تحریر:محمد ابرار
اپنے ملک کی موجودہصورتحال دیکھ کر کچھ ایسا لگتا ہے کہ دنیاکا خالقپاکستان کے ان بے چارے بیس کروڑ افراد پر مہربانی فرما چکا۔ یہ بیچارے جو قسمت کے مارے ہیں، حالات کے دھتکارے ہیں، یہ جو اپنوں کے ڈسے ہیں اور جو ظالموں کے شکنجے میں پھنسے ہیں، لگتا ہے ان کے اب اچھے دن آنے والے ہیں۔
اسے موجودہ سیاسی ہنگامے کا کوئی ڈرامہ کہیں یا افسانہ، ساز ش کہیں یا آزمائش، سختی کہیں یا تلخی ، مگر موجودہ احتساب پاکستانی اشرافیہ کیلئے درد سر بن چکا ہے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ ملکی خزانے کو باپ دادا کی جاگیر سمجھ کر لوٹنے والوں کے گرد شکنجہ مزید سخت کیا جائے گا۔
کرپشن کی گنگا میں نہانا کوئی نئی بات نہیں ۔۔ تاریخ کے پردے ہٹائیں تو ان پردوں میں کرپشن کے معماروں کے تعمیر کردہ محلات صاف نظر آتے ہیں۔ یہ صرف پاکستان کی کہانی ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں اسی طرح کے معمار نظر آئیں گےجنہوں نے اپنےحرص و ہوس کے محلات کے لئےاُمید اور آس کی کئی جھونپڑیاں مسمار کر دیں
تقسیم ہند سے قبل ہندوستان جو کہ اُس وقت (سونے کی چڑیا ) کہلاتاتھا۔ لٹیرے حملہ آور ہوئے اور یہاں کی دولت لوٹی سمیٹی،شہروں پر ہاتھ صاف کیے اور اپنے دیسوں کو چل دیئے۔
ان لٹیروں کی تاریخ سے گرد ہٹائیں تو عہد رفتہ کے آئینے میں صاف دکھائی دے گا کہ کس طرح سے ماضی میں بھی خزانوں پر ہاتھ صاف کیا گیا۔حالات کے ماروں کے ذہنوں کی دھول دھونے کیلئے مفاد پرستوں نے1757 میں جنگ پلاسی کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنی ساکھ قائم کی اور بنگال میں حکومت بنائی ۔ سب کچھ بدل جاتا ہے لیکن لوٹ مار کی کہانی یہاں بھی حسب سابق چلتی رہتی ہے۔گورے یہاں سے دولت دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہے اور برطانیہ لے جاتے رہےجہاں انھوں نے بڑی جاگیریں ، جائیدادیں اور پارلیمان میں نشستیں خریدیںاور ’’ڈیوک‘‘ کہلائے۔ 1764 میں ہونے والی جنگ بکسر کے بعد دیوانی قوانین بھی فرنگیوں کو مزید طاقتور کیا اور اختیارات کی آڑ میں انھوں نے بھاری ٹیکسوں اور لگان سے مقامی لوگوں کا بھرکس نکال دیا ۔
1857کی جنگ آزادی کے بعدعوام کی حالت اور بھی پتلی ہوجاتی ہے فرنگی لٹیرے امن و امان کی آڑ لیکر مقامی لوگوں پرمظالم کی انتہا کرتے ہیں تو لوٹ مار کا بازار اور بھی گرم ہوجاتا ہے۔
اس کے بعد 1947 کا دورآتا ہے۔۔ ایک لائن کھینچ دی جاتی ہے اور ہندوستان تقسیم ہوجاتا ہے ۔
حالات کے مارے جیسے کسی مسیحا کے انتظار میں ہوتے ہیں اور انھیں یوں اُمید بندھ جاتی ہے کہ وقتی طور پر جبر ہی سہی ، تلخ ہی سہی لیکن یہ وقت کٹ جائے گا پھر اپنا ملک ، اپنی دھرتی اور اپنا نظام ۔۔۔ لیکن ان امید پرستوں کی یہ امید برنہ آئیلیکن جب انہیں بیچ راہ لٹنے پرخبرہوئی تو یہ حقیقت ان پر کھلی کہیہ روایت تو وہی ہے لیکن راستہ نیا ہے۔
آزادی کے بعد حالات بدلے بھی تو اس طرح سے کہپہلے لٹیرے دولت لوٹ کر غزنہ، کابل اور لندن بھیجتے تھے آج ان وارداتیوں کا طریقہ واردات کچھ اور ہے اسلئے دولت خاص طریقوں سے لوٹ کر سوئس اور امریکہ کے بینکوں میں جمع کرائی جاتی ہے۔
کرپشن اور لوٹ مار کی داستان پاکستان میں اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ پاکستان کی تاریخ ۔ خواہ دور دس سالہ ہو یا پانچ سالہ نام نہاد ترقیاتی کاموں پر چاندی کے ورک چڑھا کر ہر دور میں بڑے بڑے جاگیرداروں سے لیکر کرپشن کنگ اور کرپشن کوئین سے ہوتے ہوئے، سوئس بینکوں , پانامہ کے ہنگامہ اور دبئی لیکس تک۔۔۔ ایک سے بڑھ کر ایک جادوگر اپنا کرتب دکھاتا رہا۔ تبدیلی کے وسیع دعوے کرنے والوں کے کارنامے پڑھ کر سرشرم سے جھک جاتا ہے۔
زمانہ بدلاتو وارداتیوں کا طریقہ بھی بدل گیا۔۔ پہلے بزور شمشیر قومی دولت لوٹی جاتی تھی اب جمہوری زنجیر سے لوگوں کو باندھ کرلوٹا جاتا ہے۔ پہلے بوریاں بھری جاتی تھیں اور اب بریف کیس ۔ پہلے لگان بلاواسطہ تھے تو اب بالواسطہ ٹیکس لگا کر عوام کی کمر توڑی جاتی ہے۔ پہلے صاحب بہادر کو خوش کرنے کا طریقہ کچھ اور تھا تو اب ورلڈ بینک اورآئی ایم ایف کو رام کرنے کا انداز کچھ اور۔۔
سنو! لیڈروں کی غلطیوں کو معجزہ کہنے والو۔۔۔ باہر پڑاپیسہ واپس لانے والو۔۔۔ فری علاج مہیا کروانے والو۔۔ ڈاکوں کو جپھی ڈالنے والو ۔۔۔ جرمنی اور جاپان کا بارڈر ملانے والو۔۔
5ارب کی بجائے 50 روپے کے اسٹام پر مٹھائیاں کھانے والو۔۔۔۔ ایک واری فیر کے نعرے لگانے والو۔۔۔ مکے دکھانے پر شور مچانے والو۔۔۔ بارش سے پانی آنے کا راگ سنانے والو۔۔۔۔
یاد رکھو۔۔۔اک مکر ہے اک فریب ہے ۔۔ چہرے بدلتے رہیں گے ۔۔۔ادوار بدلتے رہیں گے ۔ان بدلتے ادوار میں بہت کچھ بدلا اگر نہ بدلا تو قصہ لوٹ مار کا۔۔۔ یہ نہیں بدلے گا۔