کنکریاں ۔ کاشف مرزا
پاکستان نے بھارتی کمانڈر کلبھوشن یادیو کو قونصلر رسائی دینےکا اعلان کیا ہے۔تاہم بھارتی جاسوس کلبھوشن کی فوری رہائی کا بھارتی مطالبہ مسترد کر دیا ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے کلبھوشن کے بارے میں عالمی عدالت کا فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پاکستانی عوام کے خلاف جرائم کا زمےدار ہے اورپاکستان قانون کی روشنی میں اۤگےبڑھے گا۔
عالمی عدالت ِانصاف نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کیبریت ورہاٰئی کی بھارتی درخواست مسترد کر دی تھی اورفوجی عدالت کی سزا برقرار رہے گی۔عالمی عدالتِ انصاف نے پاکستان کو ھدایت کی کہ وہ کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کے فیصلے پر نظر ثانی کرے اور اسےویانا کنونشن کی شق 36کے تحت قونصلررسائی فراہم کرے ۔یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے کہ پاکستان اور بھارت عالمی عدالتِ انصاف میں گئے ہوں۔1971 میں انڈیا نے اپنا طیارہ ہائی جیک ہونے کے بعد پاکستان کے لیے ائر سپیس بند کر دیا تھا۔پاکستان یہ کیس لے کر عالمی عدالتِ انصاف میں چلا گیا۔لیکن پاکستان کی اپیل مسترد کر دی گئی۔
پاکستان بعدازاں دوبارہ1973جب انڈیا نے 195 پاکستان فوجی قیدیوں کو بنگلہ دیش کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا توعالمی عدالتِ انصاف میں اپنا کیس لے کرگیا لیکن پاکستان نے 1973 میں دھلی معائدہ کے بعد اپنا کیس واپس لے لیا۔اسی طرح عالمی عدالتِ انصاف نے پاکستان کی ایک اور اپیل 1999 میں تب مسترد کردی جب انڈیا نے ایک پاکستانی جہاز کو لائن اۤف کنٹرول پر مارگرایا جس میں 16 مسافرشہید ہوگئے ۔البتہ یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ انڈیا پاکستان کے خلاف عالمی عدالتِ انصاف گیا۔
بھارتی حکومت نے تقریباً سوا تین سال پہلے بلوچستان سے رنگے ہاتھوں گرفتار ہونے والے اپنی خفیہ ایجنسی را کے جاسوس اور بھارتی نیوی کے حاضر سروس کمانڈر کلبھوشن یادیو کو پاکستان کی فوجی عدالت سے اپریل 2017میں سنائی جانے والی سزائے موت منسوخ نیز ملک کے مختلف حصوں خصوصاً بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور لسانی و فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کی کارروائیوں کو منظم کرنے جیسے تمام الزامات سے بری کرانے کے لئے عالمی عدالتِ انصاف سے رجوع کیا تھا جبکہ بھارتی جاسوس کے خلاف تمام الزامات کے نہ صرف ٹھوس ثبوت و شواہد موجود تھے بلکہ اُن کا مکمل اعتراف بھی اس نے کر لیا تھا۔ فی الحقیقت مودی حکومت عالمی عدالت میں حقائق کو مسخ کر کے اپنی ریاستی دہشت گردی کا وہ داغ دھونا چاہتی تھی جو کلبھوشن یادیو کے انکشافات سے اس کے چہرے پر بتمام و کمال چسپاں ہو گیا تھا۔ تاہم عالمی عدالت کے فیصلے سے واضح ہے کہ اپنی اس کوشش میں مودی حکومت بری طرح ناکام رہی۔ فیصلے میں کلبھوشن کی بریت و رہائی اور اسے بھارت کے حوالے کیے جانے کی استدعا مکمل طور پر مسترد کردی گئی ہے۔
مبارک حسین پٹیل کے نام سے اس کے پاسپورٹ پر بھارتی موقف ناقابل قبول قرار دیا گیا ہے۔ تاہم عدالت نے ویانا کنونشن کا تقاضا قرار دیا۔قونصلر رسائی اور سزائے موت کے فیصلے پر پاکستان کی سول عدالت میں نظر ثانی کے حوالے سے عالمی عدالت کے 16رکنی بنچ میں شامل پاکستان کے ایڈہاک جج جسٹس تصدق حسین جیلانی نے اپنے اختلافی نوٹ میں تحریر کیا ہے کہ ویانا کنونشن جاسوسوں پر لاگو نہیں ہوتااور بھارت مقدمے میں حقوق سے نا جائز فائدہ اّٹھانے کامرتکب ہوا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بھارتی درخواست کو قابلِ سماعت قرار نہیں دی جانی چاہیے تھی۔
