اسلام آ باد ( ہیلتھ ڈیسک)پاکستان کے قدیم اور سب سے بڑ ے روایتی میڈیسن کالج ہمدرد یونیورسٹی کے وائس چانسلر سید شبیب الحسن نے کہا ہے کہ ہمیں اپنے لوگوں کو علاج کے متبادل طریقے فراہم کرنے چاہئیں تاکہ وہ صحت کی بہتر سہولیات حاصل کر سکیں۔
چین کے ساتھ تعاون ہمیں اس مقصد کو حاصل کرنے میں مدد دے سکتا ہے ۔ گوادر پرو کے مطابق سید شعبیب الحسن نے کہا کہ کووڈ 19 کے دوران، پاکستانی روایتی ادویات، یونانی ادویات نے پاکستان میں اپنا کردار ادا کیا اور ایلوپیتھی کے ساتھ چین میں روایتی چینی ادویات ( ٹی سی ایم ) نے بھی بہت بڑا کردار ادا کیا۔ ہم نے روایتی ادویات کو فروغ دینے کے لیے چینی یونیورسٹیوں کے ساتھ مفاہمت نامے پر دستخط کیے ہیں، جس میں جڑی بوٹیوں کی ادویات کی شناخت اور کاشت اور معیار کی باہمی پہچان شامل ہے ۔
گوادر پرو کے مطابق انہوں نے کہا اس سال، پاکستانی طلباءکو مزید ٹی سی ایم تربیتی پروگرام فراہم کیے گئے ہیں۔ پاکستان میں ٹی سی ایم کی قبولیت بھی ان سالوں میں بڑھ رہی ہے۔ چینی حکومت نے پاکستانی طلباءکو ٹی سی ایم میں تربیت دینے کے لیے سرمایہ کاری کی ہے اور مواقع فراہم کیے ہیں۔ تاہم، ہم اپنی روایتی ادویات کو اتنی اہمیت نہیں دے رہے ہیں۔
سید شبیب الحسن نے زور دیا کہ یونانی ادویات کو اسی طرح فروغ دیا جانا چاہیے جس طرح ٹی سی ایم کو فروغ دیا گیا ہے۔ ہم اپنے جڑی بوٹیوں کے پودوں کی بنیاد پر ادویات تیار کر سکتے ہیں، اور چین مدد کر سکتا ہے۔ گوادر پرو کے مطابق ڈبلیو ایچ او نے حساب لگایا ہے کہ مارکیٹ میں دستیاب ادویات میں سے 42 فیصد سے زیادہ پودوں یا قدرتی مصنوعات سے حاصل کی جاتی ہیں۔
پاکستان میں جڑی بوٹیوں کی بہتات ہے، ہمیں ٹپوگرافی میں فوائد حاصل ہیں۔ ہمدرد یونیورسٹی کی ایسٹرن میڈیسن کی ڈین احسنہ ڈار فاروق نے مشترکہ تحقیقی پروجیکٹس کرنے کا مشورہ دیا کہ کس طرح یونانی پریکٹیشنرز اور ٹی سی ایم پریکٹیشنرز کسی بیماری کی تشخیص کرتے ہیں تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ دونوں نظاموں میں کیا مشترک ہے اور کیا فرق ہے۔ گوادر پرو کے مطابق ٹی سی ایم اور یونانی ادویات میں بہت سی مماثلتیں ہیں۔
مثال کے طور پر، ہم دونوں توازن اور مجموعی پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، جس کا مطلب ہے پورے جسم پر غور کرنا، جب کہ ایلوپیتھک ادویات کسی ایک علامت پر توجہ مرکوز کرتی ہیں۔ میرے خیال میں بنیادی فرق اجزاءکا ہے۔ وہ اجزاءجو ہمارے علاقے میں نہیں ہیں۔ گوادر پرو کے مطابق پاکستان کی ہمدرد لیبارٹریز میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے سربراہ حکیم عبدالباری نے کہا ان کے تعاون کا اثر یہ ہے کہ چین میں مزید یونانی جڑی بوٹیاں استعمال کی جائیں گی، یہاں مزید چینی جڑی بوٹیاں استعمال ہوں گی۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں پہلے ہی کئی چینی جڑی بوٹیاں عام استعمال کی جا چکی ہیں جن میں چینی یا خطائی شامل ہیں ان میں زیادہ تر چین سے آتی ہیں، جیسے ریوند چینی، جازوار چینی، ریوند خطائی، دار چینی بھی چین سے آتی ہے جسے ہم ڈار چینی کہتے ہیں، ہمارے ہاں سے بھی بہت سی جڑی بوٹیاں چین جاتی ہیں، جس میں سونف شامل ہے ۔
گوادر پرو کے مطابق انہوں نے کہا پاکستانی ہربل ادویات سانس اور جلد کی بیماریوں کے علاج کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں اور مصنوعات وسطی ایشیا اور دیگر ممالک کو برآمد کی جاتی ہیں، ہماری لیب چینی اداروں کے ساتھ تعاون کر رہی ہے جو ہم سے آرڈر بھی لیتے ہیں۔ یہاں سے کم از کم 15 سے 20 قسم کی جڑی بوٹیاں چین کو برآمد کی جاتی ہیں۔