تحریر : ہارون ملک
وُہ کیا کہتے ہیں ؛
Vini, Vidi, Vici,
جولیس سیزر سے منسوب یہ ایک مشہور لاطینی جُملہ ہے کہ “ میں آیا ، میں نے دیکھا اور میں نے فتح کر لِیا ۔ “ اِنڈین کرکٹ ٹِیم نے آدھا ٹورنامنٹ تو تب ہی جِیت لِیا تھا جب اُنھوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ اور آئی سی سی کو منوایا کہ وُہ ایک نیوٹرل وینیو پر اپنے میچز کھیلیں گے اور اگر سیمی فائنلز یا فائنل بھی اُنھوں نے کھیلا تو یہیں کھیلیں گے ۔ وُہ یہیں دُبئی میں “ سٹیٹک این سٹیشنڈ “ رہیں گے جبکہ دیگر ٹِیمز اُن کے ساتھ کھیلنے کے لیے ہزاروں کلومیٹرز کی مسافت طے کر کے آئیں گے ۔ وُہ پچ کنڈیشنز کا فائدہ سو کالڈ ہوسٹ پاکستان سے بہتر اُٹھائیں گے اور وُہی پاکستان اپنے ہی مُلک میں ہونے والی عشروں بعد آئی سی سی ٹرافی کے پہلے ہی مرحلے میں باہر ہو جائے گا ؛ دوہزار سترہ کی وِنر ٹِیم بُرے طریقے سے باہر ہوگئی ۔
رہ گئی اِنڈین کرکٹ ٹِیم کی کہانی تو وُہ اب آسٹریلیا وغیرہ کے لیول کی کرکٹ کھیلتے ہیں اور کُچھ کمی بیشی ہے بھی تو اُن کا رویہ کرکٹ کو لے کر بُہت جارحانہ ، دلیرانہ لیکن میتھیڈیکل اور کیلکولیٹیڈ ہوتا ہے ۔ آپ کبھی سوچ سکتے ہیں کہ اِنڈین کرکٹ ٹِیم سمیت دُنیا کی کِسی کرکٹ ٹِیم کا کِھلاڑی امام الحق کی طرح پوڈ کاسٹ پر بیان دے کہ جب وُہ کِسی سیریز کے دوران ہوٹل رُومز میں ٹھہرتے ہیں تو چوہدری ملک محمد رِضوان خان راجپوت آرائیں بٹ صاحب کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وُہ سفید چادریں بچھائیں ، غیر مسلمز کو اندر آنے سے روکیں اور نماز کا بندوبست کریں ۔ سیرئیسلی ؟
دُنیا کا کون سا بندہ ہوگا جو کِسی بھی اِنسان کو اُس کے مذہب یا عِبادات سے روکے گا لیکن ایک مذہب کے پیروکار ہونے کے ساتھ ساتھ یہ کِھلاڑی اپنے مُلک کے اُس کھیل کے نمائندے ہوتے ہیں ، جِس کھیل کی بدولت اِن کو پیسے مِلتے ہیں ، عِزت ، شہرت اور مُحبت بھی ۔ اِنھیں ایسے چائلڈش رویوں اور ڈریسنگ رُومز کی باتوں کو یُوں باہر لا کر اپنا مذاق نہیں بنوانا چاہئیے لیکن وُہی بات کہ یہ امیچور ہوتے ہیں اور پھر اپنی ناکامیوں اور کمزوریوں کو چھپانے کے لیے مذہب کے پیچھے چُھپتے ہیں ۔
