
کاشف مرزا-کنکریاں
دنیا بھر کی طرح کرونا وائرس کی وبا نے پاکستان کو بھی بری متاثر کیا ہے۔چین کے شہر وہان سے شروع ہونیوالی اس عالمی وبا نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔200سے زائد ممالک میں پھیلے اس وائرس سے چین،امریکہ،اٹلی،سپین،ایران، برطانیہ جیسے ممالک بھی شدید متاثر ہوئے جہاں اموات و متاثرین کی تعداد لاکھوں میں ہے،تاہم ایشیائی ممالک میں مغربی ممالک کی نسبت تاحال شرح اموات کم ہے۔کرونا وائرس سے بچاؤاسوقت پوری دنیا کیلئے چیلنج بن چکا ہے ۔اقوام متحدہ کے ادارے یو نیسیکو کے مطابق کرونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث دنیا بھر میں 72 فی صد بچوں کی تعلیم متاثر ہو ئی ہے۔ یونیسکو کہ مطابق دنیا بھر کے سکولز اور یونیورسٹیزکے طالب علموں کی تعداد ڈیڑھ ارب سے زیادہ ہے۔ جن میں تقریباً 74 کروڑلڑکیاں ہیں۔ان میں سے گیارہ کروڑ سے زیادہ لڑکیوں کا تعلق دنیا کے پس ماندہ ملکوں سے ہے،جہاں لڑکیوں کا اسکول جانا ویسے ہی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
یونیسکو کے مطابق کورونا وائرس کی احتیاطی تدابیر کے پیش نظر 102ممالک میں اسکول، کالج اور جامعات سمیت تعلیمی ادارے بند ہونےکے باعث 85 کروڑ سے زائد بچے اور طلبا تعلیم سے قاصراورگھروں تک محدود ہیں۔باوجود اسکے تقریباً 100ممالک میں تعلیم کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔یوں ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا میں طلبا کی مجموعی تعداد کا نصف معمول کی تدریس سے محروم ہے۔سب سے زیادہ نقصان ان لڑکیوں کو اٹھانا پڑے گاجو پناہ گزیں کیمپوں میں رہ رہی ہیں اور انکے سکول بھی کیمپوں کے اندر ہیں۔انہیں دوبارہ سکول بھیجنا مزید مشکل ہو سکتاہے، اورعالمی سطح پر لڑکیوں کی تعلیم کے لیے گزشتہ 20 سال میں جو کامیابیاں حاصل کی گئیں ہیں،انہیں نقصان پہنچ سکتا ہے،کیونکہ لڑکیوں کی تعلیم کو سب سے زیادہ غیر اہم سمجھا جاتا ہے۔یونیسکو کے چھ نکاتی ایجنڈے کا مقصد ٹیچرزاورکمیونیٹنز کو قریب لانا،فاصلاتی طریقہ تعلیم کا فروغ،تحفظ فراہم کرنے کی سروسز کو بڑھاوا دینااور نوجوانوں کورابطے میں لاناہے۔اگرچہ کرونا وائرس کی وجہ سےتعلیمی اداروں کی بندش عارضی ہےلیکن پڑھانے کا دورانیہ کم ہونے کا اثر پڑھائی سےحاصل ہونے والی کامیابیوں پر پڑتا ہے۔ جب سکولز بند ہوتے ہیں تو تعلیمی کارکردگی متاثر ہوتی ہےاور کئی مسائل کو بھی جنم دیتی ہے جن میں معاشی پیداوار میں کمی قابل ذکر ہے۔
