تحریر:عزیز اللہ خان
کُچھ دن قبل راولپنڈی پولیس کے ایک سینیر آفیسر نے اپنی سلطنت میں حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے اعلان کیا کہ محکمہ پولیس میں اب دربار کا نام اجلاس ہوگا ،اردل روم کو میٹنگ کہا جائے گا کوئی چھوٹا ملازم کسی بڑے آفسر کا دروازہ نہیں کھولے گا یہ حکم نامہ دیکھ کر دل کو کُچھ اطمنان ہوا کہ شاید ان پتھر دل psp کلاس کو کُچھ خیال آگیا ہےفیس بک کے مختلف پولیس گروپس میں واہ واہ ہو گئی کہ سب افسران ان جیسے کیوں نہیں بن سکتے ؟
دو دن قبل مجھے راولپنڈی کے ایک مظلوم پولیس ملازم کی کال آئی کہ یہ حُکم نامہ غلط تھا صاحب موصوف نے صرف سستی شہُرت کے لئیے یہ چھٹی لکھی تھی عملاً کُچھ بھی نہیں ہوا جس کا ثبوت آج کا اردل روم ہے جس میں چھوٹے ملازمین کی چیخیں سُنائی دے رہی ہیں
اسی آفسر کے شاہی حُکم پر راولپنڈی پولیس لائن کے ملازمین کی تین بیرکس خالی کروا کر اُن کا سامان کھُلے آسمان کے نیچے پھینک دیا گیا ہے معلوم ہوا ہے کہ بادشاہ سلامت کو اپنا دفتر اب پولیس لائین کی انہیں بیرکس کو گرا کر بنوانا ہے
ایک طرف تو حکومت اخراجات کم کرنے کے احکامات جاری کرتی ہے مگر اس psp کلاس کی عیاشیاں ختم ہی نہیں ہوتیں ہر نیا آنے والا افسر اپنے دفتر کی تزیین و آرایش پر لاکھوں روپے خرچ کرتا ہے۔اب چھوٹے ملازمین کی کیا اوقات ہے کہ ان بادشاہوں اور شہزادوں کی حُکم کے سامنے بول سکیں دفتر تو بن کہ ہی رہے گا ملازمین کے لئیے ٹینٹ لگوا دیے جائیں گے
پھر میں نے ایک ASP صاحبہ کا انٹرویو دیکھا موصوفہ کے خاوند بھی Asp ہیں Asp صاحبہ اپنی گود میں بچہ اُٹھائے اپنے دفتر میں انٹرویو دے رہی تھیں اور مزےلے کر اپنے خاوند سے باتھ روم دھلوانے کا قصہ سُنا رہی تھیں۔انہیں کی دیکھا دیکھی ایک لیڈی وارڈن بھی اپنا بچہ لے کر دفتر آگئیں پھر کیا تھا اُس کی خوب عزت افزائی کر کے گھر بھجوایا گیا کہ تمہاری یہ مجال ایک psp خاتون آفسر کی طرح اپنا بچہ دفتر میں لے کر آو
"ہمارا بچہ شہزادہ اور تمہارا بچہ غلام”
ایسا آخر کیوں ہے ایک محکمہ ایک یونیفارم تو تفریق کیوں ؟عہدہ بڑا یا چھوٹا ہونے سے اللہ کے بنائے ہوئے انسان کی تذلیل کیوں ؟ ضرورتیں تو سب کی ایک جیسی ہیںپنجاب پولیس کی یونیفارم میاں منشا کی منشا پر تبدیل کر دی گئی سابقہ آئی جی کو اُن کی سیاسی خدمات کے بدلے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی بڑا عہدہ مل گیا مگر ملازمیں آج بھی سردیوں میں جیکٹس کو ترس رہے ہیں سرکاری بوٹ بھی نہیں ملے ،پُرانی کیپ پہننے کا حُکم ہو گیا olive green رنگ کا یہ کپڑا نہ سردی سے بچاتا ہے اور نہ گرمی سے محفوظ رکھتا ہے کروڑوں روپے کی کرپشن ہوئی مگر کوئی انکوائری نہیں ہوئی اللہ جانے کون سی فورس ہے یہ جس کی یونیفارم بھی آپس میں نہیں ملتی ؟
نئے آئی جی کے CPO آنے کے موقعہ پر ایک ویڈیو نظر سے گزری جس میں استقبال کرنے والے psp سینیر آفسران بھی ایک جیسی یونیفارم میں نہیں تھےکسی آفسر نے شرٹ اندر کی ہوئی ہے کسی نے باہر- آئی جی نے جرسی پہنی ہوئی تھی بُہت نے نہیں پہنی ہوئی تھی غرض پولیس فورس کم اور بھان متی کا کُنبہ زیادہ لگ رہا تھا
میری ان افسران سے گزارش ہے مت کریں ایسا اب وہ دور ختم ہو گیا ہے اب پڑھے لکھے نوجوان اس محکمہ میں آگئے ہیں سوشل میڈیا اور میڈیا کا دور ہے اب آپ کو اپنی روش بدلنی پڑے گی اپنی عیاشیاں ختم کر کے ملازمین کا پیسہ ملازمین کی ویلفیر پر خرچ کریں اپنے عالیشان دفتر بنوانے کی بجائے ملازمین کی رہایش گاہیں بنوائیں اپنے گرم دفتر میں بیٹھ کر اُن ملازمین کا بھی خیال کریں جو شدید سردی میں راتوں کو ڈیوٹی کرتے ہیں کبھی ایک رات ان کے ساتھ ان حالات میں ڈیوٹی کر کے دیکھیں
اپنی بادشاہت کے خول سے اب باہر نکلیں۔۔۔۔
نوٹ:قلم کلب ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ newsdesk@qalamclub.com پر ای میل کیجیے۔