کنکریاں۔کاشف مرزا
وزیراعظم کی جانب سے پنجاب میں پولیس اصلاحات کے حوالے سے منظور کردہ دستاویز میں مخصوص مدت میں کئی اقدامات پر عمل کیلئے کہا گیا ہے جن میں پبلک سیفٹی کمیشنز کا خاتمہ کرکے انکی جگہ ’’انڈیپنڈنٹ ایکسٹرنل انسپیکٹوریٹس‘‘ لانا بھی شامل ہے تاکہ پولیس کے محکمے کو باہر سے بھی احتساب اور نگرانی کے دائرے میں لایا جا سکے۔پنجاب کو 30؍ستمبر کی ڈیڈلائن دی گئی ہے تاکہ صوبائی پولیس کواحتساب کے دائرے میں لایا جا سکے۔مجوزہانسپیکٹوریٹس ڈائریکٹر جنرل اورتقریباً 7؍ چیف انسپکٹرز پر مشتمل ہے۔جو اپنی انسپکشن رپورٹس حکومت کو ارسال کریں گےاور کابینہ کی منظوری کے بعد انہیں شائع کرایا جائے گا۔پولیس ڈپارٹمنٹ کا ’’جمہوری احتساب‘‘ کابینہ کی ذیلی کمیٹی برائے قانون اور امن امان کرے گی۔یہ ذیلی کمیٹی قانون,امن وامان، داخلی سلامتی اور فوجداری نظام انصاف کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ و تجاویز پیش کر سکتی ہے اور ساتھ ہی قانون اور امن امان اور فوجداری نظام انصاف میں اصلاحات اورمختلف اقدامات کیلئے مختص کردہ فنڈز کے استعمال کے حوالے سے بھی فیصلے کر سکتی ہے۔صوبائی کابینہ سے کہا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر اس معاملے کو صوبائی کابینہ کے روبرو پیش کرےاور منظوری حاصل کرکے اسکے نفاذ کا اعلان کرے۔پولیس سروس آف پاکستان اور پنجاب پولیس کے افسران اُس انداز سے ناخوش ہیں جس میں یہ ریفارم پیکیج وزیراعظم کے ہاتھوں منظور ہوا۔پی ایس پی افسران کی رائے ہے کہ ان اصلاحات کے ذریعے سابقہ ڈی ایم جی گروپ اوراب پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس اصل میں پولیس پر اپنا کنٹرول واپس حاصل کرنا چاہتا ہے جیسا کہ ماضی میں نوآبادیاتی دور میں ہوا کرتا تھا۔
سپریم کورٹ کے لاء کمیشن کی جانب سے حال ہی میں وفاق اور صوبوں کو جائزےاور عملدرآمد کیلئے بھجوائی جانےوالی پولیس اصلاحات رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی اور نہ ہی صوبائی حکومتوں نے پولیس آرڈر 2002 پر عملدرآمد کیلئے سیاسی عزم ظاہر کیااور نہ ہی انہوں نے پولیس کو سیاسی طور پر کنٹرول کرنے کی پیاس پر قابو پانے کی کوشش کی ہے۔سندھ اور بلوچستان نے 18ویں آئینی ترمیم کی آڑ میں الٹی چال چلتے ہوئے پولیس آرڈر 2002ء کو منسوخ کر دیا ہے۔خیبر پختونخوا اسمبلی نے بھی پولیس ایکٹ 2017ء کے نام سے اپنا قانون منظور کیا ہے جس میں پولیسنگ کے بنیادی اصولوں کو برقرار رکھا گیا ہے جبکہ پنجاب نے بھی پولیس آرڈر 2002ء کی کچھ اہم شقوں کو تبدیل کر دیا جس سے ایسے سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ آیا صوبوں کے پاس اس بات کا اختیارہے۔پولیس آرڈر 2002ء کے آرٹیکل 184 میں مخصوص ضرورت یا حالات کی بنیاد پر اس قانون میں وزیراعظم کی منظوری سے مشروط ترمیم یا تبدیلی کرنے کے حوالے سے صوبوں کی قانونی صلاحیت پر بات کی گئی ہے تاہم اس میں پولیس آرڈر کی کسی بھی شق کو منسوخ کرنے کے اختیارات کی بات نہیں کی گئی۔ پولیس آرڈر 2002ء کی موجودہ حالت کے حوالے سےالٹی چال چلتے ہوئے، سندھ اور بلوچستان حکومتوں نے پولیس آرڈر کو منسوخ کر دیا اور اس کیلئے سندھ ریپیل آف دی پولیس آرڈر 2002ء اور ریوائیول آف دی پولیس ایکٹ 1861 ءایکٹ2011ء منظور کیا۔اسی طرح بلوچستان میں پولیس ایکٹ نمبر دہم برائے 2011ء جاری کیا گیا۔ بظاہر یہ اقدام 18ویں آئینی ترمیم کی آڑ میں کیا گیا ہے۔خیبرپختونخوا اسمبلی نے بھی 24 جنوری 2017ء کو اپنی طرز کا پولیس ایکٹ 2017ء منظور کیا۔اگرچہ نئے قانون کی بنیاد وہی پولیسنگ اصول ہیں جو پولیس آرڈر 2002ء میں طے کیے گئے تھے لیکن کے پی پولیس ایکٹ 2017میں ایک نئی قانونی اسکیم متعارف کرائی گی جسکے تحت صوبائی قانونی فیلڈاوروفاقی قانونی فیلڈ میں تفریق کی گئی لیکن وضاحت نہیں کی کہ فیلڈ کےمعنی کیا ہیں۔
لا کمیشن کی پولیس اصلاحات کے حوالے سے جہاں تک پنجاب کا تعلق ہے،یہ واحد صوبہ ہے جس نے پولیس آرڈر کو ترامیم کے ساتھ برقرار رکھا ہے۔پولیس آرڈر 2002ءکے آرٹیکل 184؍ کی پنجاب پولیس آرڈر 2002ء(ترمیم)ایکٹ 2013ء کے تحت تنسیخ کا آئینی طور پر جائزہ لینا ابھی باقی ہے۔ وفاقی حکومت 2015ء سے صوبائی دارالحکومت میں پولیس آرڈر2002ء نافذ کرنے کے معاملے میں لیت ولعل سے کام لے رہی ہے۔پولیس آرڈر 2002 ءکے آرٹیکل (3)1 کے تحت وفاقی حکومت کیلئے یہ لازم ہے کہ وہ اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری میں بلدیاتی حکومت کے قیام کے دن ہی پولیس آرڈر 2002ء نافذ کرے۔پولیس آرڈر 2002ء کی حتمی آئینی حیثیت کے تعین کے معاملے میں کسی طرح کے تعصب کے بغیر دیکھیں تو وفاقی اورصوبائی حکومتوں نے پولیس آرڈر 2002ء پر اسکی روح کے مطابق عمل کرنے کے معاملے میں سیاسی عزم ظاہر نہیں کیا،ساتھ ہی انہوں نے پولیس کو سیاسی طور پر کنٹرول کرنے کی پیاس پر قابو پانے کی کوشش کی ہے۔ پولیس کمان اور پولیسنگ آپریشنز کی آزادی کو بنیادی حقوق کے موثراورشفاف انداز سے نفاذ کیلئے ضروری قرار دیے جانےوالے حالیہ عدالتی فیصلے ایسے ذاتی مفادات کیلئے بہت بڑا دھچکا ہیں جنکی وجہ سے قانون کی بالادستی اور اچھی حکمرانی کی مخالفت کی جاتی ہے۔18ویں ترمیم کے پولیس آرڈر 2002ء کی موجودہ حالت پر کسی بھی طرح کے منفی اثرات نہیں تھے۔وفاقی لجسلیٹو لسٹ میں نئے متعلقہ اندراج کی وجہ سے پولیس آرڈر 2002ءکو بحیثیت وفاقی قانون تقویت ملی اور پورے ملک میں ایک ہی پولیس سسٹم کی حمایت کی گئی ہےکیونکہ یکساں اور جدید فوجداری قوانین کے بغیر وسیع پیمانے پرمنقسم فوجداری نظام انصاف کے ماحول میں قانون کا پر اثر اور باصلاحیت ہونا تقریباً ناممکن ہے۔ملک کےمختلف حصوں بالخصوص فاٹا، پاٹا، بلوچستان کے بی ایریااورراجن پورکے قبائلی علاقوں میں مبہم انداز میں مختلف انداز سے نافذ فوجداری نظام کی وجہ سے پاکستان کو طویل عرصہ تک مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔عالمی سطح پر سب ہی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ بے مثال دہشت گردی اور منظم جرائم جیسے چیلنجز سے شفاف،موثراور قابل احتساب فوجداری نظام انصاف، جو معیاری فوجداری قانون، ضابطوں اور طریقوں پر مبنی ہو،کے ذریعے ہی نمٹا جا سکتا ہے،نہ کہ ایسے منقسم ڈھانچوں کے ذریعے جو مختلف قوانین کے سہارے چل رہے ہوں۔
