تحریر : کاشف جاوید
عالمی سیاست میں بھونچال آ چکا ہے اور ہم ہمیشہ کی طرح تماشائی بنے کھڑے ہیں امریکہ کے اندر ہلچل مچی ہوئی ہے نیٹو کمزور ہو رہا ہے چین اور روس کی شراکت داری مغرب کے لیے ڈراؤنا خواب بنتی جا رہی ہے اور ہم آج بھی سوچ رہے ہیں کہ روٹی سستی کیسے ہوگی عالمی طاقتیں بساط بچھا چکی ہیں اور ہم ابھی تک یہ طے نہیں کر سکے کہ ہمیں کس طرف کھڑا ہونا ہے
ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی کوئی معمولی بات نہیں وہ امریکہ کے لیے نیٹو کے لیے اور پوری دنیا کے لیے ایک بڑا سوالیہ نشان ہے وہ نیٹو کو بوجھ سمجھتے ہیں اقوام متحدہ کو بے کار قرار دیتے ہیں اور چین اور روس کے بارے میں ایسے خیالات رکھتے ہیں جو آنے والے دنوں میں عالمی سیاست کی نئی شکل بنانے والے ہیں سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ پیچھے ہٹ رہا ہے اگر ایسا ہے تو اس خلا کو کون بھرے گا
روس اور چین کی دوستی مغرب کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے یوکرین جنگ کا فیصلہ کن موڑ آ چکا ہے اور اگر امریکہ نیٹو سے پیچھے ہٹتا ہے تو یوکرین کا کیا بنے گا روس کے لیے یہ موقع کسی نعمت سے کم نہیں ہوگا نیٹو کا وجود پہلے ہی لڑکھڑا رہا ہے اور اگر امریکہ اس اتحاد کو کمزور کرتا ہے تو یورپ کے ہاتھ پاؤں پھول جائیں گے اب وہ وقت آ چکا ہے جب ہر ملک کو اپنی سلامتی کا بندوبست خود کرنا ہوگا
یورپ کو سب سے زیادہ خطرہ اسی بات سے ہے کہ نیٹو اگر بکھر گیا تو یورپی ممالک کے پاس کیا آپشن رہ جائے گا یہ تاریخ میں پہلی بار نہیں ہو رہا طاقت کے خلا ہمیشہ کسی نئی طاقت کے ابھرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں ہٹلر کے ساتھ ایپیزمنٹ پالیسی کا انجام سب نے دیکھا تھا آج اگر نیٹو کمزور ہوتا ہے تو اس کا انجام بھی مختلف نہیں ہوگا
امریکہ اگر ایک ہی وقت میں چین اور روس کے ساتھ دشمنی مول لیتا ہے تو اس کی حالت بھی ویسی ہی ہوگی جیسے نپولین نے روس پر حملہ کر کے خود کو برباد کر لیا تھا کارل مارکس نے کہا تھا کہ معیشت سیاست کی ماں ہوتی ہے جو معیشت پر قبضہ کر لے وہی دنیا پر راج کرتا ہے چین اور روس اگر اکٹھے ہو گئے تو امریکہ کے لیے ایک نئی سرد جنگ کا آغاز ہوگا اور پھر یہ دنیا ویسی نہیں رہے گی جیسی آج دکھائی دے رہی ہے
سعودی عرب اور ایران کی صلح بتا رہی ہے کہ دنیا کا توازن اب مغرب سے مشرق کی طرف جھک رہا ہے پہلے امریکہ اور اس کے اتحادی مشرق وسطیٰ کو کنٹرول کرتے تھے اب طاقت کے مراکز تبدیل ہو رہے ہیں اگر سعودی عرب اور ایران نے اپنی مخاصمت کو پیچھے چھوڑ دیا تو یہ خطے کے لیے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا
پاکستان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسے کس طرف کھڑا ہونا ہے نیوٹرل پالیسی ایک اچھی حکمت عملی ہو سکتی ہے لیکن کیا ہم واقعی نیوٹرل رہ سکتے ہیں معیشت پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہے قرضے بڑھ رہے ہیں اور سفارتی میدان میں بھی ہم زیادہ متحرک نہیں ہیں اگر ہم نے دانشمندی سے اپنی چال نہ چلی تو دنیا میں تنہائی ہمارا مقدر بن سکتی ہے یوکرین جنگ کا انجام کیا ہوگا یہ ابھی کہنا مشکل ہے لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ طویل جنگیں ہمیشہ غیر متوقع نتائج پیدا کرتی ہیں نپولین روس پر حملہ کر کے پھنسا ہٹلر نے بھی یہی غلطی کی اور اب روس یوکرین میں پھنس چکا ہے اگر یہ جنگ لمبی ہوئی تو دنیا کو ایک نئے عالمی بحران کے لیے تیار رہنا ہوگا
نیٹو کا مستقبل بھی اب امریکہ پر نہیں بلکہ یورپ پر منحصر ہے اگر یورپی ممالک دفاعی طور پر خود کو مضبوط کر لیتے ہیں تو نیٹو کی بقا ممکن ہوگی ورنہ یہ اتحاد صرف ایک نام رہ جائے گا یہ وقت فیصلہ کن ہے دنیا ایک نئے بلاک سسٹم کی طرف جا رہی ہے امریکہ پیچھے ہٹ رہا ہے چین اور روس آگے بڑھ رہے ہیں یورپ پریشان ہے مشرق وسطیٰ ایک نئی شکل میں ڈھل رہا ہے اور پاکستان ابھی تک کشمکش میں ہے سوال یہ ہے کہ ہم اس بدلتی دنیا میں ایک نئی قوت بنیں گے یا صرف ایک غیر متعلقہ ملک بن کر رہ جائیں گے
نوٹ: لکھاریوں کےذاتی خیالات سے”قلم کلب”کامتفق ہوناضروری نہیں ہے۔