کاشف مرزا ۔ کنکریاں
مودی کشمیرکے حل کی بجائے اپنی سفاکیت سے کشمیریوں کو کچلنے کی راہ پر چل پڑا ہےاوراس خام خیالی میں مبتلا ہے کہ آرٹیکل 370اور 35 اے جو کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتا تھا ،کا خاتمہ کرکے سکون اور چین کی نیند سوئے گا ۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی حکومتوں نے کبھی کشمیر کو خصوصی حیثیت دی ہی نہیں،روزانہ کی بنیاد پر کشمیریوں کے جنازے اٹھائے جارہے ہیں ،بھارتی فوج نے ظلم و ستم کی تمام حدیں پارکردیں۔ چونکہ بھارت کشمیر میں بری طرح پھنس چکا ہے ،اسے آٹھ لاکھ فوج اور سکیورٹی پر بھاری اخراجات برداشت کرنے پڑ رہے ہیں،بڑی تعداد میں بھارتی فوجی مارے جا رہے ہیں ۔باوجود اسکے مودی کشمیری مسلمانوں کو انکا حق دینے کیلئے بخوشی تیار نہیں ، آرٹیکل 370اور 35 اے کا خاتمہ مودی کی بربریت کا آغاز ہے۔
بھارت نے مسئلہ کشمیر کو عالمی افق پر خود ہی اٹھا دیا ہے اور روز بروز تیزی آتی جائے گی ۔خدشہ یہ بھی ہے کہ کشمیر میں گوریلا وار شروع ہوجائے گی ۔کشمیر ایک تباہ کن صورتحال کا سامنا کرنے والا ہے۔ ہر سو خوف و ہراس اور وحشت کا راج ہے۔چالیس ہزار تازہ دم فوجی دستے تعینات کردیے گئے ہیں۔ وادی میں آئے سیاحوں کو کہہ دیا گیا ہے کہ وہ فوراً یہاں سے نکل جائیں کیونکہ انکی جانوں پر حملے کا خطرہ ہے۔ اس سلسلے میں خصوصی بسوں کو چلانے کا انتظام بھی کیا گیا ہے۔ لوگوں میں بے چینی پھیل گئی ہے۔ اے ٹی ایم مشینوں ، کھانے پینے کی اشیاء اور دوائیوں کی دوکانوں پر لمبی قطاریں لگ گئی ہیں۔ ایک انجانے خوف سے دوچار آبادی روز مرہ کی اشیاء کاذخیرہ کرنے پر مجبور ہوگئی ہے اور کہیں کہیں ان کی قلت کی خبریں بھی آ رہی ہیں۔
اس ساری صورتحال کو پیدا کرنے میں جو وجہ سامنے آر ہی ہے وہ حکومت کا یہ منصوبہ ہے کہ وہ پندرہ اگست کو کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی سے متعلق ایک بڑا اعلان کرنے جارہی ہے۔اپنے انتخابی منشور میں کئے گئے وعدے کے مطابق، جس میں آرٹیکل 370اور آرٹیکل 35-A کو آئین سے ختم کرنا تھا، بی جے پی کی حکومت جموں کشمیر کو دو ریاستوں اور لداخ کو مرکز کے ماتحت علاقے قرار دینے جارہی ہے، جس سے ان دونوں آرٹیکلز کا اثر از خود ختم ہوجائیگا۔ وادی کے تمام حلقوں نے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی ہے اور دو ٹوک الفاظ میں یہ واضح کردیا ہے کہ بھارتی آئین میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ایک ایسی سرخ لکیر ہے جس کو عبور کرنے سے بڑی تباہی آجائیگی۔بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 ایک عبوری انتظامی ڈھانچہ ہےبھارتی آئین کا باب XXI عبوری انتظامات کو آئینی تحفظ دیتا ہے۔
