کنکریاں ۔ کاشف مرزا
مقامی جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت نے استاد کے مبینہ تشدد سے جاں بحق ہونے والے طالب علم کے مقدمہ میں ملوث دونوں ملزمان کو جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔ ملزم عمران پر گلشن راوی کے نجی سکول میں دسویں کلاس کے طالب علم حافظ حنین کو سبق یاد نہ کرنے پر تشدد کر کے ہلاک کرنے کا الزام ہے۔ طالب علم کی ہلاکت کےمعاملہ پر مقتول کے ہم جماعت طلبا نے اشتعال میں آکررا ت گئے سکول کوآگ لگادی ، پولیس کے مطا بق آگ سکول کے 2کمروں میں لگی، فا ئر بریگیڈ عملہ نے قابوپالیا،آگ لگانے والے طلباکوحراست میں لے لیا گیا، جن سے تحقیقات جاری ہے ۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس وقت بچوں کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے جس پر انسانی حقوق کی تنظیمں کئی رپورٹس شائع کرچکی ہیں مگر ماضی کی طرح اب تک حکومتی دعوے اور وعدے نہ ہونے کے برابر ہیں،گزشتہ تین سال کے عرصے میں بچوں پر ہونے والے تشدد میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے جو ایک حیرانگی کا باعث ہونے کے ساتھ ہمارے پڑھے لکھے معاشر ے کے منہ پر طمانچہ ہے۔پاکستان کا شمار ان چند ممالک میں کیا جارہا ہے جہاں بچوں پر تشدد کومعاشرتی معمول سمجھ کر قبول کیا جاتاہے۔اقوام متحدہ اور بچوں کے حقوق کی کمیٹی کے مطابق بچوں کے خلاف کسی بھی قسم کا جسمانی تشدد بچوں کے حقوق کی پامالی کے دائرے میں آتا ہےاوراسکو روکنا ضروری ہے۔ہر سال 30 سے 35 ہزار بچے اسکولوں سے بھاگ جاتے ہیں، جسکی وجہ اسکول انتظامیہ کا نامناسب رویہ اور اساتذہ کا بیہمانہ جسمانی تشدد ہے۔
پولینڈ دنیا کا وہ پہلا ملک ہے جس نے 1783 میں تعلیمی اداروں میں جسمانی سزا ختم کرنے کے قوانین بنائے، جبکہ انگلستان میں 1986 سے سکولزمیں اساتذہ کی جانب سے دی جانے والی سزا کو ممنوع قرار دیا جا چکا ہے۔ تاہم پاکستان و بھارت سمیت دیگر ایشائی ممالک کے اکثر طلبہ کو اساتذہ کی مارپیٹ اور نامناسب رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔سویڈن میں بچوں پر تشدد پر مکمل پابندی کے بعد تشدد کی شرح 1979 میں پچاس فیصد سے گر کر 2000 میں دو فیصد رہ گئی۔ پولینڈ میں بچوں کو مارنے کی شرح 2010 سے 2016 کے دوران 32% گر گئی۔ رومانیہ میں ہاتھ پر مارنے کی شرح 2001 میں 84% سے 2012 میں 62% ہوئی اور کسی چیز سے مارنے کی شرح 29% سے 18% ہوگئی۔ ایسا مارنے سے جس سے نشان رہ جائیں وہ بھی 10فیصد سے گر کر 5 فیصد رہ گیا۔1979 میں سویڈن پہلا ملک تھا جہاں تعلیمی اداروں میں بچوں کو جسمانی سزا دینا ممنوع قرار دیا گیا جبکہ اس سال نیپال 54واں ملک بن گیا جہاں اس حوالے سے قوانین نافذ کیے گئے۔حالیہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ تعلیمی اداروں میں بچوں کو جسمانی سزا نہ دینے سے ان میں پرتشدد رویوں میں کمی پائی گئی۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ قانون سازی سے فرق پڑتا ہے۔