لاک ڈاؤن کے پیش نظر جہاں معیشت سمیت دیگر چیلنجز نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا وہیں تعلیمی شعبہ کو بھی ناقابل تلافی نقصان ہوا۔تعلیمی اداروں کی بندش کا مسئلہ تمام ممالک کیلئے یکساں ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ کرونا کے برعکس چھ ایسے ممالک بھی ہیں جنہوں نےتعلیمی اداروےایک دن کیلئے بھی بند نہیں کیے،ان ممالک میں بیلاروس،ترکمانستان،تاجکستان،گرین لینڈ، نکاراگوا،پاپوانیوگنی شامل ہیں۔حیران کن طور پر ایسے ممالک جہاں کرونا نے شدید متاثر کیا وہاں بھی جزو ی طور پر تعلیمی ادارے کھلے ہیں جن میںچین کےصوبےووہان،انڈیا،ایران،بنگلہ دیش،سری لنکا، سپین سمیت دیگر کئی ممالکامریکہ، روس،ڈنمارک،فرانس،سوئٹزرلینڈ، آسٹریا،آسٹریلیا،نیوزی لینڈ،جرمنی،جاپان،کوریا،سعودی عرب،اسرائیل وغیرہ شامل ہیں۔جبکہ انگلینڈ نے یکم جون سےسکولز کھولنے کااعلان کیاہے۔مذکورہ تمام ممالک میں دنیا بھر سے زیادہ اموات دیکھنے میں آئی لیکن فروغ تعلیم کا سلسلہ نہ رک سکا،ترقی کے اعتبار سےٹاپ ممالک نے شدید متاثرہ علاقوں میں بھی جزوی تعلیمی ادارے بند کئے مگر جہاں وائرس کی شد ت کم محسوس کی گئی وہاں بدستور تعلیمی اداروں میں کام جاری ہے۔
یقینی طور پر تعلیم کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں ریڑھ کی ہڈ ی کی حییثیت رکھتی ہےجن ممالک میں اس اہم فریضے کو غیر معمولی حالات میں بھی ترجیج دی جاتی ہے وہاں امن سکون خوشحالی ترقی مقدر بن جاتی ہے۔ان ممالک نے آن لائن نظام تعلیم موجود ہونے کے باوجود ایس او پیز اور حفاظتی اقدامات اٹھا کر تعلیمی ادارے کھولے جو انکی تعلیم سے متعلق اہمیت و زوایہ سوچ کی مثبت عکاسی کرتے ہیں۔پاکستان میں سرکاری ونجی جامعات کے 190کمیپسسز ہیں جہاں لاکھوں طلبازیر تعلیم ہیں،اسی طرح کالجز اور سکولز میں زیر تعلیم طلباکی تعداد تقریباً 5کروڑہے،لیکن گزشتہ دو ماہ سےملک بھر کے تعلیمی ادارے لاک ڈاؤن کے باعث بند ہیں۔حکومت کی جانب سےپہلے31مئی اور پھر 15جولائیُ کوتعلیمی ادارے کھولنے کا اعلان کیا گیا ہے۔وفاقی حکومت کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا ہے کہ نویں اور گیارہوں کلاسسز میں زیر تعلیم طلباکو بالترتیب دسویں اور بارہویں جماعت میں سابقہ نمبرز کی بنیاد پر بغیر امتحا نات پرموٹ کیا جائیگااورجامعات کے طلباآن لائن امتحانات دینگے۔وفاقی حکومت کی جانب سے یہ اقدام اہل علم کے ذہنوں میں کئی سوال چھوڑ گیا ہے کہ اگر تعلیم ہماری بنیادی ترجیحات کا حصہ نہیں ہے تو تعلیمی تنزلی سے آنکھیں چرانا ہمارا شیوہ کیوں ہے،اگر ہم دنیاکے ممالک سے اپنا موازنہ کریں تو کوئی بھی پاکستانی جامعہ دنیا کی بہترین 500جامعات کی فہرست میں شامل نہیں۔
حکومت نے متبادل نظام تعلیم کیلئے جامعات کی سطح پر آن لائن کلاسسز کا انتخاب کیا گیا، اس ضمن میں طلبا کی جانب سے شدید رد عمل دیکھنے میں آیا جسکی بنیادی وجہ حکومت اور ہائیر ایجو کیشن کمیشن کی جانب سے میکنزم ترتیب نہ دیا جانا تھا کیونکہ ہم ترقی پذیر ملک کی حیثیت سے اس کیلئے مکمل طور پر تیار نہ تھے۔اسی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت پنجاب کی جانب سے تعلیم گھر کیبل چینل اور آن لائن تعلیم کا ناکام پراجیکٹ شروع کیا گیا،جو آغاز میں ہی بری طرح ناکام ہو گیا ہے۔