تحریر : ہراکلیٹس ہراک
پاکستان میں ہمیشہ سے قومی سلامتی کو اولین حیثیت حاصل رہی ہے، اور ہونا بھی چاہیے۔ آخر ملک سلامت رہے گا، تو باقی معاملات بھی چلیں گے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم اکثر سکیورٹی کو ایک ایسا بکتربند لباس سمجھ بیٹھتے ہیں جس میں کسی بھی قسم کی تنقید کا وار نہیں چل سکتا۔ حالانکہ، اگر کپڑا کمزور ہو تو اسے رفو کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کہ یہ کہ رفوگر پر ہی غداری کا لیبل چسپاں کر دیا جائے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں آزادیٔ اظہار پر کچھ قدغنیں ہیں، اور کھل کر بولنا بعض اوقات جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ لیکن جتنی گنجائش ہے، اس میں بات کی جائے تو شاید یہی بہت بڑی کامیابی ہو۔ مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اظہارِ رائے کے نام پر ایسی تنقید کی جائے جو ریاستی ڈھانچے کو ہی ہلا کر رکھ دے۔ تنقید ضرور کریں، لیکن ایسا نہ ہو کہ اصلاح کی بجائے مزید خرابی پیدا ہو۔
اب بات ہو جائے اس تلخ حقیقت کی جسے سب جانتے ہیں مگر مانتے نہیں—یہ کہ کچھ صوبوں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ ہاں، یہ بھی ایک حقیقت ہے۔ سب اچھا ہے کے راگ الاپنے سے سب اچھا نہیں ہو جاتا۔ اگر بلوچستان کے مسائل پر بات ہو، تو جواب آتا ہے کہ “ملک دشمن عناصر فائدہ اٹھائیں گے۔” اگر خیبر پختونخوا کی محرومیوں پر سوال ہو، تو کہا جاتا ہے کہ “ملک نازک دور سے گزر رہا ہے۔” اور اگر سندھ کے حقوق کی بات کی جائے، تو سننے کو ملتا ہے کہ “یہ سیاست ہو رہی ہے۔” گویا جو بھی مسئلہ اٹھائے، وہ یا تو ملک دشمن ہے، یا سیاست چمکا رہا ہے، یا پھر اسے حالات کی سنگینی کا ادراک ہی نہیں۔
یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا بھر میں مختلف قومیتیں اور زبانیں ایک ساتھ رہتی ہیں، اور یہی حقیقت پاکستان کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ بھارت، روس اور امریکہ جیسے ممالک میں بھی متنوع نسلی گروہ بستے ہیں، مگر ان کی قومی وحدت برقرار رہتی ہے۔ اگر ہر قوم یا زبان کی بنیاد پر علیحدگی کا اصول مان لیا جائے تو ہر چند کلومیٹر پر ایک نیا ملک بن جائے گا، اور دنیا کا نقشہ ہر چند سال میں بدلتا رہے گا۔ یہ نہ تو عملی ہے اور نہ ہی منطقی۔
ہمارے ریاستی اداروں کو تنقید سے اتنی بھی گھبراہٹ نہیں ہونی چاہیے کہ ہر سوال کرنے والے کو ملک دشمن قرار دے دیا جائے۔ اور عوام کو بھی اتنی آزادی ہونی چاہیے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھا سکیں، لیکن اس حد تک کہ وہ آزادی، انارکی میں تبدیل نہ ہو جائے۔ قومی وحدت اور استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیں اپنی تنقید کو معیاری، تعمیری اور تھوڑا سا مزاحیہ بھی رکھنا ہوگا، کیونکہ بعض اوقات ایک چٹکی بھر طنز وہ کام کر جاتا ہے جو لمبے چوڑے بیانیے نہیں کر سکتے۔
نوٹ: لکھاریوں کےذاتی خیالات سے”قلم کلب”کامتفق ہوناضروری نہیں ہے۔