تشدد کے بڑھتے ہوئے رحجان کے تدارک کے لیے قومی اسمبلی نے بچوں کو جسمانی سزا دینے کی ممانعت کے بل کی متفقہ منظوری دیدی ہے۔پاس کیے جانے والے بل کے تحت بچوں پر تشدد کرنیوالے شخص کو ایک سال قید یا پچاس ہزار روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکیں گی۔ 2006ء میں پاکستان نے سکولوں سے جسمانی سزا کے خاتمے کا عزم کیا تھا اور اس حوالے سے پچھلے گیارہ سالوں میں وفاقی اور صوبائی سطح پر بہت سے قوانین بھی پاس کئے گئے لیکن آج تک پورے ملک کے سکولزسے جسمانی سزا کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں کیا جاسکا۔آج کا دور سوشل میڈیا کادور ہے جس میں کوئی بات چھپی نہیں رہ سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی قریب میں ایسی بہت سی ویڈیوز وائرل ہوچکی ہیں جن میں اساتذہ کو بچوں کو بے دردی سے مارتے ہوئے اور زخمی کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔سوشل میڈیا پر ان ویڈیوز کے وائرل ہونے کے بعد مختلف نیوز چینلز پر بھی یہ ویڈیو دکھائی گئیں جسکے بعد حکومت میں جنبش پیدا ہوئی لیکن آج تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ کیا انکو اپنے کئے کی سزا بھی ملی یا نہیں۔ سکولوں میں اساتذہ کی طرف سے بچوں پر کئے جانے والے تشدد کو ہمارے معاشرے میں بُرا نہیں سمجھا جاتا جسکی وجہ والدین کی جانب سے بچوں کی پرورش کا روایتی طریقہ کار ہے۔ اساتذہ کے علاوہ بہت سے والدین بھی ایسے ہیں جو جسمانی سزائوں کی حمایت کرتے ہیں اور جسمانی سزائوں کو بچے کی پرورش کے لئے مفید سمجھتے ہیں ۔ دراصل والدین یہ بات نہیں جانتے کہ اگر بچوں پر تشدد کیا جائے یا ان کو جسمانی سزا دی جائے تو اس سے بچے میں خوف، ناراضی اور خود ترسی جیسے جذبات پیدا ہوتے ہیں جو بعد میں سرکشی ، غصے اور حتیٰ کہ جرائم کی وجہ بنتے ہیں۔بلوچستان، خیبر پختونخوا اور اسلام آباد کیپٹل ٹیرٹری میں جسمانی سزائوں سے متعلقہ قوانین سکولوں میں جسمانی سزا دینے سے روکتےیا پھر جسمانی سزائوں کو سرکاری سکولوں تک محدود کرتے ہیں۔
2017ء میں سندھ میں سندھ پرابیشن آف کارپورل پنشمنٹ ایکٹ نافذ کیا گیا 18 سال سے کم عمر بچوں کو جسمانی سزا دینے اور انکے ساتھ ذلت آمیز رویہ برتنے سے روکتا ہے۔اس قانون کے مطابق کام کرنے کی جگہوں، پرائیویٹ اور سرکاری سکولوں اور دیگر رسمی اور غیر رسمی تعلیم کے اداروں ، چائلڈ کیئر سنٹرز ،مختلف بیماریوں اور نشے سے چھٹکارے کی بحالی کے مراکز اور نابالغ بچوں کے لئے بنائی گئی جیلوں میں جسمانی سزا منع ہے۔ صرف گلگت بلتستان وہ واحد علاقہ ہے جسکی قانون ساز اسمبلی نے سکولوں کے ساتھ ساتھ گھروں میں بھی جسمانی سزا کے خلاف قانون پاس کیا ہے۔گلگت بلتستان اسمبلی کی طرف سے خاندان کے افراد کی جانب سے بچوں پر تشدد کرنے اور جسمانی سزا سے روکنے کا اقدام ایک انتہائی احسن اقدام ہے جو بچوں کے خلاف تشدد کے مکمل خاتمے کی طرف پہلا قدم ثابت ہوگا۔
پاکستان پینل کوڈ کا سیکشن 89 دراصل اس قانون کا اساس ہے جسکے مطابق بچوں کے فائدےکے لئے 12 سال سے کم عمر بچوں کو انکے والدین یا گارڈین کی جانب سے جسمانی سزا نہیں دی جاسکتی۔لیکن آج بھی ہمارے ملک میں اس حوالے سے ایسے بہت سے قوانین موجود ہیں جنکو تبدیل کرکے یا ان میں اصلاحات لاکر انکے نفاذ کے عمل کو بہتر بنایا جاسکتا ہے تاکہ ملک سے بچوں کو سزا دینے کے مکروہ عمل کا مکمل طور پر خاتمہ کیا جاسکے۔پنجاب میں 1926ء میں پاس کیا جانے والے بورسٹل ایکٹ بورسٹل اداروں میں لڑکوں کو جسمانی سزا دینے سے روکتا ہے۔جیونائیل جسٹس سسٹم آرڈیننس 2000 ء پولیس کسٹڈی میں بچوں پر تشدد سے روکتا ہے لیکن یہ ایک ایسا قانون ہے جسکو دیگر قوانین پر فوقیت حاصل نہیں ہے۔پرزن ایکٹ 1894ء کوڑے مارنے کو سزا دینے میں شامل کرتا ہے اور سندھ چلڈرن ایکٹ 1955ء کے آرٹیکل 48 اور پنجاب ڈیسٹیٹویٹ اینڈ نیگلیکٹڈ چلڈرن ایکٹ 2004 ء کے آرٹیکل 35 کے مطابق یہ سزا مکمل طور پر قانونی ہے۔