کلبھوشن یادیو تسلیم کر چکا ہے کہ وہ بھارتی خفیہ ایجنسی ”را” کا ایجنٹ ہے جسے پاکستان میں دہشت گردی اور تخریب کاری کے لئے بھیجا گیا تھا ۔ جسکے بعد اسکے خلاف باضابطہ مقدمہ چلایا گیا۔ پاک فوج کے فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے ذریعے کلبھوشن یادیو کا ٹرائل ہوا اور 10 اپریل 2017ء کو جُرم ثابت ہونے پر بھارتی جاسوس کو سزائے موت سنائی گئی۔ 25 دسمبر 2017ء کو پاکستان نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کلبھوشن یادیو سے اس کی والدہ اور اہلیہ کی ملاقات بھی کروائی۔کلبھوشن کے بیانات کی بارہا تردید کرنے کے بعد 8 مئی 2017ء کو بھارت نے عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرکے کلبھوشن یادیو کی سزا پرعمل درآمد روک کراس کی رہائی کامطالبہ کیا۔ جبکہ سزائے موت کے خلاف کلبھوشن یادیو نے رحم کی اپیل بھی کی تھی۔ پاکستان کی عدالت سے سزائے موت کے فیصلے کے بعد بھارت نے کلبھوشن یادیو کی بریت کے لئے عالمی عدالت درخواست دائر کی۔
عالمی عدالت انصاف کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ اصل قضیہ کو دیکھا جائے اور اسکو کس طرح حل کرنا ہے وہ اہم ہوتا ہے۔ انہوں نے کسی کو سزا تو دینا ہوتی نہیں کہ پاکستان یا بھارت کو قید بامشقت نہیں ہوئی یا ہوگئی تو کیس جیت لیا گیا یا ہار دیا گیا۔ دوسرا اس سطح پر کوئی ڈرامائی فیصلہ نہیں دیا جاتا کیونکہ دو خودمختار ریاستوں کا معاملہ ہوتا ہے جن پرعدالت بزور کسی بات کا اطلاق نہیں کر سکتی۔ اس لیے فیصلے کو تکنیکی اور حقیقت پسندانہ رکھا جاتا ہے تاکہ اس پر عمل درآمد ہو سکے۔
تیسرا یہ کہ بڑے ملک کے خلاف فیصلہ کرنا ، خاص طور سے قطعی حیثیت میں ، یہ خال ہی ممکن ہوتا ہے۔ جب بھارت اس مسئلہ کا اس فورم پر لے گیا ماہرین کو تبھی اندازہ تھا کہ اسے خالی ہاتھ نہیں لوٹایا جائے گا۔اس طرح مدعی عدالت سے انتہائی نوعیت کا ریلیف مانگتا ہے تاکہ اسے کم از کم وہ حقیقی ریلیف مل جائے جو اس کی فوری ضرورت ہے۔ اسی لیے بھارت نے کلبھوشن یادیو کی رہائی کی بات کی۔
بھارت اور پاکستانی میڈیا کی چیخ و پکار سے پریشان کئی لوگ پوچھ رہے کہ فیصلے کا مطلب کیا ہوا؟ کون جیتا؟کون ہارا؟جو لوگ قانونی پیچیدگیوں میں پڑے بغیراس فیصلے کو سمجھنا کےلیے چند نکات ہیں۔ پاکستان کا موقف تھا کہ عدالت کے پاس اختیارِ سماعت نہیں ہے۔ عدالت نے یہ موقف مسترد کردیا۔ بھارت کا مطالبہ یہ تھا کہ عدالت کلبھوشن کو رہا کرنے کا حکم دے۔ عدالت نے یہ مطالبہ مسترد کردیا۔ بھارت کا دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ عدالت قرار دے کہ کلبھوشن کو قونصلر رسائی نہ دے کر پاکستان نے ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کی ہے۔
عدالت نے یہ مطالبہ تسلیم کرلیا۔ بھارت کا تیسرا مطالبہ یہ تھا کہ عدالت قرار دے کہ قونصلر رسائی نے دینے کی بنا پر کبھوشن کو دی گئی سزا کو ختم کردے۔ عدالت نے یہ مطالبہ مسترد کردیا اور یہ بہت اہم پوائنٹ ہے۔ پاکستان کا موقف تھا کہ کلبھوشن کے پاس رحم کی اپیل کا راستہ بھی موجود ہے اور ہائی کورٹ و سپریم کورٹ کے فورمز بھی دستیاب ہیں۔ عدالت نے اسے ناکافی قرار دیا اور قرار دیا کہ کلبھوشن کو قونصلر رسائی دے اور اس کے بعد اس فیصلے پر مناسب نظر ثانی کرے۔ بھارت لیکن اس سے وہ کوئی خاص فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ یہ نظرثانی کیسے کی جائے؟ اس کے لیے عدالت نے کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں کیا بلکہ معاملہ پاکستان پر چھوڑ دیا۔ اس پوائنٹ نے توازن کو مکمل پاکستان کے حق میں کردیا نتیجہ کیا ہوا؟
