کنکریاں: کاشف مرزا
اقوام متحدہ کے انسدادِ منشیات و کرائم کے ادارے UNODCکی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 15سے 64سال کی عمر کے 88 لاکھ سے زائد افراد منشیات کے عادی ہیں۔تعلیمی اداروں میں منشیات کے فروغ نے پولیس و انسداد منشیات کے لیے کام کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔ طلبہ میں آئس سمیت دیگر نشہ آور اشیاء کا استعمال بڑھتا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں عدلیہ کی جانب سے نوٹس لینےپر منشیات کے خاتمہ کی جدوجہد میں اینٹی نارکوٹکس فورس، محکمہ تعلیم، ایکسائز و ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹکس کنٹرول اور محکمہ سوشل ویلفیئر فعال ہوگئے ہیں۔ وطنِ عزیز میں صرف ہیروئن استعمال کرنے والوں کی تعداد 3 لاکھ سے زائد ہے جبکہ 15 فیصد افراد انجکشن کے ذریعے نشہ کرتے ہیں۔اس تعداد میں کم عمر بچوں سے لے کر 65 سال کے بزرگ افراد بھی شامل ہیں۔پاکستان کو درپیش مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ نوجوان نسل کا منشیات کی طرف راغب ہونا ہے۔پاکستان میں نشہ کرنے والوں کی زیادہ تعداد 13 سے 24 سال کے لوگوں کی ہے۔اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریبا 46 فیصد مرد اور 9 فیصد خواتین سگریٹ نوشی کرتی ہیں جو روزانہ تقریبا 18 کروڑ سگریٹ پی جاتے ہیں جن پر مجموعی طور پر 75 کروڑ روپے روزانہ خرچ ہوتے ہیں۔تعلیمی اداروں اور نوجوان نسل میں منشیات کا استعمال فیشن بن گیا۔ منشیات کے عادی افراد میں صرف مرد ہی شامل نہیں ہیں بلکہ خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی نشے کی عادی ہے۔ نوجوانوں میں تمباکو، چرس، شیشہ، افیون،شراب و دیگر جدید قسم کی منشیات عام ہیں اور وہ انکے نقصانات سے بے خبر ہیں۔
پاکستان میں منشیات کی روک تھام کے لئے باقاعدہ قوانین موجود ہیں جنکے تحت اب تک منشیات فروشی میں ملوث متعدد افراد کو گرفتار کر کے عدالتوں کے ذریعے سزائیں ہوچکی ہیں۔محکمہ ایکسائز، کسٹم اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے منشیات فروشوں کے خلاف کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ ان ساری کارروائیوں کے باجود پاکستان میں منشیات استعمال کرنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ تشویشناک ہے۔اسکےاستعمال سے سینکڑوں لوگ کینسر، ہیپاٹائٹس اور دیگر بیماریوں کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جبکہ نوجوان نشہ حاصل کرنے کی خاطر ہر قسم کے جرائم کرنے پر آمادہ رہتے ہیں۔منشیات کے استعمال سے جہاں ذہنی امراض لاحق ہوتے ہیں وہاں اسکے عادی افراد ایچ آئی وی، جگر کے سرطان، ہیپاٹائٹس بی اور سی میں بھی مبتلا ہیں۔
منشیات کے کاروبار میں ملوث اسمگلرز کی پشت پر اثر و رسوخ کے حامل افراد ہوتے ہیں جو قانون کی گرفت میں آنے سے پہلے ہی اپنے ایجنٹوں کی ضمانت پر رہائی کا بندوبست کر لیتے ہیں۔منشیات فروش یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبا کو نشانہ بنا کر نشے کی لت لگا رہے ہیں جبکہ پولیس اور انتظامیہ کی نااہلی کے باعث ڈرگ مافیا اپنے کاروبار کو وسعت دینے میں کامیاب ہے۔