محمد احمد، شکار پور
جب سے لوگوں نے دین کو خواہشاتِ نفس کے تابع بنادیا ،وہیں سے بگاڑ پیدا ہونا شروع ہوا ہے،نتیجہ یہ نکلا دین تو ہوا رخصت باقی رہ گئی خواہشیں، پھر جو حشر ہوا سب کے سامنے ہے۔ ہر ایک کا حق اس کے مسلک میں منحصر اور مرشد کے ساتھ ہے۔جو پیر ومرشد کہے اور کرے اس کو ہی معیار حق سمجھیں گے، قرآن اور سنت کو پس پشت ڈالیں گے، سلف صالحین کی تشریحات کو نظر انداز کریں گے۔ بس قائد اور لیڈر کی بات بطور دلیل پیش کریں گے اور دوسروں کو منوائیں گے،عوام الناس میں اس کی پرچار اور تبلیغ کریں گے۔
اس جہالت کا نقصان یہ ہوا اصل دین لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوتا جارہا ہے،مسلک پرستی اور تفرقہ عروج پر جا پہنچا۔ کسی نے لوگوں کو ستانے کا نام دین رکھ لیا تو کسی نے گمراہی کو اسلام بنا کر پیش کیا۔ جب سے چوکوں،چوراہوں،چورنگیوں ،سڑکوں اور شاہراؤں پر عبادت اور مذہبی رسومات کا رواج پڑا ہے خلق خدا تکلیف اور کرب میں ہے۔ لاکھوں لوگوں کی زندگی اجیرن بن کر رہہ جاتی ہے۔ہزاروں لوگ گھروں تک محصور ہوکر رہ جاتے ہیں۔ضروریات زندگی تک میسر نہیں ہوتے، نظام زندگی معطل ہوکر رہہ جاتا ہے۔جس کی نہ دین اجازت دیتا ہے نہ کوئی قانون۔ مہذب دنیا میں اس لاقانونیت کی مثال نہیں ملتی صد افسوس ہمارے ہاں یہ مکروہ دہندہ مذہب کے مقدس نام پر کیا جارہا ہے۔ ہم کسی کو نہیں روکتے اور ٹونکتے بلکہ آئین پاکستان سب مذاہب کو آزادی کے ساتھ اپنی رسومات کی اجازت دیتا ہے۔ لیکن پرامن اور مہذب طریقے سے جس سے خلق خدا متاثر نہ ہو۔ آئین پاکستان اس کی اجازت کسی فرد، گروہ مذہب کو نہیں دیتا جس سے عام لوگوں کی آزادی کو ٹھیس پہنچے اور زندگی مفلوج ہو۔ مذہب کے نام لیواوں کو اس مسئلہ میں سب سے زیادہ حساس اور سنجیدہ ہونا چاہئیے تھا کیونکہ دین اسلام میں ناحق تکلیف پہنچانے کی بڑی ممانعت آئی ہے۔لیکن المیہ یہ ہے کہ یہ لوگ سب سے پیش پیش ہیں۔ ایک حدیث شریف پڑھ لیجئے: المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ۔ کامل مسلمان وہ شخص ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔ اس حدیث شریف کی تشریح میں محدثین عظام اور فقہاء کرام رح کا اتفاق ہے کہ کافر اور غیر مسلم کو بھی ناحق تکلیف پہنچانا حرام اور ناجائز ہے۔ ناحق تکلیف،ایذا رسانی حرام ہے،چاہے زبان سے ہو یا ہاتھ سے ہو۔اگر ہم اس حدیث شریف پر بھی عمل کرنے کی کوشش کریں تو ہمارے معاشرے میں ہر طرح کے جھگڑے اور مذہبی فسادات ختم ہوجائیں۔ مسلکی اختلافات اور فرقہ واریت کی جڑیں کھوکھلی ہوجائیں۔لیکن عمل کون کرے؟ ایسے نفوس قدسیہ اور پاکباز ہستیاں کہاں سے لائیں؟جو خواہشات نفس کو قربان کریں اور ملت اور امت کے غمخوار ہوں۔
