دمشق: شام میں بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد پہلی عبوری پارلیمنٹ کے انتخابات مکمل ہو گئے ہیں، تاہم اس عمل کو شفافیت کے لحاظ سے تنقید کا سامنا ہے کیونکہ عبوری رہنما احمد الشرع نے براہِ راست 70 ارکان خود نامزد کیے ہیں۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق یہ انتخابات ایسے وقت میں ہوئے جب گزشتہ سال دسمبر میں 13 سالہ خانہ جنگی کے بعد بشارالاسد کی حکومت ختم کی گئی۔ نئی اسمبلی 210 نشستوں پر مشتمل ہوگی، جن میں سے 140 کا انتخاب مقامی کمیٹیوں نے کیا جبکہ 70 ارکان کا تقرر براہِ راست احمد الشرع نے کیا ہے۔
انتخابی عمل میں 1500 سے زائد امیدوار میدان میں آئے، جن میں خواتین کی شرح صرف 14 فیصد رہی۔ تاہم دروز اکثریتی صوبہ السویدا اور کردوں کے زیرِ انتظام شمال مشرقی علاقہ انتخابی عمل سے باہر رہا، جس کے باعث 32 نشستیں خالی رہ گئیں۔
احمد الشرع کا کہنا ہے کہ ملک میں براہِ راست انتخابات اس وقت ممکن نہیں کیونکہ لاکھوں شہری خانہ جنگی کے باعث بے گھر یا بیرون ملک مقیم ہیں اور ان کے پاس ضروری دستاویزات نہیں۔
عبوری پارلیمنٹ کو 30 ماہ کے لیے قانون سازی کے اختیارات حاصل ہوں گے، جس کے بعد مستقل آئین کی منظوری کے بعد نئے انتخابات کرائے جائیں گے۔
دوسری جانب انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس عمل پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ انتخابات عبوری قیادت کو مزید مضبوط بنانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں اور ملک کی نسلی و مذہبی اقلیتوں کی نمائندگی محدود کر دیتے ہیں۔