تعلیمی اداروں کے اندر طلباء میں منشیات کے استعمال کے بڑھتے ہوئے رجحانات پر ایک رپورٹ کے مطابق بڑے اور مہنگے سکولزمیں بھی منشیات کے استعمال کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ ان تعلیمی اداروں کے ہاسٹلز کا عملہ بھی شراب کی فروخت میں ملوث ہے، طلبہ اور طالبات ویک اینڈ پر نائٹ پارٹیوں میں شرکت کرتے ہیں، جہاں شراب اور دیگر منشیات کا استعمال عام ہے۔یہاں چرس اورافیون کے علاوہ تمام نشہ آوراشیاء کا استعمال بھی ہوتا ہے، اور اسکے ساتھ آئس نام کا ایک نیا نشہ عام ہو گیا ہے۔مختلف کیفوں اور کلبوں میں حقے کے ذریعے شیشہ کا نشہ کرنا اونچی سوسائٹی کا فیشن بن چکا ہے۔
دنیامیں سب سےبڑاکاروبارتیل کاہےاورجولوگ تیل کوکنٹرول کرتے ہیں وہ دنیاکی معیشت کو کنٹرول کرتے ہیں۔جبکہ دوسرا سب سے بڑا کاروبار اسلحے کا ہے.اسکا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکہ کی کل آمدن کا پچاس فیصد اسلحےکی فروخت سےحاصل ھوتا ہے اس لیےیہ بات اسکےمفاد میں ہےکہ دنیامیں مسلسل جنگیں جاری رہیں،اور تیسرا سب سے بڑا کاروبار ڈرگز (Drugs) کا ہے۔لوگ اسکے متعلق بہت زیادہ اس لئے نہیں جانتے کہ یہ غیرقانونی طور پرھوتاہےاور امریکن سی آئی اے(CIA) دنیا کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی ہےجسکےآپریشنز دنیا بھر میں جاری رھتے ہیں جن پر بے پناہ اخراجات آتے ہیں، یہ اخراجات اس بجٹ سےکئی گنا زیادہ ھوتےہیں جواس کیلئے منظور کیےجاتےُہیں جواپنے ٪90 اخراجات ڈرگز کے کاروبار سے پوری کرتی ہے۔دنیا میں دو خطے ایسے ہیں جہاں سب سے زیادہ ڈرگز پیدا ھوتی ہیں ۔ایک چین کے قریب میانمار اور تھائی لینڈ وغیرہ کاعلاقہ ہےجس کوگولڈن ٹرائی اینگل کہا جاتا ہے اور کسی دور میں دنیا میں سب سے زیادہ افیون پیدا کرنے والا خطہ تھا۔دوسراخطہ جسکوآج کل گولڈن کریسنٹ کہاجاتا ہے وہ افغانستان کا علاقہ ہےجہاں دنیا کی تقریباً ٪90 سے زیادہ افیون اور ھیروئین پیدا کی جاتی ہے۔ان میں سے اکثر ان علاقوں میں پیدا کی جاتی ہے جہاں امریکنز کا کنٹرول ہے اور امریکن آرمی کے لوگ کھلے عام یہ کہتے ھوئے پائے جاتے ھیں کہ ہم افیون کی کاشت کو محفوظ بنانے آئے ہیں۔
طالبان نے جب افغانستان پر کنٹرول حاصل کر لیا تو ملا عمر نے جولائی2000ء میں افیون کی کاشت پر مکمل پابندی لگا دی تھی اور دنیا بھر میں پہلی بار افیون یا ہیروئن کی شدید قلت پیدا ھو گئی تھی۔امریکن حملےکےبعد افغانستان میں افیون کی کاشت میں ریکارڈ اضافہ ھوا اور کہا جاتاہےکہ اس عرصے میں سی آئی اے (CIA) نے اتنے کمائے کہ جب امریکہ میں بینک دیوالیہ ھونے لگے تھے تو سی آئی اے نے ڈرگز کے ذریعے کمائے گئے پیسوں سے ان بینکوں کو سہارا دیا،جبکہ انٹرنیٹ پر منشیات کی فروخت میں دوگنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ نیٹو کے کنٹینرز میں ٹنوں کے حساب سے ایسیٹک این ھائڈرائیڈ نامی کیمیکل افغآنستان جاتاہےاور آج تک کسی نے یہ سوال کرنے کی جرأت نہیں کی کہ آخر اس کیمیکل کو افغانستان میں کس مقصد کیلئےاستعمال کیا جاتا ہے؟ ایسیٹک این ھائیڈرائڈ وہ کیمیکل ہے جو افیون کو ہیروئین بناتا ہے۔ سی آئی اے (CIA) نے کچھ لوگوں کو اس کام کے لیے اپنا فرنٹ مین بنا رکھا ہے۔حامد کرزئی کے بھائی ولی کرزئی ان میں سے ایک ہے جسکے بارے میں اندازہ ہےکہ اگر غیر قانونی دولت کی کوئی رینکنگ ھو تو شائد وہ دنیا کا امیر ترین شخص ہو۔