کنکریاں-کاشف مرزا
موجودہ دورر سائنسی ترقی اور انٹرنیٹ کا ہے ۔انٹرنیٹ اور معلومات تک رسائی ہم سب کا بنیادی حق ہے اور انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے محفوظ رہنا بھی ہمارا بنیادی حق ہے، تو پھرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچوں و نوجوانوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے منفی ، متعصبانہ رویے ، خوف و ہراس اور غیر ضروری تنقید کا شکار کیوں بنایا جاتا ہے ؟بچوں کے ساتھ اعتماد کا تعلق قائم کرنا اور ٹیکنالوجی کے استعمال پر بحث مباحثہ کرنا بہت ضروری ہے۔بچوں کے آن لائن تحفظ کے لیے بحث، تعلیم اور مذاکرات اُتنے ہی ضروری ہیں جتنا کہ اس مسئلے کے لیے کوئی تکنیکی حل نکالنا۔انٹرنیٹ یا سائبر سیفٹی کی بات کی جائے تونوجوانوں کوعموماً یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ انٹرنیٹ استعمال کرنا بند کر دیں۔یہ مشورہ مسائل کا حل نہیں ہے، ٹیکنالوجی سمیت کسی بھی چیز کے نقصان سے بچنے کا بہترین طریقہ احتیاط ہے۔ والدین کو چاہیے کہ نو عمر بچوں اوربچیوں کو انٹرنیٹ کے استعمال سے روکنے کی بجائے ان میں آگاہی اور شعور پیدا کریں۔ اگر کوئی ہراساں کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ڈرنے اور معاملے کو والدین سے چھپانے کی بجائے کھل کر والدین کو آگاہ کریں۔خوف زدہ ہونے کی بجائے بہادری اور عقل وفہم سے کام لیں۔والدین کو چاہیے کہ بچوں کوصحیح اور غلط کی تمیز سکھائیں اور ان پر نظر رکھیں کہ وہ تنہائی میں انٹرنیٹ کیسے استعمال کرتے ہیں۔لائبریری میں کمپیوٹر یا انٹرنیٹ استعمال کرنا کوئی مسئلہ نہیں لیکن سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کا اپنے فون پر غیر ضروری استعمال خطرناک ثابت ہو سکتا ہے لہذا انٹرنیٹ کے حوالے سے یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس سے وابستہ مسائل سے کیسے بچا جائے ۔ والدین آگاہی اور مثبت رویے سے اپنے بچوں کو محفوظ رہنا سکھا سکتے ہیں۔
پاکستان میں سائبر کرائم کی شکایات میں ماضی کی نسبت اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے جس سے جہاں یہ پتا چلتا ہے کہ ملک میں سائبر کرائم سے متعلق آگہی بڑھی ہے، وہیں اس حقیقت کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ معاشرے میں سائبر کرائم بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان میں رائج سائبر کرائم قوانین کے تحت کسی کے موبائل یا کمپیوٹر سے ڈیٹا چرانا، بری نیت سے اسے پھیلانا یا اس میں کسی قسم کی مداخلت جرم شمار ہوتا ہے۔ یہ ڈیٹا تصاویر، ویڈیوز یا تحریری مواد اور کسی بھی دیگر صورت میں ہو سکتا ہے۔آبادی کے لحاظ سے ملک کے دوسرے بڑے صوبے سندھ میں سائبر کرائم قوانین کے تحت صرف ایک سال میں 7000 سے زائد شکایات درج کی گئی ہیں جو گزشتہ سال کے مقابلے میں دوگنی ہیں۔ زیادہ تر شکایاتکی بنیادی وجہ سوشل میڈیا اورمختلف موبائل ایپلی کیشنز کا غلط یا غیر محفوظ استعمال ہوتا ہے۔ بچوں اور نوجوانوں کوعمومی طور پر معلوم نہیں ہوتا کہ موبائل ایپلی کیشنز کے استعمال میں کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ ذرا سی بے احتیاطی سے وہ بلیک میلنگ اور ہراسگی کا شکار ہو جاتی ہیں اور بعض کیسز میں تو بات خودکشی تک جا پہنچتی ہے۔
