اسلام و علیکم
میرا نام صفدر سجاد ھے
میں محکمہ پولیس میں سب انسپکٹر ھوں
تقریبأ 16/17 تھانوں میں بطور SHO کام کر چکا ھوں
میرے ریکارڈ میں 43 گڈ انٹریز اور 17 بیڈ انٹریز ہیں
اپنی سروس کے دوران بے شمار بلائنڈ مرڈرز ٹریس کرنے اور خطرناک ڈکیتوں کو پکڑنے سمیت ھیڈ منی کے ملزماں بھی پکڑ چکا ھوں
میں اج کل معطل ھوں
میں بے قصور ھوں
مجھے ذیادتی اور انتقامی کاروائی کا نشانہ بنایا گیا ھے
اگر میں قصور وار تھا تو میں نے انکوائری کے پہلے ھی دن اپنے افسران کو کیوں اپنی صفائی دی جو بلکل Consider نہیں کیگئی
جھوٹا ھوتا تو میں معاملے کو Hide کرتا
ہم سب پولیس والے کتنے پرچے اپنے متعلقہ علاقہ سے اور کتنے اپنے علاقہ سے باہر سے جرائم پیشہ لوگوں کو پکر کر دیتے ہیں اعلی افسران کو سب معلوم ھے
اور میرے علاقہ ہربنس پورہ میں سپیشل برانچ کی جاری کردہ فہرستوں میں چار جواری اور چار منشیات فروشوں کے نام تھے
اور میں نے اپنی پوسٹنگ کے75 دنوں میں 25 کے قریب 9C کے پرچے دیے
اگر میرا دیا ھوا پرچہ جھوٹا تھا تو پہلے ہی دن کیوں ڈسچارج نہ کیا گیا ملزم کی گرفتاری التواء میں کیوں نہ رکھی گئی اسے جیل کیوں بھیجا گیا اور کیا پیشی کے وقت مال مقد مہ عدالت میں پیش کیا گیا یا نہیں (کیا گیا)
ڈیڑھ ماہ بعد ہی تفتیشی افسر اور دیگر افسران کو کیوں یاد أیا کہ پرچہ جھوٹا تھا؟کیوں کہ تمام چیزوں کو باقاعدہ مینیج کیا گیا
سب کچھ اچانک کیوں کیا گیا؟
کیا جن لوگوں کے بیانات زیر حراست پولیس لیے گۓ وہ ازادانہ بیانات بھی یہی دیں گے اور کیا قانون پولیس حراست میں لیے گئے بیانات کو مانتا ھے ؟ نہیں مانتا
کیوں صرف مجھے اور میرے ایک جوان کو قصوروار بنا کر معطل کیا گیا
ملزم غلام محی الدین اگر بے گناہ تھا تو کیا ڈیڑھ ماہ کیلۓ جیل بھیجنا متعلقہ تفتیشی کا قصور نہیں ھے اسکے حوالے سے انکھیں کیوں بند رکھی گئیں
اگر جھوٹا پرچہ دینا SHO کا قصور تھا تو جھوٹا پرچہ دینے سے انکار کرنا بھی متعلقہ سب انسپکٹر کے فرائض منصبی میں شامل تھا اسے کیوں نہ پوچھا گیا
اگر غلام محی الدیں بے قصور تھا تو اسے جیل بھیجنے والا تفتیشی بھی اتنا ھی قصوروار بنتا ہے جس نے ناقص تفتیش کی جتنا SHO یعنی مجھے قصوروار بنایا گیا
سر یہ میرے خلاف منظم سازش بنائی گئی تھی
بیس لاکھ روپے انسپکٹر مظہر اقبال لے چکا ھے نصیر جٹ اور فریاد سے ان کو کیوں نہ پکڑا گیا جو مدمہ میں ملزم بھی ھین اور میرے خلاف گواہ بھی بنا لیے گئے جسکی قانون میں کوئی گنجائش نہ ھے