پوست کی کاشت میں کمی کے باوجود بھی افغانستان پوست کاشت کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جہاں قحط اور پوست کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے پیداوار میں کمی واقع ہوئی۔میانمار افیون کی پیداوار کا دوسرا بڑا ملک ہے جہاں پیداوار میں 12 فیصد کمی ہوئی ہے۔ اسکی وجہ جنوبی اور مشرقی ایشیا میں طلب میں کمی ہے جہاں اب کیمیائی طریقے سے منشیات تیار کی جاتی ہے۔افغانستان اور میانمار کے بعد افیون کی سب سے زیادہ کاشت میکسکو میں کی جاتی ہے۔ یہ تینوں ممالک دنیا میں منشیات کی منڈی کا 96 فیصد افیون پیدا کرتے ہیں۔
امریکہ کے افغانستان پر حملے کی بہت سی وجوہات میں سےایک بڑی وجہ 310بلین ڈالر سالانہ ہیروئین کےاس کاروبارکا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنا تھا جس پر سی آئی اے (CIA) چلتی ہے۔حیران کن بات یہ ہے کہ اس ہیروئین کی سب سے زیادہ کھپت یورپ اور امریکہ میں ھی ھوتی ہے۔چونکہ سی آئی اے(CIA) کوکنٹرول کرنےوالے امریکن عیسائی نہیں بلکہ وہ یہودی ہیں جنہوں نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا رکھاہے اسلئے انکو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ اس ہیروئین سے مرنے والے کون ہیں۔لہٰذا وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان کی جنگ جو امریکہ نے دنیا میں قیامِ امن کے لئے شروع کی،انکو چاہیے کہ وہ انٹرنیٹ پر سرچ کرکے دنیا میں چھڑی ہوئی جنگوں کے متعلق معلومات حاصل کریں دنیا کی سپر پاور طاقتوں کی جنگ نہ تو امن کی خاطر ہے اور نہ ہی کسی نیک مقاصد کیلئے بلکہ درحقیقت یہ جنگیں ان سپر پاور طاقتوں کی بقا کی جنگیں ہیں جسکے مقاصد ناجائز طریقے سے کمائی کرنے کا ایک ذریعہ ہیں اور اپنی ڈوبتی معاشی حالت کوبچانے کی ایک کوشش ہے جسےامن کے قیام کا خوبصورت نام دیا گیا ہے۔
پاکستان دنیا میں منشیات کی غیر قانونی ترسیل کا ایک اہم روٹ ہے جہاں سب سے زیادہ ہیروئن اور گانجا پکڑا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی منشیات بارے میں عالمی رپورٹ کے مطابق 71 رکن ممالک میں منشیات پکڑنے کے 25 لاکھ کیسز ہوئے جن میں گانجا، ہیروئن اور کوکین پکڑی گئی۔سپین کے بعد پاکستان اور مراکش ایسے ممالک ہیں جہاں سب سے زیادہ گانجا پکڑا گیا۔اسی طرح سب سے زیادہ ہیروئن افغانستان اور اسکے بعد پاکستان اور ایران سے قبضے میں لی گئی جو دونوں افغانستان کے پڑوسی ممالک ہیں۔ دنیا میں نشے کی بے راہ روی کے شکار افراد کی تعداد تین کروڑ 50 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔2017 میں منشیات کے استعمال کی وجہ سے 5 لاکھ 85 ہزار سے زائد افراد کی ہلاکت ہوئی اور تقریباً 2 کروڑ 71 لاکھ افراد نے سال میں ایک بار منشیات کا استعمال ضرور کیا ہے۔کوکین افریقہ، ایشیا، یورپ اور شمالی امریکہ میں زیادہ استعمال کی جا رہی ہے جبکہ گانجے کا استعمال شمالی امریکہ، جنوبی امریکہ اور ایشیا میں زیادہ ہے۔