جدید ٹیکنالوجی کے حامل اسمارٹ فونز اور موبائل فون ایپلی کیشنز کے ذریعے یہ ممکن ہے کہ ویڈیو کال کے دوران صارف کی تصاویر بنائی جا سکے یا ویڈیو ریکارڈ کی جا سکے۔ ان تصاویر کو باآسانی فوٹو شاپ کی مدد سے ایڈٹ بھی کیا جا سکتا ہے۔ موبائل ایپلی کیشنز سے ہی فون کرنے والے کی لوکیشن بھی معلوم کی جا سکتی ہے۔لہٰذا بچوں اور نوجوانوں کوجو سوشل میڈیا، موبائل اور ایپلی کیشنز کے سیکورٹی فیچرز سے ناواقف ہوں، انہیں کوئی بھی شخص فرینڈ ریکویسٹ بھیج کر یا ان سے معلومات حاصل کرکے انہیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔معاشرے میں یہ رجحان غالب ہے کہ ترمیم شدہ تصاویر کو ہی حقیقت سمجھ لیا جاتا ہے جسکا منفی اثر خواتین کی ذاتی زندگیوں پر پڑتا ہے۔فراڈ اور دھوکہ دہی کے واقعات بھی اب انٹرنیٹ پر عام ہونے لگے ہیں جسکے باعث لوگوں کو بھاری نقصانات اٹھانا پڑ رہے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ انہیں انٹرنیٹ پر جو سنہری خواب دکھائے جا رہے ہیں، چاہے وہ لاٹری کی صورت میں ہوں، نوکری کی پیشکش ہو یا کسی اور شکل میں،وہ حقیقت ہیں لیکن درحقیقت وہ سچے نہیں ہوتے۔ڈیجیٹل ڈیٹا بہت جلد مٹایا، نقل، تبدیل یا حذف کیا جا سکتا ہے۔ لوگ جعل سازوں کے جھانسوں میں آکر دھوکہ دہی کا شکار ہو جاتے ہیں اور ایسے سیکڑوں کیسز سامنے آچکے ہیں جن میں لوگوں نے انٹرنیٹ فراڈ میں اپنی جمع پونجی گنوا دی ہے۔ملک میں سائبر کرائم کی شرح میں سالانہ 50 فی صد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ سندھ کی طرح پنجاب، خیبر پختونخوا، بلوچستان، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے بھی سائبر کرائم کی شکایات میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان میں گزشتہ 10 برسوں میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد میں بڑی حد تک اضافہ ہوا ہے۔انٹرنیٹ صارفین کی تعداد میں سب سے زیادہ اضافہ موبائل فون کمپنیوں کی جانب سے تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی کی سہولت دینے کے بعد ہوا ہے اور یہیں سے مجرمانہ ذہن رکھنے والے افراد بھی اس ٹیکنالوجی کی جانب راغب ہوئے ہیں۔سندھ میں سائبر کرائم ونگ کے تحت رواں سال ’چائلڈ پورنو گرافی‘ سے متعلق بھی تین مقدمات درج کیے گئے ہیں جبکہ متعدد ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جنکے مقدمات عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں۔سائبر کرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات سے نمٹنے اور انکے حل کے لیے ‘ایف آئی اے’ کے عملے کی استعدادِ کار بڑھانے، وسائل فراہم کرنے اور انسانی وسائل کی جدید خطوط پر تربیت کی ضرورت بھی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔پاکستان میں سائبر کرائم کی روک تھام کے لیے 2002 میں ایک مبہم قانون متعارف کرایا گیا تھا،لیکن 2016 میں پارلیمنٹ نے ایک نیا قانون منظور کیا جسے پاکستان الیکٹرونک کرائم ایکٹ 2016 یا ’پیکا‘ کا نام دیا گیا ہے۔