گلوبل انیشی ایٹو ٹو اینڈ آل کارپورل پنشمنٹ آف چلڈرن کی پاکستان بارے رپورٹ 2017ء کے مطابق آبالشن آف دا پنشمنٹ آف وپنگ ایکٹ 1996ء حداور حدود کے مقدمات پر نافذ نہیں ہوتا ۔اسکےمطابق بالغ ہونے کے ساتھ ہی تمام جسمانی سزائیں بچوں پر لاگو ہوجاتی ہیں۔ کمیٹی آن دا رائٹس آف دا چائلڈ کی 2016 رپورٹ کے مطابق ابھی بھی بہت سے قوانین کے حوالے سے ابہام پائے جاتے ہیں۔ دنیا کے 52 ممالک میں جسمانی تشدد مکمل طور پر ممنوع ہے جبکہ صرف 9 ممالک ایسے ہیں جن میں قانونی طور پر جسمانی سزا کی اجازت ہے ۔ ان ممالک میں سعودی عرب، صومالیہ، موریطانیہ، نائیجیریا، بٹسوانا، تنزانیہ، گیا نا، ملائیشیا اور برونائی شامل ہیں۔ پاکستان ان 92 ممالک کی فہرست میں ہے جو جسمانی سزا کا مکمل خاتمہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیںکاپورال پنیشمینٹ ایکٹ 2013 کا نفاذ اب ملک بھر میں ہوچکا ہے، جسکی خلاف ورزی پر قوانین کے مطابق سزا ملے گی۔
تشدد کے بچوں پر فوری اور طویل مدتی، دونوں طرح کے شدید منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جسمانی تشدد کے نتیجے میں بچے کی موت، زخمی ہونا یا معذوری ہوسکتی ہے، جبکہ دیگر اقسام کے نتیجے میں دماغی نشوونما متاثر اور اعصابی و مدافعتی نظام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اسکے نتیجے میں بچوں میں ادراکی صلاحیت تاخیر سے پروان چڑھتی ہے، اسکول میں ان بچوں کی کارکردگی خراب رہتی ہے، ذہنی صحت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں، خودکشی کی طرف مائل ہوسکتے ہیں، خود کو نقصان پہنچانے والے اقدامات میں دلچسپی لے سکتے ہیں اور بڑے ہوکر دیگر بچوں پر تشدد کرسکتے ہیں، اس طرح معاشرے میں بچوں پر تشدد کا رجحان فروغ پانے کے خدشات بڑھتے جاتے ہیں۔حالیہ برسوں میں بچوں پر تشدد کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے اور پاکستان میں بچوں پر تشدد کے حوالے سے پریشان کن اعدادوشمار سامنے آئے ہیں۔ پاکستان ایک نوجوان آبادی والا ملک ہے، جہاں کل آبادی کا 35.4فیصد 14سال تک کی عمر کے بچوں پر مشتمل ہے۔پریشان کن بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں بچوں پر تشدد کی روک تھام کے لیے قوانین تو موجود ہیں لیکن عمل درآمد کی صورتِ حال انتہائی مایوس کن ہے۔بچوں پر ہر قسم کے تشدد کو غیر قانونی بنانے کی ضرورت ہے۔ اس میں ہر عمر کے بچے شامل ہوں اور یہ قانون گھر، اسکول ہر جگہ لاگو ہو۔ اس قانون کو توڑنے کی سزا جرمانہ ہو۔ اس دائرے میں مقامی کارکن اور سیاسی رہنما اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ٹی وی، ریڈیو اور انٹرنیٹ کے ذریعے عوام میں شعور اور آگاہی بڑھانے کی مہم چلائی جائے۔ٹیکنالوجی کے اس دور میں بچے ٹیبلٹس، موبائل فونز اور گیمنگ کنسولز کے عادی ہوچکےہیں۔تاہم یہ بچوں پرتشدد کا ایک اور ذریعہ بن رہے ہیں۔ بچوں پر آن لائن تشدد انٹرنیٹ پر آن لائن گیمز، سماجی ویب سائٹس جیسے فیس بک، انسٹاگرام اور اسنیپ چیٹ کے ذریعے ہوتا ہے۔ اس ٹیکنالوجیکل دور میں والدین پر یہ اضافی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی آن لائن سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ انکے بچے ہر طرح کے آن لائن تشدد سے محفوظ رہیں۔