بطور سوسائٹی ہمارا مسائل کو حل کرنے کا طریقہ صرف تشدد ہے، آئین اور پینل کوڈ کے مطابق پولیس کے پاس ملزم کو مارنے کا کوئی حق نہیں ہے، پولیس خود ٹارچر سیل چلاتی ہے، ملزمان کو تشدد کا نشانہ بناتی ہے، ان میں کچھ دم توڑجاتے ہیں تو اہلکاروں کومعطل کر کے انکوائری کا کہہ دیا جاتا ہے اور کچھ عرصہ بعد معاملہ رفع دفع ہوجاتا ہےاس طرح کے واقعات کی روک تھام کیلئے نہ صرف ضروری قانون سازی کی ضرورت ہے بلکہ پولیس اصلاحات کرنابھی ہوگی،کچھ عرصہ پہلے ساہیوال میں پولیس مقابلہ میں میاں بیوی اور انکی بیٹی کی موت کے بعد بہت شور اٹھا تھا،اس وقت یہ کیس عدالت میں زیرسماعت ہے لیکن اس میں کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی ہے،جب یہ واقعہ سامنے آیا تو وزیراعظم عمران خان نے ٹوئٹ کیا تھا کہ ساہیوال واقعہ پر عوام میں پایا جانے والا غم و غصہ جائز اور قابل فہم ہے، قوم کو یقین دلاتا ہوں کہ قطر سے واپسی پر نہ صرف اس واقعہ کے ذمہ داروں کو عبرتناک سزا دی جائے گی بلکہ پنجاب پولیس کے پورے ڈھانچے کا جائزہ لوں گا اوراسکی اصلاح کا آغاز کروں گا،لیکن پنجاب پولیس میں اصلاحات کا وزیراعظم کا وعدہ ابھی تک پورا نہیں ہوا ہے۔گزشتہ دنوں رحیم یار خان اور لاہور میں پنجاب پولیس کے مبینہ تشدد کے باعث دوافراد کی ہلاکتوں کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے پولیس نظام میں اصلاحات کے عمل کو مزید تیز کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا تھا کہ پولیس کے رویوں میں بہتری لاکر تھانہ کلچر کو تبدیل کریں گے لیکن عملاً ایسا کچھ نہ ہوااوراُنکےبیان کے چند دن بعد ہی بوریوالہ کی ایک محنت کش خاتون کو ایک ٹرینی انسپکٹر اور اے ایس آئی نے ایک بااثر زمیندار کے کہنے پر اُسکے گھر سے گرفتار کیااور اپنے نجی ٹارچر سیل میں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ خاتون کے مطابق متشدد اہلکار ایک کروڑ کا پرونوٹ لکھوانے کے بعد اُسے تشویشناک حالت میں گھر چھوڑ کر چلے گئے۔اِس واقعہ کے بعد ڈی پی او وہاڑی نے ایکشن لیتے ہوئے چار اہلکاروں کو معطل کرتے ہوئے اُن کیخلاف مقدمہ درج کروا دیا ہے۔
پرویز مشرف کے سات نکاتی ایجنڈے سے لے کر اب تک ہر حکومت نے من وعن انہی الفاظ کی تکرار کی لیکن نتیجہ ڈھاک کے وہی تین پات,کچھ عرصہ قبل بھی وزیراعلیٰ نے یہ کہا تھا کہ پولیس کلچر آہستہ آہستہ تبدیل ہو جائے گالیکن کیایہ خود بخود تبدیل ہوگا کیونکہ دوسری جانب پولیس تشدد سے ہلاکتوں کی خبریں آ رہی ہیں۔ پنجاب پولیس کے حوالے سے تاثر کوئی ایسا غلط بھی نہیں کہ اس کے متشددانہ طریقہ تفتیش سے ملزم ایسے جرائم بھی قبول کر لیتے ہیں جنکے ارتکاب کی ان میں سکت ہی نہیں ہوتی۔تاریخ گواہ ہے کہ بہت سے لوگ خود پولیس کے رویے کی وجہ سے جرم کی راہ پر چل پڑے۔ حوالات تو ایک طرف نجی عقوبت خانوں کا سلسلہ بھی بڑا پرانا اور دراز ہے، ان نجی قتل گاہوں کے مقتولین کا خون کس کی گردن پر ہوگا؟ محکمہ پولیس میں سیاسی مداخلت اور خود اس محکمے کی منہ زوری اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اسکی مکمل تطہیر بلکہ تشکیل نو کے بغیر اصلاح ممکن دکھائی نہیں دیتی اسکے لئےمہذب دنیا کے ایک نہیں کئی ماڈل موجود ہیں جنہیں اپنے معاشرے سے ہم آہنگ کرکے حالات کو سدھارا جا سکتا ہے،ورنہ حالت تو یہ ہے کہ جولائی 2019میں لاہور ہائیکورٹ میں ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران معزز جج صاحب پوری پولیس فورس کو فارغ کرکے نئی بھرتیوں کےریمارکس دے چکے ہیں۔ یہی حال دوسرے صوبوں کا بھی ہے۔کے پی میں بہتری آئی تھی لیکن اسکا دائرہ کار وسیع تر نہ کیا جا سکا۔ حکومت محض محکمہ پولیس کی اصلاح کر دے تو عوام اسے احسانِ عظیم خیال کریں گے۔
پولیس میں مداخلت کے واقعات سامنے آنے لگےتواسلام آباد اور پنجاب کے آئی جی بدلے گئے، اصلاحات تو نہیں ہوئیں البتہ پولیس اصلاحات کیلئے لائے گئے ناصر درانی اپنے عہدے سےمستعفی ہو گئے۔ساہیوال واقعہ کے بعد وزیراعظم نے پنجاب پولیس اصلاحات کیلئے تیسری کمیٹی بنائی،اس کمیٹی کو بنے آٹھ ماہ ہوگئے ہیں لیکن اب تک نہ تجاویز سامنے آئیں نہ اصلاحات سامنے آئی ہیں۔پنجاب کے مختلف شہروں سے حالیہ دنوں میں پولیس تحویل میں ملزمان کی ہلاکت اور شہریوں سے پولیس کے خراب رویے کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں جن سے پولیس اصلاحات کے تمام تر وعدوں اور دعووں پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں موجودہ امن وامان کی صورتحال اور پولیس کی تحویل میں ملزمان کی ہلاکت کے واقعات کی ایک وجہ پی ایس پی کے افسران اور رینکر افسران کے درمیان پیشہ ورانہ تعلقات کا فقدان ہے۔پاکستان کے موجودہ پولیس نظام میں نقائص موجود ہیں جسکی وجہ سے پولیس میں دو طبقے پیدا ہوگئے ہیں،یعنی ایلیٹ کلاس پی ایس پی اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے رینکر۔پی ایس پی افسران کے پاس پولیسنگ کا زیادہ تجربہ نہیں ہوتا اور پاکستان میں 90 فیصد جرائم نان پی ایس پی افسران دیکھتے ہیں جبکہ اسکے علاوہ عوام کو بھی ڈیل کرتے ہیں جن میں کانسٹیبل سے لے کر انسپیکٹر رینک کے پولیس اہلکار شامل ہوتے ہیں۔ پولیس آرڈینینس سنہ 2002 ہو یا پولیس میں اصلاحات لانے کا عمل،اس معاملے میں کبھی بھی رینکرز سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی اور نہ ہی رائے طلب کی گئی ہے۔پی ایس پی افسران کا رینکرز افسران کے ساتھ رویہ ان دو طبقوں کے درمیان ایک بہتر پیشہ ورانہ تعلق میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔سنہ 1988 میں جب صوبہ پنجاب میں فرقہ وارانہ فسادات عروج پر تھے تو اس وقت پنجاب پولیس میں آؤٹ آف ٹرن پروموشن کا قانون متعارف کروایا گیا تھا،جسکا مقصد ان فرقہ وارانہ فسادات کو روکنے والے پولیس اہلکاروں کو انعام کے طور پر اگلے رینک میں ترقیاں دینا تھا۔یہ قانون سنہ 2006 تک جاری رہا اور اس عرصے کے دوران 21 انسپکٹروں کو ڈی ایس پی کے عہدے پر ترقی دی گئی۔یہ بات پی ایس پی افسران کو ناگوار گزری تھی جنھوں نے اس اقدام کو عدالتوں میں چیلنج کردیا تھا۔