اس قانون کے تحت تین ایسے جرائم ہیں جس میں ‘ایف آئی اے’ براہِ راست گرفتاری بھی عمل میں لا سکتی ہے۔ ان میں بچوں کی اخلاق باختہ تصاویر بنانے اور انہیں پھیلانے، سائبر دہشت گردی اور قومی شخصیات کی تصاویر کو تبدیل کرکے انکی شخصیت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنے جیسے جرائم شامل ہیں۔سائبر کرائم سے بچنے کے لیے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا محفوظ استعمال ممکن بنانا ضروری ہے۔ ایسے واقعات کی شکایت فوری درج کرانی چاہیے تاکہ ملزمان کا بروقت سراغ لگا کر انہیں قانون کی گرفت میں لایا جا سکے۔سوشل میڈیا پر نقصان دہ مواد کے بچوں پر اثرات سے متعلق خدشات بڑھ رہے ہیں،اس طرحوالدین نہ صرف بچوں کے سوشل میڈیا کے استعمال پر نظر رکھ سکیں گے بلکہ اس بات کا بھی تعین کرپائیں گے کہ انکے بچے انٹرنیٹ پر کتنا وقت گزارتے ہیں۔اپنے بچوں کو آن لائن پر گذاری جانے والی زندگی سے دور رکھنا ایک ایسی جدوجہد ہے جس سے اس مشکل میں مبتلا بہت سے والدین واقف ہوں گے۔
ایک سروے کے مطابق 11 سے 16 سال کی عمر کے 85فیصد نوجوان والدین کی لگائی جانے والے پابندیوں کے حق میں تھے۔انٹرنیٹ ایک اچھا ذخیرہ ہو سکتا ہے لیکن بچوں کے لیے یہ بہت خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ بچوں کو بغیر کسی نگرانی اور پابندی کے انٹرنیٹ پر کھلا چھوڑ دیا جائے،ان فلٹرنگ ڈیوائسز کے نقصانات بھی ہیں۔ جوں ہی آپ کے بچے اپنے فون گھر سے باہر لے کر جاتے ہیں اور گھر کے وائی فائی سے کٹ جاتے ہیں تو کچھ فلٹرنگ ڈیوائسز کام کرنا بند کر دیتی ہیں۔ یہ آلات تب بھی کام نہیں کریں گے اگر گھر کا وائی فائی بند ہو اور آپ اپنے موبائل نیٹ ورک سے انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہوں اوراگر آپ چند مخصوص ویب سائٹس کو لے کر پریشان ہیں تو آپ گھر کے براڈ بینڈ کنیکشن پر سیف سرچ لگا سکتے ہیں جو مفت ہے اور شاید کافی بھی۔ اسکے علاوہ آپ گوگل سیف سرچ یا یوٹیوب پر ریسٹریکٹڈ موڈ لگا سکتے ہیں۔ایک اور طریقہ یہ ہے کہ آپ نئی طرز کے تیز رفتار راؤٹر خرید لیں جو نہ صرف تیز رفتار انٹرنیٹ فراہم کریں گے بلکہ ان میں پہلے سے ہی والدین کے لیے وہ طریقہ کار واضح ہے جس سے وہ انٹرنیٹ پر ہونے والی سرگرمیوں پر نظر رکھ سکتے ہیں۔جب بچے ایک مخصوص عمر تک پہنچ جاتے ہیں تو یا تو ان کے دوست احباب انھیں طریقے بتا دیتے ہیں یا وہ خود ان پابندیوں سے بچنے کا راستہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔آپ چاہے جس مرضی ٹیکنالوجی کا استعمال کر لیں مگر آپ کے بچے پھر بھی اس مواد کو دیکھ لیں گے جس سے آپ انھیں بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔انکے خیال میں بچوں کے ساتھ اعتماد کا تعلق قائم کرنا اور ٹیکنالوجی کے استعمال پر بحث مباحثہ کرنا بہت ضروری ہے۔ بچوں کے آن لائن تحفظ کے لیے بحث،تعلیم اور مذاکرات اُتنے ہی ضروری ہیں جتنا کہ اس مسئلے کے لیے کوئی تکنیکی حل نکالنا۔