آرٹیکل 370 ریاست جموں و کشمیر کو بھارتی یونین کے اندرخصوصی نیم خودمختار حیثیت عطا کرتا ہے۔اسکے تحت ریاست جموں و کشمیر کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ بھارتی آئین کی جو دفعات دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتی ہیں وہ اس آرٹیکل کے تحت ریاست جموں و کشمیر پر نافذ نہیں کی جا سکتیں۔بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کی توثیق 1947 میں ریاست جموں و کشمیر کے وزیراعظم شیخ عبداللہ نے کی تھی اور شیخ عبداللہ کا بحثیت وزیراعظم تقرر مہاراجہ ہری سنگھ نے 26 اکتوبر 1947 کو کیا تھا۔ اس لئے بین الاقوامی قوانین اور قانون آزادی ہند کے تحت شیخ عبداللہ کے تمام اقدامات کو قانونی اور آئینی حیثئت حاصل ہے۔اس آرٹیکل کے تحت دفاع، مالیات، خارجہ امور اور رسل و رسائل کے علاوہ کسی اور معاملے میں مرکزی حکومت یا پارلیمنٹ ریاستی حکومت کی توثیق کے بغیر بھارتی قوانین کا اطلاق ریاست جموں و کشمیر میں نہیں کرسکتی۔اس آرٹیکل کے تحت ریاست جموں و کشمیر کے شہریوں کیلئے جائیداد، شہریت اور بنیادی انسانی حقوق جیسے قوانین عام بھارتی قوانین سے مختلف ہیں۔آرٹیکل 370 کے تحت مہاراجہ ہری سنگھ کے 1927 کے باشندہ ریاست قانون کو بھی آئینی تحفظ دیا گیا ہے۔ چنانچە بھارت کا کوئی بھی شہری ریاست جموں و کشمیر کے اندر جائیداد نہیں خرید سکتا۔یہ امر صرف بھارت کے عام شہریوں کی حد تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ بھارتی کارپوریشنز اورنجی اور سرکاری کمپنیاں بھی ریاست کے اندر جائیداد حاصل نہیں کرسکتی ہیں۔اس قانون کے باعث بھارتی سرمایہ کار ریاست جموں و کشمیر کے اندر کوئی تعمیراتی منصوبہ قائم نہیں کر سکتے۔ یوں ریاست کے اندر بڑے بڑے ہوٹلوں کی تعمیر، رہائشی کالونیاں بنانے اور صنعتی کارخانے، ڈیم اور دیگر فیکٹریاں لگانے کی آڑ میں ریاستی زمین پر قبضہ نہیں کیا جا سکتا۔
بھارتی آئین کے آرٹیکل 360 کے تحت مرکز کسی وقت بھی کسی ریاست میں یا پورے ملک میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کر سکتا ہے۔مگر آرٹیکل 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر میں بھارتی حکومت یا پارلیمنٹ اپنا یە اختیار استعمال نہیں کر سکتی۔ گورنر راج کے نفاذ کے ضمن میں بھی بھارتی حکومت کو بہت محدود اختیارات حاصل ہیں۔بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 حقیقی معنی میں بھارت کو ایک فیڈریشن کا درجہ دیتا ہے مگر یہ کیفیت صرف جموں و کشمیر کی حد تک محدود ہے۔بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کی بنیاد پر 1952 اور پھر 1954 میں ریاست جموں و کشمیر نے اپنا آئین تشکیل دیا۔ 1965 تک ریاست جموں و کشمیر کا اپنا وزیراعظم اور صدر بھی تھا، ریاست کا اپنا جھنڈا ہے اور ریاستی شہریوں کو بھارت کے اندر ایک ممتاز مقام حاصل ہے۔
اگر ہم بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کا موازنہ آزاد کشمیر کے ایکٹ 1974 یا گلگت بلتستان کے آئینی ڈھانچے کے ساتھ کریں تو ہمیں ہر اعتبار سے ریاست جموں و کشمیر آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے بہتر نظر آتی ہے ۔