تحریر: کاشف جاوید
عید کے دن ہیں یعنی خوشیوں کے دن کم از کم ان لوگوں کے لیے جو خوش ہونا افورڈ کر سکتے ہیں باقی لوگ جو بینک بیلنس کی بجائے دعاؤں کے بل بوتے پر زندگی گزارتے ہیں وہ بھی کوشش کرتے ہیں کہ خوشیوں میں شریک ہو سکیں مگر یہ کوشش ایسی ہی ہے جیسے کسی پبلک بس میں سیٹ کے لیے دھکم پیل جو جیت گیا وہ بیٹھ گیا باقی کھڑے رہیں اور جھولتے رہیں
عید کی صبح وہی روایتی منظر نامہ نمازی عید گاہ میں جا رہے ہیں سوشل میڈیا پر ایک جیسے کاپی پیسٹ عید مبارک کے پیغامات چل رہے ہیں اور بازاروں میں آخری وقت پر شاپنگ کے مارے لوگ اپنی غربت اور مہنگائی کی شکست خوردہ مسکراہٹ کے ساتھ گھوم رہے ہیں لیکن ذرا غور کریں یہ سب لوگ خوش کیوں نظر آ رہے ہیں کیونکہ عید کا مزاج ہی ایسا ہے جیسے ایک سستا hypnotic effect جو وقتی طور پر غم بھلا دیتا ہے بالکل ویسے جیسے "سیل” کا بورڈ دیکھ کر خواتین اپنی اداسی بھول جاتی ہیں
اب کچھ طبقاتی تفاوت کی بات ہو جائے بچپن میں ہمیں سکھایا گیا تھا کہ عید سب کی ہوتی ہے لیکن بڑے ہو کر احساس ہوا کہ یہ نیکی بھی بینک اکاؤنٹ سے مشروط ہے بڑے گھروں میں عید کے دن صبح ناشتے میں شاہی دسترخوان بچھتا ہے جہاں ناشتے میں پانچ اقسام کی میٹھائیاں نان خطائی حلیم نہاری اور اللہ جانے کیا کیا دوسری طرف چھوٹے گھروں میں جہاں چائے کے ساتھ سوکھی روٹی کو بھی ناشتے کا درجہ مل جاتا ہے وہاں عید بس اتنی ہوتی ہے کہ آج کھانے میں کچھ خاص ہوگا
عید پر بھکاریوں کی بھی چاندی ہوتی ہے آپ نے غور کیا ہوگا کہ عید کے دن فقیر کچھ زیادہ ہی عاجزانہ اور شاعرانہ انداز میں مانگ رہے ہوتے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں
"صاحب آپ کی دی ہوئی عیدی میرے بچوں کی خوشی بنے گی کچھ عطا کریں”اور صاحب اپنی شرافت اور نیکی دکھانے کے لیے نوٹ نکالتے ہیں اور کچھ پیسے اس جھولی میں ڈال دیتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے کسی ریسٹورنٹ میں ویٹر کو ٹپ دی جاتی ہے اور ہاں عید کے دن مخیر حضرات اپنی سخاوت کے ڈھول بھی پیٹتے ہیں اخبارات میں اشتہارات چھپواتے ہیں "آج ہم نے اتنے ہزار مستحقین میں راشن بانٹا” گویا خیرات نہیں کوئی مارشل آرٹ کی مشق کی ہو
عید کے خطبوں میں بھی عجب کمال ہوتا ہے مولانا صاحب انسانیت محبت اخوت اور بھائی چارے پر ایسے جوشیلے وعظ دیتے ہیں جیسے عید کے دن سب کا ضمیر جاگنے کا وقت ہو مگر خطبہ ختم ہوتے ہی سب حضرات اپنے اپنے گریڈ کے مطابق گاڑیوں میں بیٹھ کر نکل جاتے ہیں کوئی مرسیڈیز میں کوئی ہونڈا میں اور کچھ موٹر سائیکل پر پٹرول کی آخری بچت کے ساتھ یہ سب خیرات فطرانہ اور زکوٰۃ کی رونقیں دراصل سرمایہ داری کے دیے گئے placebo effect کا حصہ ہیں جیسے کوئی شخص درد کی اصل دوا لینے کے بجائے بس خوشنما گولی چبائے جا رہا ہو کہ شاید یہی علاج ہے ہمارے ہاں خیرات ایک ادارہ بن چکا ہے بلکہ یوں کہیں کہ خیرات غربت کے ساتھ ایک قسم کا "معاہدہ امن” ہے کہ دیکھو ہم تمہیں بھوکا مرنے نہیں دیں گے مگر امیر ہونے بھی نہیں دیں گےاسی حوالے سے سقراط کی ایک بات یاد آتی ہے
"بدلاؤ صرف وہی لا سکتا ہے جو سچ میں تکلیف محسوس کرے باقی سب صرف تماشائی ہوتے ہیں”
تو جناب عید کے دن ہم سب تماشائی ہی ہوتے ہیں کچھ لوگ مہنگے برانڈڈ کپڑوں میں ملبوس خوشی کے تماشائی اور کچھ پھٹے پرانے کپڑوں میں اس خوشی کو ترستے ہوئے تماشائی
کارل مارکس کہتا تھا
"تاریخ میں تمام سماجی مسائل کی جڑ معاشی نظام میں پنہاں ہوتی ہے”تو سوال یہ ہے کہ کیا کبھی ایسا وقت آئے گا جب عید واقعی سب کے لیے برابر ہوگی جب کسی کے پاس نہ دینے کی ضرورت ہوگی نہ لینے کی جب سب کے پاس عید کی خوشیوں کو دل سے محسوس کرنے کا حق ہوگا
یا شاید یہی نظام چلتا رہے گا اور ہر سال کسی نہ کسی فلسفیانہ تحریر میں ہم یہی مباحثہ کرتے رہیں گے
نوٹ: لکھاریوں کےذاتی خیالات سے”قلم کلب”کامتفق ہوناضروری نہیں ہے۔