فراہمی انصاف کے لئے محض عدلیہ کی آزادی کافی نہیں، مقدمات کی معیاری تفتیش کی خاطر پولیس خود مختاری کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے۔جھوٹی گواہی اورالتوا کے حربے فوجداری نظام کے بنیادی مسائل ہیں۔ہمارےعدالتی نظام کی ان بنیادی نقائص کے باعث سائل کو بسااوقات انصاف نہیں ملتا یااس عمل میں اتنی تاخیر ہو جاتی ہے کہ ناانصافی کا ازالہ بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ایسی پولیس جو مقتدر حلقوں اور بااثر افراد کے دباؤ کے تحت کام کرتی ہو وہ اپنے فرائض منصبی انجام دینے کے بجائے اُن ہی کے مفادات کی تکمیل پر مجبور ہوتی ہے۔ ہم آج تک اس صورتحال کو تبدیل نہیں کر سکے لہٰذا کم از کم اب ہمارے پالیسی سازوں کو معاشرے کی اِس ناگزیر ضرورت کو پورا کرنے پر توجہ دینا چاہئے۔ اگر کوئی ملزم بری ہوتا ہے یا اسکی ضمانت ہوتی ہے تو ان مقدمات پر تحقیق ہونی چاہئے یعنی تفتیش کرنے والوں کو دیکھنا چاہئے کہ وہ عدالت کو مطمئن کرنے میں کیوں ناکام رہے۔تفتیشی طریق کار کو معتبر کیسے بنایا جائے؟ نظامِ انصاف کی اصلاح کےاس بنیادی سوال کےمقصد کے لئے تفتیشی کمیٹی میں کم از کم ایک ریٹائرڈ سیشن جج کو شامل کیا جائے جو پولیس کے کام اور فوجداری مقدمات کے بارے میں علم رکھتا ہو۔ان کمیٹیوں میں نوجوان وکلا کو شریک کیا جائے جو ان مقدمات کی تفتیش میں دلچسپی رکھتے ہوں جسکے بعد ضلعی پولیس کی ذمہ داری ہو کہ اس رپورٹ اور وجوہات کو تمام پولیس افسران تک پہنچائے جو تفتیش کے لئے مختص ہیں۔اِن تجاویز کی اہمیت و افادیت بخوبی واضح ہے لہٰذا انہیں جلد ازجلدعملی جامہ پہنایا جانا چاہئے۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں پولیس اصلاحات کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں اُنہوں نے پورے ملک کے لئے متفقہ پولیس پالیسی بنانے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ غیرضروری گرفتاریوں اور غلط ثبوت پر بھی پالیسی بنائی جائے۔وطن عزیز میں یہ بھی ایک المیہ رہا ہے کہ محکموں میں اصلاحات کی متعدد کوششیں حکومت یاحکام تبدیل ہو جانے کی وجہ سے پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ پاتیں، پولیس اور عدالتی اصلاحات بھی اسی بناء پر تاخیر کا شکار ہوتی چلی آ رہی ہیں۔امید ہے کہ اب جھوٹی گواہی کے بعد غیر ضروری گرفتاریوں وجھوٹے ثبوت کے رجحانات کی حوصلہ شکنی کے لئے بھی ایسے اقدامات عمل میں لائے جائیں گے جن سے عدالتی نظام مکمل طور پر درست ہو سکے۔
