نئی دہلی: بھارت میں سائنسی تحقیق کے فروغ سے متعلق حکومتی دعوے محض تقاریر اور اشتہاری مہمات تک محدود رہ گئے ہیں، جبکہ زمینی حقائق بدحالی، فنڈز کی کمی اور محققین کی مایوسی کی داستان سنا رہے ہیں۔
الجزیرہ کی تازہ رپورٹ نے انکشاف کیا ہے کہ نریندر مودی حکومت کی جانب سے شروع کی گئی اسکیم "وِگیان دھارا” اصل میں ایک سیاسی نمائشی منصوبہ بن کر رہ گئی ہے، جس نے محققین کو عملی فائدہ پہنچانے کے بجائے انہیں مزید الجھنوں میں دھکیل دیا ہے۔
بھارتی حکومت کی معروف INSPIRE اسکیم کے تحت محققین گزشتہ نو ماہ سے مالی امداد سے محروم ہیں۔ کئی نوجوان سائنسدان قرض لینے یا تحقیق کو خیرباد کہنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
الجزیرہ کے مطابق حکومتی تحقیقاتی بجٹ کا 70 فیصد نجی اداروں کو بغیر سود کے قرض کی صورت میں دے دیا گیا، جبکہ تحقیقی اسکیموں پر 22 فیصد کٹوتی عائد کی گئی۔ وِگیان دھارا کو ایک نئی پیکنگ دے کر اصل کٹوتیوں کو عوام سے چھپایا جا رہا ہے۔
اسکالرز اور محققین بتاتے ہیں کہ نہ صرف وظائف روک دیے گئے ہیں بلکہ نئی اسکیم نے فنڈز کی ادائیگی کو پیچیدہ اور غیر یقینی بنا دیا ہے۔ کئی محققین لیپ ٹاپ جیسی بنیادی ضروریات پوری نہیں کر پا رہے، جبکہ ان کی جمع پونجی بھی ختم ہو چکی ہے۔
رپورٹ میں بھارتی IITs اور IISERs کے محققین کی حالت زار کو اجاگر کیا گیا ہے، جو حکومتی بیوروکریسی، غیر سنجیدگی اور مبہم جوابات کا شکار ہیں۔ کئی اسکالرز نے بتایا کہ وہ تین سے نو ماہ تک بغیر کسی مالی تعاون کے گزارا کر رہے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق، "وِگیان دھارا” اسکیم کا بجٹ 2016-17 میں 43.89 ارب روپے تھا جو کم ہو کر 2025-26 میں محض 14.25 ارب روپے رہ گیا — یعنی 67.5 فیصد کمی۔
محققین نے الجزیرہ سے گفتگو میں اپنے غصے اور مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ فنڈز نہ ہونے کے باعث وہ سائنسی کانفرنسز میں شرکت تک نہیں کر پا رہے۔ ایک پی ایچ ڈی اسکالر نے کہا کہ ’’ہم نے بارہا حکام سے رابطہ کیا، لیکن اکثر کوئی جواب نہیں آیا، اور اگر آیا بھی تو وہ یا تو گول مول ہوتا تھا یا بدتمیزی پر مبنی۔‘‘
یہ تمام صورتحال بھارت میں سائنسی ترقی اور خود انحصاری (آتم نربھر بھارت) کے حکومتی بیانیے پر ایک بڑا سوالیہ نشان کھڑا کر رہی ہے۔