تحریر : ہراکلیٹس ہراک
جب میں نے تنہائی کے سو سال پڑھا، تو مجھے شدت سے محسوس ہوا کہ ہمارے اپنے خطے کے لیے بھی کوئی ایسا ناول ہونا چاہیے، جس کا نام ہو جہالت کے چودہ سو سال۔ کیونکہ یہاں ناسمجھی، اندھی تقلید اور علمی دیوالیہ پن ایک دن، ایک سال یا ایک صدی کا قصہ نہیں، بلکہ نسل در نسل چلنے والا ایک نہ ختم ہونے والا المیہ ہے۔ میں نے سوچا، اگر کوئی ایسا ناول لکھا جائے جو ہماری تاریخ اور اجتماعی نفسیات کو اسی جادوئی حقیقت پسندی کے انداز میں بیان کرے، تو وہ کیسا ہوگا؟اب ظاہر سی بات ہے ایسا ناول تو لکھنے سے میں رہا ایک چھوٹی سی تحریر لکھتا ہوں امید ہے اپ لوگوں کو پسند ائے گی جس کا مین تھیم گیبرل گرشیا مارکیز کے ناول تنہائی کے 100 سال پر ہی ہے ۔
یہ وہی خطہ ہے جہاں علم کو جرم سمجھا جاتا ہے، سوال کو گستاخی اور تحقیق کو فتنہ قرار دیا جاتا ہے۔ جہاں لوگ عقل کے بجائے ایمان کی بنیاد پر تولتے ہیں، اور ایمان بھی وہ جو مدرسے کے استاد، سیاسی مولوی، یا سوشل میڈیا اسکالر نے انہیں گھول کر پلایا ہو۔ یہاں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ہم آج بھی اسی دائرے میں گھوم رہے ہیں جو ہمیں ہر بار وہی پرانے فتوے، وہی پرانی دھمکیاں، اور وہی پرانی گالیاں دے کر واپس وہیں لے آتا ہے جہاں سے چلے تھے۔
جب جہالستان کے لوگوں نے پہلی بار آئینہ دیکھا، تو وہ حیرت میں پڑ گئے۔ کچھ نے اسے جادو سمجھا، کچھ نے سازش، اور کچھ نے اسے شیطانی چال قرار دے کر توڑ دیا۔ بڑے بوڑھے جمع ہوئے، داڑھیاں کھجائیں، اور فتویٰ صادر کر دیا کہ ’’یہ شیطان کی آنکھ ہے، جو ہمارے اعمال دیکھ رہی ہے۔‘‘ اور یوں جہالستان کی تاریخ کا پہلا آئینہ گناہ قرار پایا۔ یہ وہی جہالستان تھا جہاں سوال کرنا جرم تھا، تحقیق فتنہ تھی، اور سوچنا بغاوت۔ یہاں کے لوگ روز صبح اٹھتے، دیوار پر ٹنگے بوسیدہ تقویم کو دیکھتے، اور فیصلہ کرتے کہ آج بھی وہی کریں گے جو ان کے آباء و اجداد کرتے آئے ہیں۔
عمران اس جہالستان گاؤں کا سب سے عجیب آدمی تھا۔ اس نے ایک دن مدرسے میں بیٹھے ہوئے سوال کر لیا کہ ’’مولوی صاحب، اگر زمین ساکن ہے، تو پھر یہ سائنسدان کیوں کہتے ہیں کہ زمین گھومتی ہے؟‘‘ مدرسے کے بڑے مولوی صاحب نے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرا، تسبیح کو تیزی سے گھمانے لگے اور فتویٰ دیا: ’’یہ لڑکا گمراہ ہو چکا ہے۔ اسے فوراً حق کے راستے پر لانا ہوگا۔‘‘ اور یوں عمران پر وہی پرانے الزامات لگے جو ہر صدی میں کسی نہ کسی پر لگتے ہیں گمراہی، گستاخی، اور فتنہ انگیزی۔ وہ جانتا تھا کہ اگر اس نے زیادہ سوال کیے تو اس کا انجام سقراط جیسا ہوگا۔ چنانچہ اس نے چپ رہنا سیکھ لیا، کیونکہ جہالستان میں سوال کرنے والے یا تو پاگل قرار دے دیے جاتے تھے، یا غائب کر دیے جاتے تھے۔
یہ وہی جہالستان تھا جہاں محمود غزنوی کو ہیرو کہا جاتا تھا، جس نے سترہ حملے کیے، مگر ایک بھی لائبریری نہ بنوائی۔ جہاں تیمور کے قتل و غارت پر فخر کیا جاتا تھا، جس نے دریائے گنگا کو لاشوں سے بھر دیا، لیکن علم کی ایک شمع بھی روشن نہ کی۔ مغل بادشاہوں نے محلات تو بنائے، لیکن سائنسی ترقی کے نام پر چند تجرباتی توپوں کے سوا کچھ نہ چھوڑا۔ وہی دور تھا جب یورپ میں رینے ڈیکارٹ کہہ رہا تھا، ’’میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں،‘‘ اور جہالستان میں اعلان ہو رہا تھا کہ ’’جو سوال کرے گا، وہ دائرہ اسلام سے خارج۔‘‘ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ خلا میں پہنچ گئے، اور جہالستان والے آج بھی یہ طے نہیں کر سکے کہ چاند پر جانا جائز بھی ہے یا نہیں۔