ہمارے نوجوان متعدد گھنٹے سوشل میڈیاپر صرف کردیتے ہیں اور بعض اوقات انھیں سائبر ہراسگی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔وہ اپنا وقت گیمز کھیلنے، ’یوٹیوب ویڈیوز دیکھنے یا واٹس ایپ پر پائے جانے والے دوستوں کےمختلف گروپس پر بات چیت کر کے گزارتے ہیں۔سوشل میڈیا پر پائے جانے والے مواد کی چھانٹی کرنے والا سافٹ ویئر برسوں سے موجود ہیں مگر والدین اکثر اوقات ٹیکنالوجی سے گھبراتے ہیں جسکے باعث وہ سافٹ ویئر کا ٹھیک سے استعمال نہیں کر پاتے۔اکثر اوقات بچوں کو اپنے اکاؤنٹس کے پاس ورڈز بھی والدین کے حوالے کرنا پڑتے ہیں جو گھر میں لڑائی کا سبب بنتا ہے۔مگر اب مارکیٹ میں نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے والدین کو ڈیجیٹل کنٹرول دینے کا وعدہ کیا جا رہا ہے جسکے باعث والدین باآسانی بچوں کی آن لائن سرگرمیوں پر نظر رکھ پائیں گے۔جدید سسٹمز دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ گھر میں موجود تمام ڈیجیٹل پراڈکٹس کوسمارٹ فون ایپ پر چند کلکس کے ذریعے سے کنٹرول کر سکتے ہیں۔دیگر نئی مصنوعات آپکے موجودہ گھریلو وائی فائی راؤٹر سے کنیکٹ کر کے استعمال کی جا سکتی ہیں۔سرکل نامی سسٹم میں آپ ایک سفید کیوب کو بجلی کے ساکٹ میں لگا دیتے ہیں اور وہ فوری طور پر آپ کے گھر کے وائی فائی سے کنیکٹ ہوئے فون، لیپ ٹاپ، ٹیبلٹ وغیرہ کو فہرست کی شکل میں دکھاتا ہےاورمختلف انداز سے ان مصنوعات کو کنٹرول کرنے کے طریقے پیش کرتا ہے۔
مواد کی چھانٹی کے غرض سے بچوں، نوجوانوں اور بالغ لوگوں کے لیے مختلف فلٹرز کا استعمال کیا جا سکتا ہے جو جوئے، ڈیٹنگ کے علاوہ فحش مواد کو بھی بلاک کر دیتا ہے۔آپ مخصوص ایپس اور ویب سائٹس کو بھی بلاک کر سکتے ہیں۔ آپ انٹرنیٹ کے استعمال کا دورانیہ بھی متعین کر سکتے ہیں۔آج کل انٹرنیٹ کی سروس فراہم کرنے والے، سائبر سکیورٹی کے ادارے اور دیگر ویب براؤزرز گھرانے کے افراد کے لیے اپنی سروس پر موزوں تربیت فراہم کرتے ہیں۔انٹرنیٹ ایک اچھا ذخیرہ ہو سکتا ہے لیکن بچوں کے لیے یہ بہت خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔اسی طرح ہمیں یہ بھی نہیں سوچنا چاہیے کہ بچوں کو بغیر کسی نگرانی اور پابندی کے انٹرنیٹ پر کھلا چھوڑ دیا جائے۔اس لیے ضروری ہے کہ حکومت 16 سال سے کم عمر بچوں کے لیے دیگر ممالک کی طرح سوشل میڈیا کی نگرانی کے قوانین متعارف کرے اورکم از کم موبائل فون کے استعمال پر پابندی عائد کرے۔اس سے جہاں مواد کی چھانٹی کے غرض سے بچوں، نوجوانوں اور بالغ لوگوں کے لیے مختلف فلٹرز کےاستعمال کو بہترکیا جا سکتا ہے، وہاںبچوں و نوجوانوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے منفی ،متعصبانہ رویے،خوف و ہراس اور غیر ضروری تنقید سے بھی بچایا جا سکتا ہے۔بچوں کے ساتھ اعتماد کا تعلق قائم کرنا اور ٹیکنالوجی کے استعمال پر بحث مباحثہ کرنا بہت ضروری ہے۔بچوں کے آن لائن تحفظ کے لیے بحث، تعلیم اور مذاکرات اُتنے ہی ضروری ہیں جتنا کہ اس مسئلے کے لیے کوئی تکنیکی حل نکالنا۔انٹرنیٹ یاسائبر سیفٹی، ٹیکنالوجی سمیت کسی بھی چیز کے نقصان سے بچنے کا بہترین طریقہ احتیاط ہے۔ والدین کو چاہیے کہ نو عمر بچوں اوربچیوں کو انٹرنیٹ کے استعمال سے روکنے کی بجائے ان میں آگاہی اور شعور پیدا کریں!
نوٹ:قلم کلب ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ newsdesk@qalamclub.com پر ای میل کیجیے۔