ایران نے ایک غیر معمولی فیصلہ کرتے ہوئے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کے ساتھ تمام تعاون ختم کرنے کے بل کی منظوری دے دی ہے — اور وہ بھی ایسے وقت میں جب خطہ پہلے ہی شدید کشیدگی کی لپیٹ میں ہے۔
سرکاری میڈیا کے مطابق، ایرانی پارلیمنٹ کی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیٹی نے پیر کے روز طویل مشاورت کے بعد یہ بل منظور کیا۔ کمیٹی کے ترجمان، ابراہیم رضائی نے اس پیش رفت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ بل کو 222 ارکان کی غیر متزلزل حمایت حاصل ہوئی، جبکہ صرف ایک رکن نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔
یہ فیصلہ ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب امریکا کے B-2 اسٹیلتھ بمبار طیاروں نے فردو، نطنز اور اصفہان میں ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا، جس پر ایران نے شدید ردِعمل ظاہر کیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ان حملوں کے بعد "ایران کا ایٹمی پروگرام مکمل طور پر ناکارہ ہوچکا ہے” اور اب وہ جوہری ہتھیار بنانے کے قابل نہیں رہے۔ تاہم ایرانی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کا تقریباً 400 کلوگرام افزودہ یورینیم ابھی بھی مکمل طور پر محفوظ ہے۔
یہ بل اب ایران کی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سامنے پیش کیا جائے گا، جہاں سے اس کی حتمی منظوری متوقع ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، اس اقدام سے نہ صرف ایران اور مغرب کے تعلقات مزید خراب ہوں گے، بلکہ خطے میں طاقت کا توازن بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