اپنے وسائل اور بل بوتے پر زندہ رکھنے کی صلاحیت پیدا کریں پھر بین القوامی معاملات میں برابری کے تعلقات کی توقع رکھیں
نوٹ:قلم کلب ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