گذشتہ ایک دہائی میں مارکیٹ میں موجود منشیات کی تیاری کے طریقہ کار میں تبدیلی آئی ہے یعنی قدرتی جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ کوکین اور ہیروئن اب کیمیائی طریقے سے بنائی جا رہی ہے جس سے انسانی اموات میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔ عالمی طور پر ایک کروڑ 88 لاکھ افراد گانجے کے عادی ہیں،53 لاکھ سے زائد افراد ہیروئن یا کوکین کا استعمال کر رہے ہیں۔ دنیا میں ایک کروڑ 80 لاکھ افراد کوکین کا استعمال کرتے ہیں۔ گانجا دنیا میں کاشت کی جانے والی سب سے بڑی منشیات ہے اوراسکے علاوہ کوکا کی کاشت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ایمفیٹامینز استعمال کرنے والوں کی تعداد 34 لاکھ کا اندازہ لگایا گیاہے۔ایمفیٹامینز کا استعمال طبی طور پر بھی کیا جاتا ہے تاہم بطور نشہ اعصابی نظام کو متحرک کرنے اور افسردگی دور کرنے کے لیے اسکا استعمال کیا جاتا ہے۔ کرسٹل میتھ یا آئس بھی اسکی اقسام ہیں۔
دنیا بھر میں 80 فیصد منشیات کا استعمال ترقی پذیر ممالک میں کیا جا رہا ہے جن میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکاسرفہرست ہیں۔ امریکا سمیت دیگر یورپی ممالک نے منشیات پر کافی حد تک قابو پا لیا ہے۔پاکستان میں گزشتہ سال منشیات اسمگل اور فروخت کرنے کے مقدمات میں 30 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے ۔ منشیات کی خصوصی عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کی تعداد تقریباً 22 ہزار ہو گئی ہے جبکہ منشیات فروشوں کو سزائیں دلانے کے لحاظ سے اینٹی نارکوٹیکس فورس کی کارکردگی بہتر ہے ۔ اینٹی نارکوٹیکس فورس 20 فیصد سے زائد مقدمات میں ملزمان کو سزائیں دلائی ہیں جبکہ پولیس کی سزاؤں کی شرح 5 فیصد ہے۔منشیات کے استعمال سے شرح اموات میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور اس سے بے شمار خاندان اجڑ چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق منشیات کا استعمال نوجوانوں میں بڑھ رہا ہے۔15 سے 64 سال کے افراد میں سے 18 سے 25 سال تک کے نوجوانوں میں رجحان زیادہ ہے جسکی وجوہات میں معلومات اور نتائج کے بارے میں لاعلمی، ذہنی تناؤ، خاندان کی جانب سے نظر انداز ہونا، سماجی رویے، میڈیا کا اثر اور دیگر عوامل شامل ہیں۔ آج کے بچے بہت حساس ہیں،اور موبائل فون احساسات کا قاتل ہے۔ماں باپ کی توجہ کی بے انتہا ضرورت ہے۔ یقیناً اس دور میں بہت جدید ترقی کی بدولت بہت سی آسانیاں پیداہوچکی ہیں۔ فاصلے سمٹ گئے ہیں۔ علم وآگہی کے حصول میں آسانی ہوچکی ہے۔ لیکن انسانی دلوں میں دوریاں بڑھ گئیں ہیں۔ ماں باپ صرف مالی فوائد بچے کو فراہم کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ اور اسکے بدلے میں بچوں سے ایک شاندار مستقبل ڈیمانڈکرتے ہیں۔ لیکن ماں باپ یہ بھول چکے ہیں کہ انکے بچوں کو مادی چیزوں کے علاوہ بھی بہت کچھ چاہیئے۔ سب سے بڑھ کر ماں باپ کا قیمتی وقت! جس میں والدین اپنے بچوں کے پاس بیٹھ کر ان سے انکے مسائل معلوم کریں۔ انکے احساسات اور جذبات کو الفاظ کا روپ دلوائیں اور انکی مدد کریں ان مسائل سے نکلنے میں۔ انہیں آپکے اعتماد، سہارے اور حوصلے کی ضرورت ہے ورنہ ماں باپ کے ہوتے ہوئے بھی بچے اپنے آپ کو یتیم محسوس کریں گے۔دوسری طرف منشیات کے عادی افراد کے علاج کے لیے رکن ممالک کو اقدامات لینا ہوں گے ورنہ عالمی ترقی کے اہداف حاصل نہیں کیے جا سکتے اور ’کوئی پیچھے نہ رہ جائے‘ کے خواب کو پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچایا جا سکتا۔
نوٹ:قلم کلب ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