نیوزی لینڈ سے آج اچھی بیٹنگ کی توقع تھی لیکن رویندرا اور ینگ کے غیر ضروری ایگریشن اور جلد بازی نے شروع میں پچاس پلس رَنز تو جلدی بنوا دیے لیکن اُوپر تلے وِکٹس جو ورون چکرا وردھی ، کُلدیپ اور جدیجہ نے نکالیں اُن کی بدولت نیوزی لینڈ مقررہ اوورز میں محض دو سو باون رنز کا ہی ٹارگٹ دے سکی جواب میں سو پلس کی اوپننگ جوڑی نے میچ کو مزید آسان کر دیا ؛ گو گلین فلپس کی عُمدہ کیچنگ نے گِل کو چلتا کِیا اور وہیں بریسویل نے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہُوئے ورات کوہلی کو روانہ کِیا لیکن روہت شرما تہتر پر سیٹ کھیل رہے تھے اور شریاس بھی کریز پر ایزی تھے ۔ جیت کے لیے ستائیس اوورز میں محض ایک سو چونتیس مزید رنز درکار تھے ۔ جلد ہی روہت شرما رویندرا کے ہاتھوں سٹمپ آؤٹ ہو گئے اور میچ ذرا دِلچسپ ہوتا نظر آیا ۔ شریاس کا ڈراپ کیچ آرگیوبلی میچ کا اہم مومینٹ تھا جبکہ اِس سے پہلے ڈیرل مچل نے بھی اولین اوورز میں ایک کیچ ڈراپ کِیا تھا ۔ یہ دونوں کیچ پوٹینشلی میچ وِننگ ہونے تھے ۔ شریاس ڈراپ کیچ کے بعد دو تین رنز کے اضافے پر کیچ آؤٹ ہوگیا ۔ اِنڈین بیٹنگ آرڈر کافی لمبا اور سٹرانگ ہے ۔ نیوزی لینڈ نے رنز اگر پچیس تیس بھی اور بنائے ہوتے تو میچ مزید دلچسپ ہو سکتا تھا ۔ اکشر پٹیل بھی ایک شاٹ انتیس پر آؤٹ ہُوئے جب جیت ابھی اُنچاس رنز دُور تھی ۔ ہاردیک جب پُل کرتے ریٹرن کیچ دے بیٹھے تو میچ تقریباً ختم ہو چُکا تھا ۔
بہرحال اِنڈیا نے انچاس اوورز میں چھ وِکٹس ڈاؤن پر یہ سکورز پُورے کیے اور چیمپئین ٹرافی دو ہزار پچیس کے وِنر بنے ۔ نیوزی لینڈ نے ایک ایک رَن کے لیے اپنی پُوری جان لڑائی ۔
اِس پُورے ٹورنامنٹ میں ہمارے لیے سیکھنے کو کیا تھا ؟
آنیسٹلی کُچھ بھی نہیں کیونکہ ہماری ٹِیم سیلیکشن ، ہمارے کھلاڑی ، ہمارے آفیشلز سمیت کوئی بھی نہ سیکھنا چاہتا ہے ، نہ اپنے انداز بہتر کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی کھیل کے ساتھ کوئی ہمدردی یا دلچسپی ہے ۔ سُنا ہے ثقلین مشتاق اب ہیڈ کوچ بن رہے ہیں ؛ اگر ہاں تو کوئی اور کھیلے نہ کھیلے “ بچہ شاداب “ تو لازمی کھیلے گا اور شاداب کھیلے گا تو پھر روٹی ٹُکر گینگ پھر آن موجود ہوگا اور یُوں سب ایک بار پھر شاداب کی بدولت شاداب رہیں گے ۔
پاکستان کرکٹ کو ایک میجر سرجری کی ضرورت ہے لیکن ڈاکٹرز خود اپنے ڈنگ ٹپانے کے ساتھ ساتھ اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف ہیں ، اپنے خوشامدیوں اور تعلق واسطے کے کھلاڑیوں کو نوازنے کا سلسلہ جاری ہے ۔
خُدا کی یہی رضا ہوگی جناب ۔
ویل ڈن اِنڈیا اور جیت کے لیے بُہت بُہت مبارک ہو ۔ نیوزی لینڈ نے اپنے رنز کا دفاع بہت محنت سے کیا لیکن ظاہر ہے دو سو باون رنز کا ٹارگٹ انڈیا کے بیٹرز کے لیے کافی نہیں تھا ۔
نوٹ: لکھاریوں کےذاتی خیالات سے”قلم کلب”کامتفق ہوناضروری نہیں ہے۔