دوسری حدیث مبارکہ کا مفہوم بھی ملاحظہ فرمائیں: قلب مؤمن کو تکلیف پہنچانا کعبہ اللہ کو ڈہانے سے زیادہ گناہ ہے۔اندازہ کیجئے اور دل پر ہاتھ رکھیئے اور اپنا عمل دیکھئے۔پھر اپنا محاسبہ کیجئے۔ قرآن وحدیث کا مطالعہ کیجئے:آپ کو جگہ جگہ نظر آئے گا ہر جگہ اتحاد واتفاق کی دعوت ہے۔اختلاف وانتشار کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ معاشرے میں وہ اشخاص جہالت پھیلاتے ہیں جو علم کی روشنی اور دولت اور قرآن وسنت کے نور سے محروم ہوتے ہیں۔وہ عناصر چاہے کسی بھی لبادے میں ہوں۔ عبادت کی جگہیں سب مذاہب میں مختص ہیں مسلمان مساجد میں،یہودی گرجا گھر،عیسائی کلیسا اور ہندو مندر میں اپنی اپنی عبادتیں کرتے ہیں۔ کوئی مذہب اور دھرم اپنے متبعین اور پیروکاروں کو خلق خدا کو ستانے کا درس اور سبق نہیں دیتا ،نہیں معلوم پھر یہ شیطانی راستہ ان کو کیسے سوجھا ،سڑکیں بند کرکے اس بے دینی کا نام دین رکھ لیا جائے۔دین لوگوں کا تزکیہ کرتا ہے،ہمدردی کی تلقین کرتا ہے۔ سڑکوں اور شاہراؤں پر رسومات کی ادائیگی کے بجائے اپنے عبادت خانوں کا رخ کجیئے۔اس عمل سے آپ کو بھی آسانی ہوگی خلق خدا کو بھی راحت میسر ہوگی۔بہت بڑا طبقہ متاثر ہونے سے بھی بچ جائیگا۔
حدیث میں تو راستہ سے پتھر اور تکلیف کی چیز کو ہٹانے کو ایمان کا حصہ قرار دیا ہے۔چہ جائیکہ پتھر نما انسان خود راستہ روک کر کھڑے ہوجائیں پھر ان کا ایمان کس درجے کا ہوگا؟کسی کی کوئی تخصیص نہیں جو بھی اس شنیع اور قبیح عمل میں ملوث ہیں وہ اپنے اس عمل سے تائب ہوجائیں۔ہر ایک نے سڑکوں پر جلسے ،جلوس،دھرنوں اور محفلوں کے لیئے دن مخصوص کر رکھے ہیں۔یہ عمل نامناسب ہے ۔ہماری فریاد کو نظر انداز مت کریں مذہبی طبقوں کے اس عمل سے لوگ دین سے منتفر ہورہے ہیں۔ دوسری طرف یہ سوال ملک کی اجتماعی دانش سے ہے کہ وہ اس رویہ کے خاتمہ اور سدباب کے لیئے ہر ممکن کوششیں کریں اور ممبر ومحراب،قلم وکتاب،قانون عدالت کا سہارا کے کر یہ کلچر ختم کرائیں۔ کیونکہ ہمارا دین،قانون اور آئین پاکستان اس کی اجازت نہیں دیتا۔ تمام مسالک کے معتدل حضرات بھی اپنے حلقوں میں اس قباحت سے پردہ اٹھائیں اور متحد اور یکجا ہوکر قوم کی یہ مشکل حل کریں اور یہ پیغام دیں کہ دین اسلام ایک امن اور سلامتی کا مذہب ہے جو لوگوں کے حقوق جان، مال، عزت اور آبرو کی حفاظت کا درس دیتا ہے۔پیغام سے بڑھ عملا اس کا ثبوت دینے کے لیئے ان رائج طریقوں اور مذہبی رسومات کا خاتمہ کیجئے۔
نوٹ:قلم کلب ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