کلبھوشن بدستور پاکستان کے پاس رہے گا بھارت کو قونصلقانون کے مطابق عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کی پابندی لازم نہیں لیکن اسکے مقابلے میں یہ رائے زیادہ صائب معلوم ہوتی ہے کہ اسے قبول کیا جائے اور سول عدالت کی نظر ثانی کے بعد جو بھی فیصلہ ہو اس پر عمل درآمد کرکے ثابت کیا جائے کہ پاکستان انصاف کے تقاضوں کو آخری حد تک ملحوظ رکھنے اور بین الاقوامی اداروں کے فیصلوں کا احترام کرنے والا ملک ہے ۔ر کو کلبھوشن تک رسائی دی جائے گی۔ فیصلے پر نظرثانی کی جائے گی جس کا لازمی مطلب یہ نہیں کہ کیس نئے سرے سے شروع سے سنا جائے تاہم اگر نئے سرے سے شروع سے بھی سنا جائے تو کلبھوشن کے خلاف دستیاب شواہد کی بنا پر مجھے امید نہیں کہ قونصلر رسائی اور نظرثانی کے بعد فیصلہ تبدیل ہوسکے۔
کلبھوشن کو رہا نہ کرنے اور پاکستان کی تحویل میں رکھےجانے کا فیصلہ پاکستان کے موقف کی واضح جیت ہے جبکہ فوجی عدالت کے فیصلے پر سول عدالت میں نظرثانی کے حق پر ہمارا موقف شروع سے یہ ہے کہ ملزم کو اس کا حق حاصل ہے اور عالمی عدالت نے بھی یہی بات کہی ہے۔ لہٰذا نظرثانی اور ازسر نو غور کے حوالے سے کارروائی میں قانون کی عدالت ویانا کنونشن کی شقوں کو پوری طرح مدنظر رکھے گی اور ہمیں عدالت کے فیصلے کا انتظار کرنا ہوگا۔
بھارت کو ہر محاذ پر شکست فاش ہوگی، چاہے وہ پاکستان کے سرحدی علاقوں کی خلاف ورزی ہو یا کلبھوشن یادیو کی صورت میں گرفتار ہونے والے جاسوس کی ہو، بھارتی فنڈ سے چلنے والی پی ٹی ایم ہو یا پاکستان مخالف پرا پیگنڈا ہو ہر جگہ پاکستان کے بیٹے موجود ہیں اور پاکستان کا دفاع کرتے رہیں گے، یورپ اور دیگر ممالک میں بھارت پاکستان کے خلاف گندا کھیل کھیل رہا ہے کلبھوشن یادیوکے عالمی عدالت کے فیصلہ کے بعد بھارت کا چہرہ کھل کر دنیا کے سامنے آ گیا ہے کہ بھارت دنیا میں دہشت گردی اور دنیا کے امن کو خراب کر رہا ہے۔ اب دنیا کو بھارتی چالبازیوں کا نوٹس لینا چاہیئے اور کشمیر میں جاری ظلم وستم پر بھی کشمیریوں کا ساتھ دینا چاہیئے اور انہیں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق رہنے کا حق دیا جائے ۔
کلبھوشن کے معاملے میں حکومت پاکستان کی طرف سے عالمی برادری پر یہ حقیقت بھی پوری طرح واضح کی جانی چاہئے کہ وہ محض جاسوس نہیں بلکہ اپنی حکومت کی پالیسیوں کے تحت پڑوسی ملک میں بدامنی و خوں ریزی کو ہوا دینے والا ایک بڑا دہشت گرد بھی ہے جس کی کارروائیوں سے واضح ہے کہ اس کا ملک خطے میں دہشت گردی کی بھرپور سرپرستی کر رہا ہے۔ بھارت پوری دنیا میں پاکستان کو دہشت گردی کا سرپرست قرار دینے کے لئے کوشاں رہتا ہے، ممبئی، پٹھان کوٹ اور پلوامہ وغیرہ سمیت دہشت گردی کی ہر کارروائی کا الزام اس کی جانب سے کسی تحقیق اور ثبوت کے بغیر پاکستان پر عائد کردیا جاتا ہے اور عالمی برادری بالعموم اپنے معاشی مفادات کی خاطر اس کے ساتھ دیتی ہے لیکن کلبھوشن کے انکشافات، کشمیر میں عشروں سے جاری بہیمانہ مظالم اور سمجھوتہ ایکسپریس کو نذر آتش کرنے جیسی کارروائیوں کے ذمہ داروں کی پشت پناہی سے یہ حقیقت بالکل عیاں ہے کہ بھارت کے غیر ریاستی عناصر نہیں بلکہ خود بھارتی حکومت ریاستی دہشت گردی میں ملوث ہے۔ لہٰذا عالمی برادری کو حقائق کی روشنی میں اپنے طرزِ فکر کی اصلاح کرنی چاہئے اور بھارت کو جنوبی ایشیا میں کشیدگی اور بدامنی پھیلا نے کی کوششوں سے باز رکھنے میں اپنا کردار مؤثر طور پر ادا کرنا چاہئے۔