اس کورونا نے عالمی سطح پر معاشی ،سماجی،مذہبی،سیاسی اورتعلیمی مسائل پیدا کردیئے ہیں اورچوںکہ یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ کورونا کا جڑ سے صفایا ہونا فی الوقت ممکن نہیں،اسلئے اب کورونا کے ساتھ ہی زندگی گزارنے کی عادت ڈالنی ہوگی اوراحتیاط کے ساتھ حوصلہ بھی رکھنا ہوگا لہٰذا دیگر شعبے کی طرح تعلیمی شعبے میں بھی کورونا کے بعدایک بڑا انقلاب آنے والا ہے۔بالخصو ص اعلیٰ تعلیمی اداروں میں روایتی تعلیم کے جو طریقہ کار ہیں اس سے پرہیز کرتے ہوئے ایک نیا طریقہ کار اپنانے کاخاکہ شروع بھی ہوگیا ہے۔سکولز ایجوکیشن میں کلاس روم تعلیم اور امتحان کی اپنی جگہ ہے،آن لائن تعلیم وامتحان اور دیگر سرگرمیوں کو جاری رکھنے کیلئے بھی ذرائع ابلاغ کا سہارا لینا ہی مفید ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ جب تک کورونا کے وائرس کے خاتمے کا اعلان نہیں ہوتا اور جومستقبل قریب میں ممکن نہیں،اس وقت تک پرانے اورنئے تعلیمی طریقہ کار کی آمیزش کے ساتھ ہی اپنانا ہوگا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی ممالک میں بہت سی ایسی یونیورسٹیاں ہیں جہا ں پہلے ہی سے یہ تعلیمی طریقہ کار اپنایا جا رہا ہےلیکن پاکستان کی کسی بھی یونیورسٹی کے پاس باقاعدہ آن لائن تعلیم فراہم کرنے یا پھر امتحانات لینے کابنیادی ڈھانچہ موجود نہیں ہے۔ اسلئے قومی سطح پربھی جب کوئی مقابلہ جاتی امتحانات ہوتے ہیں تو نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی بہت سی نجی کمپنیوں کے سہارے آن لائن امتحان کا اہتمام کرتی ہے۔یہاں اس حقیقت کابھی اعتراف ضروری ہے کہ ہمارے ملک میں ایک بھی ایسی یونیورسٹی نہیں ہے جو اپنی تعلیمی فیس کی آمدنی پرمنحصر ہو جیسا کہ یورپ میں ہوتا ہے کہ یونیورسٹی نہ صرف خود مختار ہوتی ہے بلکہ وہ اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ اپنی ریاست یا ملک کی ترقی کیلئے بھی خرچ کرتی ہے لیکن ہمارے ملک میں تمام سرکاری یونیورسٹیوں کی ترقی کا انحصار سرکاری فنڈ فراہمی پر ہے۔مثلاً امریکہ کی کولمبیا یونیورسٹی اور پرنسٹن یونیورسٹی نہ صرف امریکہ کی اقتصادیات میں معاون رہتی ہیں بلکہ ہزاروں افراد کوروزگار بھی فراہم کرتی ہیں اور یہ یونیوسیٹیزصرف اپنی آمدنی پرتعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ دیگر سرگرمیوں کوجاری رکھتی ہیں۔اسی طرح انگلینڈ کی کئی یونیورسٹیاں ملک کی جی ڈی پی کو بڑھانے میں اہم کردارادا کرتی ہے لیکن پاکستان میں اسکا تصور بھی محال ہے۔
