تحریر : ہراکلیٹس ہراک
ہر چند سال بعد ایک نیا مروڑ اٹھتا ہے کہ اقبال بہت بڑے فلسفی تھے، ہم نے انہیں سمجھا نہیں، اور اب وقت آ گیا ہے کہ ان کی فکر کو صحیح طور پر عام کیا جائے۔ پھر کوئی صاحب جوشِ خطابت میں اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے اقبال کو نظر انداز کر دیا، اور اب ان کی "اصل ویژن” کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی شخصیت کے خیالات کو بار بار تشریح کی ضرورت پیش آ رہی ہے تو یا تو وہ خیالات اتنے پیچیدہ ہیں کہ عام فہم ذہن ان کی تہہ تک پہنچنے سے قاصر ہے، یا پھر وہ کسی مستحکم فکری منہج پر استوار ہی نہیں۔ اور اگر وہ خود مستحکم نہیں تو پھر ہر آنے والا محققِ اقبال اپنی تشریح کا تڑکا لگا کر ایک نئی دیگ چڑھا دیتا ہے، اور قوم بیچاری ہر بار نئے ذائقے کے ساتھ وہی پرانی ہانڈی نوشِ جان کر لیتی ہے۔
یہی مسئلہ اقبال کے ساتھ ہے۔ ان کے مداحین کو ہمیشہ یہ درپیش رہتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح انہیں فلسفی ثابت کیا جائے، حالانکہ فلسفی اور فلسفیانہ فکر رکھنے والے انسان میں اتنا ہی فرق ہوتا ہے جتنا زمین اور آسمان میں۔ سقراط، افلاطون، کانٹ، ہیگل اور ڈیکارٹ فلسفی تھے کیونکہ انہوں نے نہ صرف فکر کے نئے زاویے متعارف کرائے بلکہ ان زاویوں کو ایک منظم فکری بنیاد بھی دی۔ جبکہ اقبال ایک مفکر تھے، جن کی شاعری میں فلسفیانہ جھلکیاں ضرور نظر آتی ہیں، مگر ان کی فکر کو کسی مستقل فلسفیانہ مکتبِ فکر میں شمار کرنا ناممکن ہے۔ فلسفی کا کام ایک مربوط استدلالی عمارت کھڑی کرنا ہوتا ہے، جبکہ اقبال کی فکر میں وجدانی اور خطیبانہ عنصر غالب ہے۔ یعنی اگر اقبال فلسفی ہیں، تو پھر ہر وہ شخص بھی فلسفی ہے جو گہرے الفاظ میں کسی پیچیدہ مسئلے پر رائے زنی کر لے۔
یہی وہ نکتہ ہے جسے اقبال کے ناقدین بارہا دہراتے ہیں۔ وحید الدین خان نے اپنی کتاب تجدد کی حقیقت میں لکھا:
"اقبال کی فکر میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کسی ایک مستحکم نظریاتی ڈھانچے پر قائم نہیں۔ وہ بیک وقت مذہبی تجدید، قوم پرستی، صوفی ازم اور مغربی فلسفے کے مختلف عناصر کو یکجا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر نتیجتاً ایک مربوط فلسفہ تشکیل نہیں دے پاتے۔”
فضل الرحمٰن نے اسلام اور جدیدیت میں کیا لکھا الفاظ ملاحظہ کریں !
"اقبال کے خیالات کو فلسفہ کہنا اس لیے مشکل ہے کیونکہ ان کے ہاں کوئی منطقی اور استدلالی تسلسل نہیں ملتا۔ ان کی شاعری میں جوش و خروش اور خطیبانہ طرزِ بیان غالب ہے، مگر ایک فلسفی کا بنیادی کام عقلی بنیادوں پر ایک نظریہ تشکیل دینا ہوتا ہے، جو اقبال کے ہاں بکھرا ہوا نظر آتا ہے۔”
جے این شرمن نے Iqbal and Philosophy میں واضح کیا کہ
"اقبال کو فلسفی سمجھنا بنیادی طور پر ایک غلطی ہے۔ وہ ایک شاعر ہیں جو فلسفے کو اپنی شاعری میں برتتے ہیں، مگر ان کی فکر میں کوئی مستقل نظریاتی لڑی نہیں ہے جسے ہم ایک فلسفیانہ نظام قرار دے سکیں۔ وہ بیک وقت نیٹشے، برگساں اور رومی سے متاثر نظر آتے ہیں، مگر ان میں سے کسی ایک کی فکری جہت کو منطقی طور پر مکمل نہیں کرتے۔”
اب خود اقبال کی فکر کو دیکھ لیں۔ ان کی کتاب Reconstruction of Religious Thought in Islam میں ایک جگہ وہ لکھتے ہیں:
"مذہبی تجربہ بنیادی طور پر ایک جذباتی کیفیت ہے جس میں ایک علمی پہلو بھی شامل ہوتا ہے۔ اس تجربے کی فکری سطح پر ترقی اور تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ ہم نئے مذہبی تصورات تخلیق کریں۔”
اور پھر اسی کتاب میں ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
"اَنا کا حتمی مقصد یہ نہیں کہ وہ کسی چیز کو دیکھے بلکہ یہ ہے کہ وہ خود کچھ بنے۔”
(نوٹ: دونوں اقتباس کا حوالہ سکرین شاٹ میں دے دیا گیا ہے۔ اگر آپ کو انگلش آتی ہے تو دیکھ لیں، ساتھ میں صفحہ نمبر بھی ہے۔ یہ اقبال کی اپنی کتاب ہے، میں نے ایک بات بھی اپنے پاس سے ایڈ نہیں کی، ہاں ترجمہ کیا ہے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ ترجمہ غلط ہے تو آپ درست ترجمہ پیش کر دیں تاکہ بات مزید کھل سکے!)