سمجھ سے بالا تر ھے کہ دوران انکوائری کسی بھی موڑ پر مجھے أمنے سامنے گفتگو کیلیے نہیں بلایا گیا
میرے خلاف کوئی Evidence نہیں ھے سر
رہی بات کہ ملزم کا نام لسٹوں میں نہیں ھے یا اسکا کوئی سابقہ ریکارڈ نہیں ھے
تو عرض ھے کہ
یہ شخص منشیات فروش ھی ھے
اور ہم با ضمیر پولیس والے بہت سے ایسے لوگوں کو جیل بھیجتے ہیں جنکا کوئی ریکارڈ نہیں ھوتا اور نہ ہی وہ لسٹڈ ھوتے ھیں تمام ریکارڈ چیک کیے جا سکتے ہیں تو پھر غلام محی الدین کے معاملے میں تضاد کیوں؟
چند سال قبل یہی شخص اسلحہ فروشی کے جرم میں CIA غازی أباد والوں نے پکڑا اور Manage کر کے چھوڑ دیا تھا خفیہ چیک کرا سکتے ہیں
میرا کسی کے پیسوں اور پراپرٹی سے کوئی تعلق نہیں
اور کوئی ازاد شہادت میرے خلاف نہ ھے
اگر ایسا تھا تو باقی ملزمان کو ایسے ھی گرفتار کیوں نہ کیا گیا جیسے مجھے کیا گیا
اتنی کونسی سپیشل بات اس انکوائری میں تھی کہ SSP/Inv لاہور By Hand لیکر جناب CCPO صاحب کے پاس گئے
سر
میں ایک بہادر نڈر کرائم فائٹر پولیس افیسر ھوں
میرے خلاف کوئی شہادت نہیں ہے
اگر میں نے اپنے پاس سے 9C کا پرچہ دیا ھوتا تو میں اسی دن جیل سے واپس نہ أتا
اگر میں نے کرپشن کرنی ھوتی نہ میں درجنوں کے حساب سے موٹر سائیکلوں اور ڈاکؤوں کے کینگ پکڑتا اور نہ ھی سینکڑوں کے حساب سے منشیات فروشوں کو جیل میں بھجواتا اور نہ ہی چار پولیس مقابلے کرنے کی مجھے ضرورت تھی
جتنے پیسوں کا الزام مجھ پہ لگایا گیا ھے نا میں روز کما سکتا تھا لیکن میں پرفیشنل پولیس افیسر ھوں
دوران پوسٹنگ کوئی قبضہ نھیں ھونے دیا
یہاں تک کہ صرف ایک FIR زیر دفعہ 448/511 درج کی وہ بھی میری پوسٹنگ سے ڈیڑھ ماہ پہلے کا وقوعہ تھا اور DIG صاحب اپریشنز کے حکم پر بعد تصدیق وقوعہ درج کی
قبضہ گروپوں کو ڈنڈا دیا اور حقداروں کو انکے حق دلاۓ
اور 27/07/2022 کو شبیر طور کو بھی CIA پولیس نے بھاری رشوت لیکر چھوڑ دیا جس کو میرے خلاف گواہ بنایا اور ایسا گواہ جو خود اقبال جرم کر چکا تھا پھر بھی اسے چھوڑ دیا نہ اسے عدالت میں پیش کروایا نہ چیل بھیجا
بلکہ وہ اب عبوری ضمانت پر ھے جس سے تشدد کر کے مرضی کے بیان میرے خلاف دلواۓ گئے
اور قابل غور بات یہ ملزم CIA کے اس بدنام زمانہ انسپکٹر کی حراست میں تھا چسکا نام محمد علی بٹ ھے جو جناب چوہدری پرویز الہی صاحب کے خلاف بکواس کرتا رھا ھے
سر یہ ھے میری اصل اپ بیتی
اس تمام کے پیچھے محرکات اپ مجھ سے بہتر سمجھتے ہیں