اب جبکہ حکومت کی طرف سے نئے طریقہ تعلیم پر زور دیا جا رہا ہےاور کلاس روم درس وتدریس کی جگہ آن لائن تعلیم کا انتظام اور امتحان کیلئےجدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا ضروری قرار دیا جا رہاہے تو ایسے وقت میں سب سے پہلے یونیورسیٹز اور کالجزمیں جدید ترین کمپیوٹر اوردیگر آلات کی فراہمی کے ساتھ آن لائن سسٹم کے بنیادی ڈھانچوں کومستحکم کرنا ہوگا۔یہاں اس حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ ملک کی سرکاری یونیورسٹیوں اورکالجوں میں اسّی فی صد طلبہ دیہی علاقے کے متوسط اور کمزور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان سبھوں کے پاس جدید ترین اسمارٹ فون سیٹ نہیں ہیں کہ وہ آن لائن یا دیگر سوشل میڈیا کے طریقہ کار کو اپنا سکیں۔ایک بڑی دشواری یہ بھی ہے کہ دیہی علاقے کے طلبہ جو دیہات میں رہتے ہیں وہاں انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہے،بالخصوص دیہی علاقے کی لڑکیوں کو آن لائن تعلیم یا پھر آن لائن امتحان تقریباً ناممکن ہے۔اسلئے اگر اس کورونا کے بعد کی دنیا بدل رہی ہے اور تعلیمی شعبے میں بھی تبدیلی ضروری ہے تو اس سے پہلے بنیادی ڈھانچوں کو مستحکم کرنا ہوگا اور دیہی علاقے کے طلباء اور طالبات کو کم شرح پر اسمارٹ فون یا پھر ٹیب کی سہولت فراہم کرنی ہوگی او ر اس کیلئے حکومت کو ایک بڑے فلاحی بجٹ کا اہتمام کرنا ہوگا ساتھ ہی ساتھ بینکوں کے ذریعہ بھی کم سود پر تعلیمی قرض کو عام کرنا ہوگا کہ نجی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ کو ایک بڑی فیس کی ادائیگی کرنی ہوتی ہے اور اس کورونا کے بعد متوسط طبقے کی معاشی زندگی بھی دشوار کن ہوگئی ہے ۔ایسی صورت میں کمزور سرپرستوں کیلئے اپنے بچوں کو جدید ترین آلات کے ذریعہ تعلیم دلوانا یا جاری رکھنا ایک بڑا چیلنج ثابت ہوگا۔اسلئے حکومت کو ان مسائل پر بھی غوروخوض کرنے کی ضرورت ہوگی کہ اب تک ہمارے ملک میں اب تک جو تعلیمی ڈھانچہ ہے وہ کلاس روم پر مبنی ہے۔اب جبکہ اس کورونا نے اجتماعی زندگی کو ہمارے معاشرے کیلئے جان لیوابنا دیا ہے تو یہ فطری بات ہے کہ اب بھی کلاس روم کی تعلیم لازم ہوگی اور تعلیمی شعبے میں آگے بڑھنے کیلئے یہ ضروری ہوگا کہ ہم جدید ترین طریقہ کار کو اپنائیں۔
زندگی کے ہرشعبے سے لاک ڈاؤن اٹھایا جارہا ہے،اب جبکہ دنیا کے دیگر حصوں میں تعلیمی ادارے کھل چکے ہیں، ہمارے ہاںتعلیمی نظام میں نجی تعلیمی اداروں کی بڑی کنٹریبیوشن ہے اور گریجویٹ پوسٹ گریجویٹ نوجوانوں کی بڑی تعداد ان نجی اداروں میں درس وتدریس سے وابستہ ہیں ان اداروں میں نوجوان اساتذہ نہ صرف اپنے علم سے دوسروں کو فائدہ پہنچا رہے ہیں بلکہ یہاں سے ملنے والی خطیر رقم سے ان کا روزی روٹی کا سامان بھی ہوتا ہے بدقسمتی سے ان اداروں کی بندش سے انکے لیے چولہا گرم کرنے کا اہتمام خاصا مشکل ہو گیا ہے ایک طرف تو بچوں کا مستقبل داٶ پراور دوسری طرف ان اساتذہ کی روزی روٹی کا مسئلہ ہے،ان اساتذہ کے لیے کوئی دوسرا چارہ بھی تو نہیں۔ بہتر ہوتا کہ تمام سٹیک ہولڈرز کو موجودہ صورت حال میں متبادل نظام کی تشکیل کا کام سونپ دیا جاتا اوراس سے بہتر،ممکنہ رستے نکال لیے جاتے۔تمام تر حفاظتی تدابیر کو اختیار کرتے ہوئے موجودہ صورت حال کوایجوکیشن فار کروناکے لیے استعمال کیا جاتا۔اس فیصلے کو موثراور معیاری بنانےکےلیےممکنہ نظر ثانی،جانچ پرکھ کی ضرورت ہے۔ایسا میکنزم تشکیل دیاجائے جس میں صحت،تعلیمی معیار،حوصلہ افزائی اورحوٍصلہ شکنی کے پہلوؤں کو مدنظر رکھا جائے۔
