تحریر : ہراکلیٹس ہراک
مغرب میں فیثا غورث ریاضی کے اصولوں سے کائنات کی گتھیاں سلجھا رہا تھا، اور ادھر برصغیر میں فکری انقلاب کی بنیاد پڑ رہی تھی۔ یہی وہ زمانہ تھا جب سدھارتھ گوتم کی پیدائش ہوئی، جو آگے چل کر گوتم بدھ کے نام سے مشہور ہوئے۔ 563 قبل مسیح میں پیدا ہونے والے بدھ 483 قبل مسیح میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئے۔
بدھ مت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس وقت کے برصغیر کے فکری پس منظر پر نظر ڈالی جائے۔ 1500 قبل مسیح میں ویدک روایت کا طوطی بولتا تھا۔ پھر دسویں صدی قبل مسیح سے لے کر پانچویں صدی قبل مسیح تک برہمنیت نے ویدک عقائد پر اپنی حکمرانی قائم کر لی۔ایسے میں گوتم بدھ کی آمد ہوئی۔ پرانی روایات کا بوجھ، نئے خیالات کی دستک، اور ایک ایسی فکری کشمکش جس نے برصغیر کی روحانی زمین کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔
ادھر یونان میں فیثا غورث ریاضی کے کلیوں میں حقیقت تلاش کر رہا تھا، اور اِدھر چین میں کنفیوشس اور لاؤزی مذہب اور اخلاقیات کے رشتے پر ازسرِ نو غور کر رہے تھے۔ وہ عقائد کو اخلاقیات سے الگ کر کے ایک نیا فکری زاویہ دے رہے تھے۔ برصغیر میں بھی ایک بڑی تبدیلی جنم لے رہی تھی۔ برہمنیت، جو کہ ایک منظم مذہبی ڈھانچے کی صورت اختیار کر چکی تھی، ویدزم سے ابھری تھی۔ چھٹی صدی قبل مسیح تک ویدک صحیفے فکری منظرنامے پر چھائے ہوئے تھے، مگر پھر کچھ ایسا ہوا جس نے اس قدیم ترتیب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
یہ گوتم بدھ کی پیدائش کا زمانہ تھا۔ ایک ایسا لمحہ جب صدیوں سے چلی آ رہی روایات کو ایک نئے زاویے سے دیکھا گیا۔ بدھ نے اعلان کیا، "حقیقی خوشی صرف اسی کو حاصل ہوتی ہے جو اپنی انا پر قابو پا لیتا ہے۔”
گوتم بدھ نے نہ کسی وحی کا دعویٰ کیا، نہ کسی الہامی کتاب کا حوالہ دیا، اور نہ ہی خود کو کسی ماورائی سچائی کا پیامبر قرار دیا۔ ان کے خیالات کسی مذہبی عقیدے کی تبلیغ نہیں تھے بلکہ خالصتاً منطقی اور فلسفیانہ تھے۔ وہ سچائی کو ثابت کرنے کے لیے دلیل اور تجربے پر یقین رکھتے تھے، نہ کہ کسی مابعد الطبیعاتی (Metaphysical) تصور پر۔ یہی وجہ تھی کہ ان کا نقطۂ نظر یونانی فلسفیوں سے مختلف تھا، جو اسی زمانے میں وجود، حقیقت اور کائنات کے بنیادی سوالات پر غور کر رہے تھے۔ گوتم بدھ کے سوالات سادہ مگر گہرے تھے: خوشی (Happiness) کیا ہے؟ فضیلت (Virtue) کسے کہتے ہیں؟ اور اچھی زندگی (Good Life) کی حقیقت کیا ہے؟
تو پھر اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ گوتم بدھ نے وہ چار اصول کون سے دیے تھے؟ اب دیکھیں، بدھ صاحب کوئی عام آدمی نہیں وہ شہزادے تھے، ان کے پاس دولت تھی شان و شوکت تھی، نوکر چاکر تھے، لیکن پھر بھی وہ سب کچھ چھوڑ کر جنگلوں میں جا بیٹھے، کیوں؟ کیونکہ انہیں احساس ہوا کہ دنیا میں سب سے بڑی حقیقت دُکھ (Suffering – Dukkha) ہے۔ یہ وہ پہلا سچ تھا جو انہوں نے دریافت کیا—زندگی دکھ سے بھری پڑی ہے، چاہے آپ بادشاہ ہوں یا فقیر۔
دوسرا سچ یہ تھا کہ اس دکھ کی جڑ دُکھ سموُدَیَ (Origin of Suffering – Samudaya) ہے، یعنی ہماری خواہشات اور لگاؤ (Desires & Attachments – Tanha)۔ ہم کسی چیز کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں، کبھی دولت کے، کبھی محبت کے، کبھی شہرت کے، اور جب یہ نہیں ملتیں تو دکھ ہوتا ہے۔
تیسرا سچ یہ تھا کہ اگر ہم اپنی خواہشات کو ختم کر دیں تو دُکھ نِروَدھ (Cessation of Suffering – Nirodha) حاصل ہو سکتا ہے، یعنی دکھ کا خاتمہ ممکن ہے۔ گویا مسئلے کا حل موجود ہے۔
اور چوتھا سچ یہ تھا کہ اس حل تک پہنچنے کے لیے مگّہ (Path to the Cessation of Suffering – Magga) یعنی "آٹھ گُنا راستہ” (Eightfold Path) اپنانا ضروری ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ خواہشات ختم کرنا کوئی آسان کام نہیں، کیونکہ ہم سب کے اندر ایک چھوٹا سا لالچی انسان بیٹھا ہوتا ہے جو ہر وقت کچھ نہ کچھ چاہتا رہتا ہے۔
بدھ مت کہتا ہے کہ اگر آپ صحیح طریقے سے سوچیں (Right View), صحیح بات کریں (Right Speech), صحیح عمل کریں (Right Action) اور اپنے ذہن کو قابو میں رکھیں (Right Mindfulness)، تو آپ اس لالچی انسان کو شکست دے سکتے ہیں اور نروان (Enlightenment – Nirvana) حاصل کر سکتے ہیں یعنی مکمل ذہنی سکون۔ سادہ الفاظ میں، بدھ کی یہ چار نوبل سچائیاں ایک طرح سے زندگی کا منیول ہیں، لیکن مسئلہ وہی ہے جو ہمیشہ رہا ہے یہ سب جاننے کے باوجود بھی ہم اپنی خواہشات کے ہاتھوں مجبور رہتے ہیں! اب اب سوچ رہیں ہوں گے یہ سب تو ہم کو بھول جائے گا تو پریشانی کی بات نہیں اس کے لئے آیہ آپ یہ فارمولا "DSNM” یاد رکھیں آپ کو بدھ کی چار نوبل سچائیاں کبھی نہیں بھولیں گی!
جاری ہے اگلا حصہ کچھ دنوں تک qalamclub.com
پر پبلش ہو جائے گا !
نوٹ: لکھاریوں کےذاتی خیالات سے”قلم کلب”کامتفق ہوناضروری نہیں ہے۔