آزادی کے موقع پراوراسکے سات سال بعد پہلے مرحلے میں اگست 1947 میں مہاراجہ ہری سنگھ جو وادی کا حکمراں تھا اس نے ابتدا میں یہ فیصلہ کیا کہ وہ آزاد ریاست کی حیثیت سے رہے گا جبکہ وادی مسلمانوں کی واضح اکثریت کی حامل ریاست تھی اور اسکو قدرتی طور پر پاکستان کا حصہ بننا تھا۔اس سال اکتوبر میں بھارت نے اپنی فوجیں سرینگر میں اتار دیں اور مہاراجہ کو بھارت سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کرنے پر مجبور کردیا۔ اس دستاویز میں بھی راجہ نے صرف تین شعبوں میں اپنی خود مختاری بھارت کو تفویض کرنے کی حامی بھری: دفاع، خارجہ امور اور مواصلات۔ اسکے علاوہ تمام جموں و کشمیر کے عوام اور انکی اسمبلی کا ستحقاق تھا۔ بعد ازاں جب 1949 میں بھارت کا آئین تشکیل ہونے والا تھا اور ریاستی اسمبلی نے اپنی آئینی تجاویز مکمل نہیں کی تھیں تو اس آئین میں بھارت نے کشمیر سے متعلق آرٹیکل 370 شامل کردیا جو سارے بھارت میں کسی اور ریاست کو حاصل نہیں ہے۔ اسکی بنیاد وہی دستاویز الحاق ہے جس پر مہاراجہ نے جبراً دستخط کئے تھے۔بعد ازاں کشمیری لیڈروں کو یہ احساس ہوا کہ بھارت کے کچھ حلقے ریاست کی آبادی کی ہیت کو بدلنا چاہتے ہیں خصوصاً اس حوالے سے کہ وہاں دیگر علاقوں سے لا کر نئی قوموں کو بسایا جائے، یہ ایک بڑی تشوش کی بات تھی اور کشمیر ی عوام کبھی اس بات کو قبول نہیں کرینگے کہ انکی آبادی کو اقلیت میں بدل دیا جائے۔یہ خوف کشمیریوں کو آزادی کے بعد پیدا نہیں ہوا تھا۔ بلکہ 1927 اور 1932 میں بھی یہ اندیشہ اس وقت پیدا ہوا جب مقامی آبادی کے اندیشوں کو دور کرنے کیلئے مہاراجہ نے دو احکامات جاری کیے جسکی رو سے کشمیریوں کو یہ حقوق حاصل ہوگئے کہ انکے علاوہ کوئی اور ریاست میں جائیداد خریدنے کا حق نہیں رکھتا اور انہیں سرکاری نوکریوں اور سرکاری وسائل سے پیدا شدہ سہولتوں تک ترجیحاً رسائی حاصل ہوگی۔لہذا ضرروت اس بات کی تھی کہ ان حقوق کو آئینی تحفظ دیا جائے۔ دوسری جانب بھارتی حکومت بے چینی سے کشمیری آئین ساز اسمبلی سے دستاویز الحاق کی منظوری کا انتظار کر رہی تھی۔ اس پس منظر میں وزیر اعظم نہرو نے کشمیری قیادت کیساتھ 1952 میں طویل مذاکرات کیے اور ایک معاہدہ طے پا گیا جس کی اصل یہ تھی کہ مندرجہ بالا آئینی تحفظات مہیا کردے جائیں گے جیسے ہی کشمیری آئین ساز اسمبلی دستاویز الحاق کی توثیق کردیگی۔
1954 میں بھارتی آئین کا نیا آرٹیکل 35-A ایک صدراتی حکم کے ذریعے شائع کردیا گیا۔اس آرٹیکل کی رو سے ریاستی اسمبلی کو مندرجہ ذیل اختیارات حاصل ہوگئے، قطع نظر اسکے کہ بھارتی آئین میں اسکے متعلق کیا لکھا گیا ہے کہ ریاستی اسمبلی اس بات کا تعین کریگی کہ مقامی شہری کون ہےاور ایسے مستقل شہریوں پر خصوصی استحقاق تفویض کرناجس میں سرکاری نوکریوں میں ترجیح دینا؛ دیگر لوگوں کومشروط رہائش کی اجازت دینا؛ مستقل رہائشیوں کو دیگر سرکاری سہولیات کی ترجیحاً فراہمی، جائیداد کا استحقاق مستقل رہائشیوں تک محدود کرنا۔ یہ صدراتی حکم نامہ بھارتی صدر نے ان اختیارات کے تحت جاری کیا ہے جو آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت انکو حاصل ہیں اور جس میں ریاست جموں کشمیر کے حوالے سے بھارتی پارلیمنٹ کو سوائے دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کے دیگر امور میں قانون سازی کا اختیار نہیں ہے۔ لہذا کچھ لوگوں کا یہ خیال کہ کیونکہ یہ معاملہ پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر طے ہوگیا تھا تو اس وجہ سے یہ غیر آئینی ہے اسکی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ حال ہی میں سپریم کورٹ میں کچھ فرضی NGOs کو کھڑا کرکے اس بات کی کوشش کی گئی کہ سپریم کورٹ کے ذریعے اس آرٹیکل کو آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم قرار دلوادیا جائے۔ لیکن تا حال یہ کوشش کامیاب نہیں ہوسکی کیونکہ سپریم کورٹ نے اس معاملے کو التوا میں ڈالا ہوا ہے۔
کشمیر ی عوام نے اپنی جدوجہد آزادی یا کم از کم ان ضمانتوں کے حصول کیلئے جن کی بنیاد پر انکی مرضی کے خلافت ان کا بھارت سے الحاق کردیا گیا تھا ، جو قربانیاں دی ہیں وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ اگر بھارتی حکومت کو یہ زعم ہے کہ وہ اسرائیل کی طرز پر کشمیریوں کی زمین اسی طرح چھین لے گی جیسا فلسطینی زمینوں کے ساتھ کیا جارہا ہے تو یہ اسکی نادانی ہے۔ نہ کشمیر فلسطین ہے اور نہ بھارت اسرائیل ہے،البتہ ایک مشابہت ضرور ہے کہ ہر دو قضیوں میں ایک جابر طاقت ایک مظلوم قوم پر جبراً قابض ہوگئی ہے۔دونوں قضیوں کے حل کیلئے اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی موجود ہیں لیکن بڑی طاقتوں کے سامنے اقوام متحدہ کوئی موثر ادارہ نہیں ہے۔ اس مسئلہ میں پاکستان ایک فریق ہے، لہذا اس علاقے کا ایسا کوئی تصفیہ جس سے اسکو بھارت میں ضم کردیا جائے یا اسکی خود مختاری کو ختم کردیا جائے، پاکستان کو قابل قبول نہیں ہوگا۔ اور پاکستان کو یہ استحقاق حاصل ہوگا کہ اسکے تدارک کیلئے تمام ممکنہ اقدامات اٹھائے۔
آرٹیکل 35-A کو ختم کرنے سے وادی میں اس خبر سے خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں اس پر متفق ہیں کہ ایسی کسی بھی کوشش کی شدید مزاحمت کی جائیگی۔ تما م سیاسی رہنما آگاہی مہم میں حصہ لے رہے ہیں تاکہ عوام میں اس مسئلے سے متعلق شعور پیدا کیا جا سکے۔ اس آرٹیکل کا چھونا بارود کے ڈھیر کو چھونے کے مترادف ہوگااور کشمیری عوام کبھی بھی اس بات کو قبول نہیں کرینگے، یہ دونوں آرٹیکلز بھارت سے الحاق کی بنیاد ہیں اور انکو ختم کرنے سے وہ بنیاد منہدم ہوجائیگی۔ اگر کشمیریوں کی شناخت پر حملہ کیا گیا تو ہم اسکی کھل کر مزاحمت کرینگے۔یہ آرٹیکلز کشمیریوں کیلئے تقدس کے حامل ہیں۔ انکو ختم کرنے کا سوچنا آگ سے کھیلنا ہے۔ وادی کے معاملات بہت خراب ہوچکے ہیں۔ ایسا کرنے سے جلتی پر تیل ڈالنا ثابت ہوگا۔اقوام متحدہ کی قراردادیں اس ضمن میں بڑ ی واضح ہیں اورانکی موجودگی میں اقوام متحدہ نے ماضی میں بھی اس بات کو لائق اعتبار نہیں سمجھا ہے کہ بھارت وادی کے انتخابات کو استصواب رائے کا متبادل یا اسکی اسمبلی کی ایسی قراردادیں جو کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ کہتی ہیں انہیں قبول کرے