نیوز بلاگ/امجد عثمانی
صحافتی کیرئیر کے ابتدائی برسوں کی بات ہے….ایک اخبار کے نیوز روم میں ایک نیوزایڈیٹر واسطہ پڑ گیا۔۔۔۔۔عجب” منتشر الخیال” آدمی تھے۔۔۔..بہت جلد گھبرا بھی جاتے۔۔۔۔۔۔خبروں کے چنائو کے عمل sorting کو saltionکہتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔واقعی وہ خبروں کے زخموں پر نمک چھڑکتے تھے۔۔۔۔تب سرخیوں میں پہلے یا بعد میں "ونڈو” بنانے کا رواج زیادہ ہوا کرتا تھا۔۔۔۔۔۔۔ہوتا یوں ہم لوگ بڑی محنت سے خبر بناتے۔۔۔سرخی میں” ونڈو "نکالتے اور ان کی "خدمت عالیہ” میں پیش کرتے۔۔۔۔وہ سرخی پکڑ کر گہری سوچ میں ڈوب جاتے۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔پھر سرخی سے ونڈو ختم کرکے کہتے کہ یہ "غیر ضروری” ہے۔۔۔۔۔۔ہم اوکے سر کہہ کر اگلی خبر میں لگ جاتے اور نیوز ایڈیٹر کے مزاج گرامی کے پیش نظر سیدھی سادی سرخی بنا کر ان کے سامنے رکھتے۔۔۔۔وہ کسی گہری سوچ میں غرق ہو جاتے اور سرخی میں ونڈو ڈال کر کہتے کہ یہ "بہت ضروری” ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ہم ان کا” نظریہ ضرورت” سمجھنے سے قاصر تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تنگ آمد بھنگ آمد۔۔۔۔۔میں نے ایک شب سوال داغ دیا کہ سر یہ کیا "سائنس "ہے کہ ہم سرخی میں ونڈو ڈالتے تو آپ ختم کردیتے ہیں اور ہم ونڈو بغیر سرخی دیتے ہیں تو آپ ایک کے بجائے دو دو ونڈو بھی” ٹھوک”دیتے ہیں؟؟؟میرے سوال پر وہ پھر گہری سوچ میں کھو گئے اور بولے میرا یہی کام ہے۔۔۔۔۔۔اور” نیوز ایڈیٹر” کسے کہتے ہیں۔۔۔۔۔میں اپنے باس کی منطق پر چکرا کر رہ گیا۔۔۔۔۔ایک اور بڑے قومی اخبار کے چیف نیوز ایڈیٹر بھی کچھ ایسے ہی” حواس باختہ’ تھے۔۔۔۔وہ "بلاوجہ کام” کے عادی تھے۔۔۔۔وہ سب ایڈیٹرز کو سر نہ اٹھانے دیتے اور ایک کے بعد ایک خبر ان کے سامنے پھینک دیتے۔۔۔۔ان کے نزدیک ہر خبر ہی اہم تھی۔۔۔۔۔وہ اس چکر میں اتنی زیادہ خبریں بنوا چھوڑرتے کہ پھر صفحات تیار کراتے وقت اور الجھ جاتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خبریں سامنے رکھ کر سوچتے رہتے کہ کون سی خبر لگوائیں اور کون سی چھوڑیں۔۔۔۔اسی” گھمن گھیری” میں کاپی لیٹ ہو جاتی اور اگلے دن دفتر آکر سر جھکائے چیف ایڈیٹر کی” قوالی”سنتے۔۔۔۔۔۔اسی اخبار میں ایک اور ہنگامہ خیز نیوز ایڈیٹر تھے۔۔۔۔وہ دوسرے شہر کے ڈیسک انچارج تھے۔۔۔۔۔سر شام ہی چیخ پکار شروع کردیتے۔۔۔۔فون پکڑے کبھی نیوز روم تو کبھی پیج میکنگ سیکشن کے چکر کاٹ کاٹ کر ہلکان ہو جاتے۔۔۔۔لیکن پھر بھی کاپی تیار کرتے کرتے فجر کی اذانیں شروع ہو جاتیں۔۔۔۔۔۔اگلے دن پھر وہی کلاس اور جرمانے ۔۔۔۔۔۔۔بات تو ٹھیک ہے کہ اور نیوز ایڈیٹر کسے کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