من حیث القوم یہ ہماری بے بسی یا بے حسی کی انتہاہے کہ ہم اپنے بچوں تک کی بھی حفاظت نہیں کر پاتے،چونیاں قصور میں تین بچے اغوا کے بعد قتل کر دیئے گئے،اورہم ایسے زخم 2008ءسے برداشت کر رہے ہیں،ایسےدلخراش سانحات کے بعد اب پھر اسی علاقے سے تین بچوں کے قتل پر پولیس افسران کو محض معطل کرنا کافی ہے؟ اگر نہیں تو پھر حکومت کو اس واقعہ پر سخت ایکشن لینا ہوگا، مجرموں کی فوری گرفتاری کے ساتھ ساتھ اس قبیح فعل میں ملوث افراد کا ہمیشہ کیلئے ناطقہ بند کرنے کے اقدامات ناگزیر ہیں۔ والدین بھی اپنے بچوں کی حفاظت کو یقینی بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں۔جدید دور میں جرائم پر قابو پانے کے لیے فورینزک لیباریٹری کا تحصیل اور ضلع کی سطح تک قیام کرائم سین کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے۔تفتیشی افسران کی فورینزک سائنس لیباریٹری، نادرااوربینک ریکارڈ تک رسائی سے تفتیش میں بہتری پیدا ہو سکتی ہے۔دہشت گردی اور خوف ناک جرائم کی تفتیش میں ابتدائی طور پر پولیس کرائم سین سے فورینزک سائنس کی مدد سے شواہد اکٹھا کرنے میں ناکام رہتی ہے،پاکستان میں گواہان کو کوئی تحفظ حاصل نہیں ہےاور گواہان کوخطرناک ملزمان ڈرادھمکا کر اپنے خلاف گواہی دینے سے باز رکھتے ہیں۔ایسے میں عام آدمی کو کیسے انصاف مل سکتا ہے؟
وطن عزیز کی پولیس سروس ایسے بڑے اصلاحاتی عمل کی طرف پیش قدمی کرتی محسوس ہورہی ہے جس سے حکومتی فیصلوں اور اقدامات کے نتائج جلد سامنے آنے کی توقع ہے۔مجوزہ اصلاحات کے حوالے سے سامنے آنے والی تجاویز میں سرکاری ملازمین کی استعداد میں اضافے اور تربیت کے طریق کار سمیت خاصی جزئیات و تفصیلات کا احاطہ کیا گیا ہے جن پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے تو توقع کی جاسکتی ہے کہ آنے والے وقتوں میں تقرریوں اور ترقیوں کا انحصار اربابِ حکومت کی ذاتی پسند و ناپسند پر نہیں میرٹ پر ہوگا۔ہماری بیورو کریسی کا کردار برٹش ایمپائر کی تخلیق کردہ اس نوکر شاہی کے کردار سے مختلف ہو جو مقبوضہ ممالک میں نوآبادیاتی ضرورتوں کے لئے تشکیل دیا گیا۔ برطانیہ نے خود اپنے ملک میں بیورو کریسی کا جو نظام رائج کیا وہ نوآبادیات میں رائج نظام سے یکسر مختلف، آزاد ملک کے باشندوں کے احترام پر مبنی اور خدمت کے تصور پر استوار ہے۔تلخ حقیقت یہ ہے کہ ناقص تربیت اور عادی بدعنوانوں کے بوجھ تلے دبے پولیس کے محکمے میں ایسے عناصر موجود ہیں جو دیمک کی طرح اسکی بنیادیں چاٹ رہے ہیں۔کسی بھی ملک کے نظامِ انصاف میں پولیس بنیادی حیثیت کا حامل ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں محکمہ پولیس میں سیاسی مداخلت اور خود اس محکمے کی منہ زوری اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اسکی مکمل تطہیر بلکہ تشکیل ِ نو کے بغیر اصلاح ممکن دکھائی نہیں دیتی۔پولیس تنخواہیں بہتر کر کے محکمے میں احتساب کے سخت نظام کی اشد ضرورت ہے۔حکومت محض محکمہ پولیس کی اصلاح کر دے تو عوام اسے احسانِ عظیم خیال کریں گے۔ وقت آگیا ہے کہ وطن عزیز میں بھی پولیس کے ان طور طریقوں میں تبدیلی لائی جائے جنہیں بہت پہلے تبدیل ہوجانا چاہئے تھا۔ہمیں اپنی پولیس کو دور غلامی کے کردار سے باہر نکال کر ایک آزاد و خودمختار ملک کی پولیس میں تبدیل کرنا ہے!
نوٹ:قلم کلب ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