اقوامِ متحدہ نے اسرائیل کے ایک متنازع قانون پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے جس کے تحت 12 سال کے بچوں کو بھی عمر قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ عرب ذرائع ابلاغ کے مطابق، اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق ماہرین نے اس قانون کو اقوامِ متحدہ کے "بچوں کے حقوق کے کنونشن” کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے، جس پر اسرائیل نے 1991 میں دستخط کیے تھے۔
رپورٹس کے مطابق نومبر 2024 میں اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) نے انسدادِ دہشتگردی قانون میں ایک ترمیم منظور کی، جس کے بعد اگر کوئی 12 سالہ بچہ کسی ایسے جرم میں ملوث پایا جائے جو دہشتگردی کے زمرے میں آتا ہو، جیسے کہ قتل یا اقدامِ قتل، تو اسے تاحیات قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ، ایک نیا قانون اسرائیلی حکومت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ ایسے بچوں کی مالی امداد بھی بند کر دے جن پر دہشتگردی سے متعلق الزامات ہوں۔ انسانی حقوق کے ماہرین نے ان قوانین کو فلسطینی بچوں کے خلاف واضح امتیازی رویہ قرار دیا ہے، خاص طور پر اس لیے کہ مغربی کنارے میں پہلے ہی اسرائیلی فوجی قوانین کے تحت 12 سالہ فلسطینی بچوں کو قید میں ڈالا جا رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے عالمی اصولوں اور بچوں کے تحفظ کے بین الاقوامی ضابطوں کا احترام کرے، اور ان متنازع قوانین پر فوری نظرِثانی کرے۔