یعنی ایک طرف وہ کہہ رہے ہیں کہ مذہب کو عقلی اور علمی سطح پر نئی تشریحات کے ذریعے آگے بڑھانا چاہیے اور دوسری طرف وہ خودی کے فلسفے کو ایک وجدانی اور روحانی تجربے کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ اقبال کی اصل فکری سمت کیا ہے؟ کیا وہ مذہبی فکر کی عقلی تشکیل چاہتے ہیں یا وجدانی خودی کو حتمی منزل قرار دیتے ہیں؟ ان کی فکر میں ایک خطیبانہ شدت تو ہے مگر ایک مستحکم استدلالی بنیاد نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ہر چند سال بعد ایک نیا مفسرِ اقبال ملتا ہے جو کہتا ہے کہ "لوگو! ہم تمہیں اقبال کا اصل فلسفہ سمجھائیں گے” اور پھر وہی پرانی تشریحات نئے الفاظ میں دہرائی جاتی ہیں۔
یہ بات ہربرٹ برگسن نے اپنی کتاب Iqbal’s Contradictions میں ایسے کہی کہ
"اقبال کی فکر میں ایک مسلسل تضاد پایا جاتا ہے۔ وہ کبھی عقل کی برتری پر زور دیتے ہیں اور کبھی وجدانی ادراک کو حتمی مان لیتے ہیں۔ یہی تضاد ان کی فکری بنیاد کو غیر مستحکم بنا دیتا ہے۔”
گویا ہر نسل یہ تسلیم کرتی ہے کہ اقبال کی فکر کو ابھی تک صحیح طور پر نہیں سمجھا گیا، اور یہی تسلیم کرنا اس بات کا کھلا اعتراف ہے کہ اقبال کی فکر کسی واضح فکری نظام کے تابع نہیں بلکہ ایک خطیبانہ وجدانی سیال ہے جسے ہر کوئی اپنی مرضی کی بوتل میں انڈیل کر بیچنے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ہر چند سال بعد اس فکری مروڑ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور قوم بے چاری اپنی جگہ وہیں کھڑی رہتی ہے۔ بس ہر بار نیا خطیب آتا ہے، نئی تقریر ہوتی ہے اور ہم سب سر ہلا کر ایک نیا اقبال دریافت کرنے نکل پڑتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اقبال کو فلسفی نہ ماننے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی فکر کی کوئی وقعت نہیں؟ بالکل نہیں! اقبال کی حیثیت ایک عظیم مفکر اور شاعر کی ہے، جو مسلم دنیا کے فکری بحران کا شدت سے ادراک رکھتے تھے۔ مگر انہیں زبردستی سقراط یا ہیگل کے برابر کھڑا کرنا ایسا ہی ہے جیسے غالب کو ملٹن کے برابر ثابت کرنے پر زور دیا جائے۔ عظمت کا فیصلہ اس کے اصل تناظر میں ہونا چاہیے، نہ کہ جذباتیت کی بنیاد پر۔
اب اگر کوئی کہے کہ "ہم نے اقبال کو نہیں سمجھا”، تو اس سے بس ایک سوال کر لیجیے: "کیا پچھلی نسلوں نے بھی یہی نہیں کہا تھا؟ اور کیا اگلی نسل بھی یہی نہیں کہے گی؟”
نوٹ: لکھاریوں کےذاتی خیالات سے”قلم کلب”کامتفق ہوناضروری نہیں ہے۔