واشنگٹن (انٹرنیشنل نیوز)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک حکم نامے پر دستخط کیے جس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد آزادی اظہار کو بحال اور سنسر شپ کو ختم کرنا ہے۔
اس پر ناقدین ان کے ماضی کے اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تنقید کر رہے ہیں جب وہ صحافیوں، ناقدین اور سیاسی مخالفین کو دھمکاتے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کرتے تھے۔میڈیارپورٹس کے مطابق ٹرمپ اور ان کے ریپبلکن اتحادیوں نے سابق ڈیموکریٹک صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ پر آن لائن پلیٹ فارمز پر آزادی اظہار کو دبانے کی حوصلہ افزائی کا الزام لگایا ہے۔
البتہ سابقہ انتظامیہ کے خلاف کئی الزامات کا تعلق ویکسین اور انتخابات کے بارے میں جھوٹے دعووں کے خلاف حکومتی کوششوں سے ہے۔امریکی سپریم کورٹ نے جون میں فیصلہ دیا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ کے سوشل میڈیا کمپنیوں کے ساتھ روابط سے آزادی اظہار کے بارے میں امریکہ کی پہلی ترمیم کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ٹرمپ کو خود سوشل میڈیا کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا جب 2020 کے انتخابات میں بائیڈن سے شکست کے بعد چھے جنوری 2021 کو ان کے حامیوں نے امریکی کیپیٹل پر حملہ کیا تھا۔
تاہم ٹرمپ نے کئی عشروں تک ناقدین کو اپنے بارے میں تبصروں پر دھمکیاں دیں اور مقدمات دائر کیے ہیں۔ 2022 میں انہوں نے اپنی سابق صدارتی حریف ہلیری کلنٹن کے خلاف ایک ناکام مقدمہ دائر کیا تھا۔ انہوں نے ٹرمپ کی مہم کے روس سے روابط کے بارے میں تبصرے کیے تھے۔ کیس کو باہر پھینک دینے والے جج نے اسے عدالتوں کا غلط استعمال قرار دیا۔
ٹرمپ نے صحافیوں کو بھی عوام دشمن کہا ہے اور پانچ میڈیا کمپنیوں پر مقدمہ دائر کیا ہے جن میں سی این این، اے بی سی نیوز، سی بی ایس نیوز، پبلشر سائمن اینڈ شوسٹر اور ڈیس موئنز رجسٹر شامل ہیں۔ سی این این کا مقدمہ خارج کر دیا گیا، اے بی سی سے معاملات طے پا گئے اور دیگر مقدمات جاری ہیں۔یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، اروائن کے پروفیسر ڈیوڈ کائے نے کہا کہ اپنے شہریوں کے پہلی ترمیم کے حقوق میں مداخلت کرنے سے وفاقی حکومت کو پہلے ہی روک دیا گیا ہے اس لیے اس حکم سے ایسا رویہ نہیں رکے گا جو پہلے ہی ممنوع ہے۔انہوں نے اس حکم کو تعلقاتِ عامہ کی گہری مذموم مشق کے طور پر تنقید کا نشانہ بنایا۔
وائٹ ہائوس نے ٹرمپ کے صدارت سنبھالنے کے بعد کہا: گذشتہ چار سالوں کے دوران سابقہ انتظامیہ نے آن لائن پلیٹ فارمز پر امریکیوں کی تقریر سنسر کرکے، اکثر تیسرے فریق مثلا سوشل میڈیا کمپنیوں پر کافی زبردستی دبا ڈال کر آزادانہ تقریر کے حقوق کو پامال کیا۔ اس طرح تقریر کو ڈی پلیٹ فارم کیا یا بصورتِ دیگر دبایا جو وفاقی حکومت کی مرضی کے خلاف ہوتی تھی۔
آزاد تقریر کے مسائل پر اقوام متحدہ کے سابق خصوصی نمائندہ کائے نے کہاکہ آپ ایک طرف یہ نہیں کہہ سکتے کہ ‘میڈیا لوگوں کا دشمن ہے’ اور ساتھ ہی یہ بھی کہیں: ‘امریکی عوام کے آئینی طور پر تحفظ شدہ تقریر کرنے کے حق کو محفوظ بنانے کے لیے یہ امریکہ کی پالیسی ہے’۔ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتیں۔