سرکاری اور نجی سکولز میں حکومت کی طرف سے سنیٹائیزر اور ماسک کی فراہمی یقینی بنانی چاہیے۔طلبا کو ایک فاصلے پر بیٹھا کر تدریس کا سلسلہ شروع کیا جاۓ۔تدریس کا دورانیہ کم رکھا جاۓ ہفتے میں دو دن چھٹی کر نی چاہیے۔جن اداروں میں طلبا کی تعداد زیادہ ہو اگر ادارے کا میدان وسیع و عریض ہو تو عارضی شیلٹر کا بندوبست کیا جائے تاکہ ایک کلاس میں طلبا کی محدود تعداد بیٹھ سکے۔اگر اس طرح ممکن نہ ہو تو طلبا کو شفٹ وائز رکھا جاۓ۔اس حوالے سے متعلقہ حکام کو ان اداروں کو ایس او پیز جاری کرنے چاہیے اور انھیں ہدایت کی جائیں کہ ان پر سختی سے عمل کیا جاۓ۔نجی اداروں کے مالکان کو بھی چاہیے کہ وہ اس ضمن میں خاطر خواہ اہتمام کریں تاکہ وائرس سے اس طور رہنا سیکھا جائے کہ ہم احتیاطی تدابیر سے ایک ساکت نظام کو Move کر سکیں۔کرونا وائرس اور لاک ڈائون کی وجہ سے پہلے ہی تعلیم کا جس قدر نقصان ہواہے،اگلے کئی سال ہم اسکے آفٹر شاکس برداشت کرتے رہیں گے کیونکہ یہ ملک کبھی بھی ایسے فیصلے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھااوراسکی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ہم نے آج تک آن لائن نظامِ تعلیم کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی تھی۔
اب جب کہ بہت سے ممالک میں لاک ڈاؤن ختم ہو رہا ہے تو سکولز، کالجزاور یونیورسٹیز بھی کھل رہی ہیں۔ایسے میں کرونا وائرس نے ہماری تعلیم کو کیسے متاثر کیااور ہمارےبچےسکولز میں اب کس طرح حاصل کریں گے؟ کرونا کے معدوم ہونےمیں وقت لگے گا یا شاید یہ انسان کے مابین ہمیشہ رہےکیونکہ تاحال اسکی ویکسین کا کوئی پتا نہیں۔چین کےصوبےووہان،انڈیا،ایران،بنگلہ دیش،سری لنکا، سپین سمیت دیگر کئی ممالکامریکہ، روس،ڈنمارک،فرانس،سوئٹزرلینڈ، آسٹریا،آسٹریلیا،نیوزی لینڈ،جرمنی،جاپان،کوریا،سعودی عرب،اسرائیل وغیرہ شامل ہیں۔جبکہ انگلینڈ نے یکم جون سےسکولز کھولنے کااعلان کیاہے۔لہذابورڈ امتحانات منسوخ کرنےاورطلبا کامستقبل برباد کرنے کی بجائے بورڈ امتحانات سماجی فاصلے کو برقرار رکھ کر تمام اضافی سرکاری و پرائیویٹ اساتذہ کی ڈیوٹیاں لگا کرسرکاری و پرائیویٹ سکولز وکالجزکو امتحانی سنٹرز بناکر منعقد کیے جائیں۔بورڈ امتحانات منسوخ کرنےکیصورت میں،بورڈز کوفیس اور فنڈز کی مد میں 45لاکھ طلبا سے وصول شدہ25ارب روپےطلبا کوفوراواپس کرنےہونگے۔لہذاحکومت کوایسےغیرآئینی اقدامات بند کرنےہونگے۔پہلے ہی سندھ ہائی کورٹ کی طرف سےفیسوں بارے حکومت سندھ کےآرڈنینس و نوٹیفکیشن کو آئین سےمتصادم اورغیر قانونی قراردیناپرائیویٹ سکولز کے اصولی موقف کی فتح ہے۔