یہاں کے مدرسوں میں زمین کو ساکن اور سورج کو متحرک مانا جاتا ہے، اور جو بچہ پوچھ لے کہ ’’مولوی صاحب، ناسا والے تو کچھ اور کہہ رہے ہیں؟‘‘ تو اس کا ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ یہاں کے اسکولوں میں سائنسی تحقیق کے بجائے یہ پڑھایا جاتا ہے کہ ’’ہم نے دودھ اور شہد کی نہریں بہانی ہیں،‘‘ جبکہ سچ یہ ہے کہ ہم سے نالیوں میں گندا پانی بہانا بھی ممکن نہیں ہو رہا۔
یہاں مذہب ایک ذاتی راستہ نہیں، بلکہ ایک سماجی ہتھیار ہے، جو جس کے ہاتھ لگا، اس نے اپنی مرضی کے مطابق اس کا استعمال شروع کر دیا۔ جو مولوی ہے، وہ مذہب کو "زبان بندی کا ہتھیار” بناتا ہے، جو سیاستدان ہے، وہ اسے "ووٹ بٹورنے کی مشین” بناتا ہے، اور جو عام آدمی ہے، وہ اسے "ہر سوال کا آسان جواب” بنا لیتا ہے۔ نطشے نے کہا تھا، "عقیدے وہ سچائیاں ہیں جنہیں ہم سوال کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔” اور جہالستان میں عقائد پر سوال کرنے والا زندہ نہیں بچتا۔
یہاں ہر شخص جاہل نہیں، لیکن ہر عقلمند خاموش ہے۔ جو بولے گا، وہ گستاخ کہلائے گا۔ جو سوچے گا، وہ باغی بن جائے گا۔ اور جو سوال کرے گا، وہ جلد یا بدیر یا تو ملک چھوڑ جائے گا، یا خاموشی سے کہیں غائب کر دیا جائے گا۔ سقراط نے کہا تھا، ’’ایک غیرجائز زندگی گزارنے کے بجائے مر جانا بہتر ہے۔‘‘ لیکن جہالستان میں غیرجائز زندگی ہی نظام کا حصہ بن چکی ہے۔
یہ وہی ملک ہے جہاں یوٹیوب پر کوئی مولوی بیٹھ کر کہتا ہے کہ "جہاز ایجاد کرنے والے دراصل مسلمان تھے،” اور لوگ اس پر تالیاں بجاتے ہیں، لیکن اگر کوئی بچہ یہ پوچھ لے کہ "پھر ہم نے دوبارہ جہاز کیوں نہیں بنایا؟” تو اسے کہا جاتا ہے کہ "تمہارے عقیدے میں مسئلہ ہے!” یہاں لوگ گلی کے کونے میں بیٹھ کر یورپ کو کوستے ہیں، لیکن ان کی سب سے بڑی خواہش یہی ہوتی ہے کہ کسی طرح وہاں کا ویزا لگ جائے۔ یہاں مغرب کو "اخلاقی گراوٹ کا گڑھ” کہا جاتا ہے، لیکن جیسے ہی کسی کے پاس پیسے آتے ہیں، تو وہ بچوں کو آکسفورڈ بھیجنے کے خواب دیکھنے لگتا ہے۔ وولٹیر نے کیا خوب کہا تھا، "منافقت انسان کی سب سے بڑی کمزوریوں میں سے ایک ہے۔” اور جہالستان میں ہر گلی میں ایک نہیں، درجنوں منافق ملتے ہیں۔
یہاں ہر مسجد کے باہر لکھا ہوتا ہے کہ ’’جھوٹ بولنا حرام ہے،‘‘ لیکن اسی مسجد کے چندے سے مولوی صاحب گھر بنا رہے ہوتے ہیں۔ یہاں دین کی باتیں کرنے والے اپنی بیٹیوں کو گھر میں قید رکھتے ہیں، لیکن کسی کی بیوی یا بہن کو گھورنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ یہاں ایک طرف خواتین کے پردے پر طویل خطبے دیے جاتے ہیں، لیکن بازاروں میں ان کے ساتھ ہونے والی بدتمیزی کو "بس مردوں کی فطرت” کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے۔
یہ وہی خطہ ہے جہاں کے لوگ ہر وقت خلافت کے خواب دیکھتے ہیں، لیکن جس دن ان پر ٹریفک کا اشارہ بھی لاگو کر دیا جائے، تو وہ چیخنے لگتے ہیں کہ "یہ یہود و نصاریٰ کی سازش ہے!” اگر تنہائی کے سو سال کے مکوندو میں وقت دائروی انداز میں چلتا تھا، تو جہالستان میں بھی وقت بس ایک دائرے میں ہی گھومتا ہے۔ ایک صدی پہلے جو سوال تھا، وہی آج بھی ہے۔ ایک صدی پہلے جو جھوٹ بولا جا رہا تھا، وہی آج بھی ہے۔ ایک صدی پہلے جو خواب دکھائے جا رہے تھے، وہی آج بھی بیچے جا رہے ہیں۔
اور یوں، جہالستان میں جہالت کے چودہ سو سال پورے ہو گئے، لیکن روشنی کا کوئی امکان نظر نہ آیا۔ کیونکہ جہالستان کے لوگ اپنی تاریکی سے محبت کرتے ہیں اور شائد اگلے 1400 سال تک مزید کرتے رہیں مگر تب تک یہ دنیا زندہ جہنم بن چکی ہوگی !
نوٹ: لکھاریوں کےذاتی خیالات سے”قلم کلب”کامتفق ہوناضروری نہیں ہے۔