اس کائنات کا حسن پھول جیسے بچے ہیں،لیکن بدقسمتی سے وطن عزیز میں بچوں کو تشددکا نشانہ انھیں سنوارنےکے نام پر بناتے ہیں۔ بچوں پر تشدد کا آغاز تو والدین ہی کرتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں بچے مار پیٹ سے سدھرجائیں گے،لیکن ہوتا اس کے برعکس ہے اولاً تو بچے مارپیٹ کی وجہ سے ڈھیٹ بن جاتے ہیں یا پھر گھر سے فرار ہوجاتے ہیں۔ بچوں پر تشدد صرف گھروں تک محدود نہیں بلکہ تعلیمی اداروں میں بھی ڈنڈے اور ہاتھوں سے بچوں کو مارا جاتا ہے۔ملک بھر میں 1500000سے زائد اساتذہ نجی تعلیمی اداروں اور800000سےزائد اساتذہ سرکاری تعلیمی اداروں میں تدریس جیسے پیغمبرانہ پیشے سے منسلک ہیں۔ ان سرکاری تعلیمی اداروں میں توتربیت کے کچھ حد تک مواقع ہوتے ہیں، لیکن اکثرنجی تعلیمی اداروں میں محض آن جاب ٹریننگ کے مواقع ہی ہوتے ہیں۔اساتذہ طالب علموں کو مارنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ہماری بدقسمتی ہے کہ زیادہ تر ہمارے اساتذہ اس پیشے میں پیشہ وارانہ طور پرخواہش کے ساتھ نہیں آتے بلکہ حادثاتی طور پر مجبوری کے تحت آتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اساتذہ کی اکثریت باقاعدہ تربیت یافتہ نہیں ہوتے اور کئی حالات میں تو بدنصیبی سے کردار کے مسائل کا بھی شکار ہوتے ہیں۔دینی مدارس میں بھی بچوں پر بہیمانہ تشدد عام ہے یہاں تک کہ انھیں زنجیروں سے باندھ دیا جاتا ہے۔ غربت کے مارے محنت کش بچوں پر تشدد تو انتہائی ہولناک انداز میں کیا جاتا ہے،ورکشاپس،دکانوں اورگھروں میں کام کاج والے بچوں کو مالکان مارنا پیٹنا اورگالی دینا اپنا حق گردانتے ہیں ۔
بچوں کے ساتھ حسن سلوک،چاہت اور پیارکے انداز ہمیں سیرت رسول ﷺکے مطالعے سے ملتے ہیں۔ بچوں سے شفقت اور پیار سے پیش آنا نہ صرف حسن خلق ہے بلکہ ایک بہتر معاشرے کی تشکیل کی طرف پہلا قدم بھی ہے ۔بحیثیت مسلمان ہمیں اپنے ہادی ورہبر نبی اکرم ﷺ کی پیروی کرنی چاہیے۔ملک سے جسمانی سزا کے مکمل خاتمے کے لئے حکومت کومرکزی نظام انصاف کے ساتھ ساتھ جرگہ ، پنچائیت اور نابالغوں کی جیل جیسے متوازی چلنے والے نظاموں میں اصلاحات لاکر جسمانی سزا کو ختم کرنا ہوگا۔اسکے ساتھ ساتھ جسمانی سزائوں کے خلاف ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے آگاہی مہم کا آغاز ، متاثرین کے لئے ہیلپ لائن اور اساتذہ کی تربیت جیسے اقدامات بھی کرنے ہوں گے۔بچوں پر جسمانی تشدد ختم کرنے سے کیا اثر پڑے گا؟سویڈن کے تجربے سے معلوم ہوا کہ بچوں پر جسمانی تشدد ختم کرنے سے چوری، نشہ آور دواؤں سے متعلق جرائم، ریپ اور جسمانی حملوں کی تعداد گر گئی۔ اسکے علاوہ لڑائی جھگڑے، نشے کی علت، شراب کا استعمال اور خودکشی کی شرح بھی کم ہوگئی۔سوچنے کی بات ہے کہ ماں باپ ، ٹیچر یا مولوی صاحب بچوں کو مار کر سمجھتے ہیں کہ وہ دنیا کو بہتر بنا رہے ہیں حالانکہ آج ہمارے اردگرد جو جرائم اور مسائل موجود ہیں وہ اس تشدد کی وجہ سے ہیں۔معصوم بچوں پر جسمانی تشدد سے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور بچوں کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے ۔ مارپیٹ کا شکار بچے بڑے ہوکر نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں اور وہ معاشرے میں ایک فعال فرد کا کردار ادا کرنے سے قاصر رہتا ہے جسکے باعث معاشرے کی ہیئت میں تشدد کی روش پروان چڑھتی ہے اور معاشرہ عدم توازن کا شکار ہوجاتا ہے ۔بچہ مار نہیں پیار سے سیکھے تو درحقیقت یہ والدین اور استاد کی کامیابی اور پیغمبرانہ پیشے کا تقدس بھی ہے!