فیسوں کے حوالے سےحکومت پنجاب کا فیس میں 20فی صد کمی کا نوٹیفیکیشن وآرڈیننس بھی لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بنچ میں چیلنج کردیاگیاہےکیونکہ یہ نوٹیفکیشنز آئین کے آرٹیکل 18,8،3،4،5، 25(1)،37اور38سےمتصادم، امتیازی اورغیر قانونی ہیں۔لہذاعجلت میں کئے گئےاسطرح کے فیصلوں سےبہت سارے محنتی طلبا وطالبات کا مستقبل تاریک ہوجائیگا۔اس فیصلے سے جہاں محنتی اور ہونہار طلبا کا نقصان ہے وہاں غیر مستحق طلبا بھی انکے برابر صف میں کھڑے ہوجائیں گے جوسراسر میرٹ کا قتل ہے۔
موجودہ تعلیمی صورتحال کے پیش نظر کسی صورت میں لمبے عرصے کیلئے نہ تعلیمی ادارے بند کئے جاسکتے ہیں اور نہ ہی متبادل آن لائن سسٹم اتنی سکت رکھتا ہے کہ اسے طویل مدت کیلئے بروئے کار لایا جاسکے،اب جبکہ سپریم کورٹ کےاحکامات کے بعد تمام مارکیٹس کو کھولنے کا اعلان کیا گیا ہے وہیں تعلیمی اداروں سے متعلق ایس او پیز اور جامع پالیسی مرتب کرکے تعلیمی عمل جاری رکھا جاسکتا ہے، تعلیمی اداروں کو بھی ایس او پیز کے اصولوں کے تحت کھولا جائے تاکہ نئی نسل کا مزید نقصان نہ ہو۔حکومت جہاں مارکیٹس کو ایس او پیز کے اصولوں کے تحت کھول رہی ہے وہاں تعلیمی اداروں کے سربراہان کوبھی ایس او پیز کا پابند کرکےادارے کھولنے کی اجازت دی جائےتوبچوں کا مستقبل تاریک ہونے سے بچ جائے گا۔نیز پرائیویٹ سیکٹر کے لئے معقول مالی پیکیج کا اعلان بھی کرے تاکہ بلڈنگز کاکرایہ،اساتذہ کی تنخواہوں اور یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی کا بندوبست ہوسکے ورنہ معماران قوم کے گھروں میں چولہے بجھ جائیں گے،اسکا ذمہ دار کون ہوگا؟
طلبااس معاشرے کا پڑھا لکھا طبقہ ہیں لہذا سکولز،کالجزاور جامعات کی سطح پر طلباذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے حکومت کے معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔حکومت کو چاہیے کہ طویل المدتی بنیادوں پر حکمت علمی بنا کر پاکستان کےمستقبل یعنی نوجوانوں بالخصوص طلباکو محفوظ مواقع فراہم کریں تاکہ وہ تعلیمی میدان میں اپنی کامیابیوں کے ذریعے ملک و ملت کی خدمت کرسکیں اور بطور شہری ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم مشکل کی اس گھڑی میں ریاستی اداروں اور حکومت کے ساتھ تعاون کریں،یہ وقت کڑا امتحان ہے کہ ہم ہجوم یا قوم کی تفریق میں فرق واضح کریں کیونکہ ان حالات کا سامنا فقط مل جل کر اور سماجی رویوں میں تبدیلی لاکر ہی ممکن ہے۔غیر معمولی حالات میں یقینا غیر معمولی اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں،مگر ایسے اقدامات سے ضرور اجتناب کیا جائےجن سے میرٹ،قانون اور انصاف کا خون ہو جائے!
نوٹ:قلم کلب ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ newsdesk@qalamclub.com پر ای میل کیجیے۔