ڈاکٹر عزیر سرویا
پچھلے دنوں لاہور ٹھوکر نیاز بیگ کے پاس ایک بھائی صاحب گزرگاہ پر نامناسب حرکات کرتے پائے گئے، سوشل میڈیا پر مشہور ہوئے اور آخرکار پولیس کی جانب سے گرفتار کر لیے گئے۔
اس خبر پر ہمارے لوکل دیسی لبرل دانشوروں نے اپنا وہی پرانا گھسا پِٹا منجن پھر بیچنا چاہا کہ “چونکہ پاکستان میں نوجوانان کے پاس جنسی آزادی نہیں جس کی وجہ سے شدید گُھٹن اور فرسٹریشن پائی جاتی ہے، اس لیے یہاں ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ مغربی طرز کی جنسی آزادی دے دی جائے”۔
یہ بات تقریباً ہر اس جنسی جرم کی خبر پر دہرائی جاتی ہے جس کا میڈیا پر چرچا ہو جائے۔ اسے اتنی بار دہرایا جا چکا ہے کہ اچھے بھلے معقول لوگ بھی اس پر “یقین” رکھتے ہیں۔ ایک سائنسی ذہن معاشرتی امراض کی درست تشخیص اور علاج “اندھے یقین” اور “فلسفیانہ تجزیے” سے نہیں بلکہ سائنسی تحقیق اور اعداد و شمار کی روشنی میں کرتا ہے۔ آئیے کچھ اعداد وشمار اس ضمن میں دیکھتے ہیں۔
پانچ سال قبل Stop Street Harassment نامی این جی او کی جانب سے اٹھارہ سے پچیس سال تک کی لڑکیوں پر سروے میں پتا چلا کہ برطانیہ میں پچاسی فیصد %85 جبکہ امریکا میں ستاسی فیصد %87 لڑکیوں کو پبلک پلیس پر چھیڑا گیا۔ پاکستان میں یہ شرح نوے فیصد سے بھی اوپر تھی۔ پھر بچوں پر بات کر لیں تو کونسل آف یورپ کے آفیشل اعداد و شمار کے مطابق یورپ کا ہر پانچواں بچہ زندگی میں جنسی درندگی کا شکار ہوتا ہے۔ امریکہ کے مشہورِ زمانہ CDC سنٹر فار ڈیزاِیز کنٹرول کے آفیشل اعداد و شمار کہتے ہیں کہ ہر پانچویں امریکی خاتون اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار ریپ ہوئی ہے۔ جبکہ قریباً پینتالیس فیصد کسی نہ کسی طرح کے جنسی تشدد کا براہ راست شکار رہیں۔ اقوام متحدہ کی تحقیق کے مطابق مغرب کی ہر تیسری خاتون کو یونیورسٹی میں جنسی ہراسگی کا سامنا ہے۔ یہ سب تو چلیں اپنی جگہ ہیں، متعدد ریسرچ آرٹیکلز کے نتائج کے مطابق مغرب میں جنسی آزادی کی تحریک (ساٹھ کی دہائی سے شروع ہونے والی) سے اب تک جنسی جرائم میں نسبتاً کمی واقع ہونے کی بجائے بڑھوتری کا رجحان ہے (نظام عدل کی بہتری کے سبب جرائم رپورٹ کرنے کی شرح میں بالعموم اضافہ تو ہوا ہی ہے لیکن یہ جنسی جرائم میں اضافہ فقط جرائم کی رپورٹنگ بڑھنے سے منسلک نہیں بلکہ قطعی absolute terms میں اضافہ ہے)۔
ہم مان لیتے ہیں کہ پاکستان میں چونکہ پولیس اور عدلیہ کا نظام انتہائی پھٹیچر ہے اور اس کے ساتھ ساتھ غیرت و عزت کے کانسیپٹ کی وجہ سے بہت سارے جنسی جرائم سِرے سے رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ بلکہ جو جرائم رپورٹ ہو بھی جائیں ان پر بھی کوئی سزا نہیں ہوتی جس کی وجہ سے جرم پنپتا ہے۔ مان لیا کہ پاکستان میں جنسی فرسٹریشن عروج پر ہے اور شدید گھٹن بھی پائی جاتی ہے۔
لیکن اگر ہم اپنے لوکل لبرل و نیم لبرل دانشوروں کی مان لیں کہ جنسی آزادی ایسی گیدڑ سنگھی ہے جو گوروں کے ہاتھ آنے سے سب اچھا ہو چکا ہے یا بتدریج ہوتا جا رہا ہے تو ان اعداد و شمار کو کس گڑھے میں دبائیں گے؟ پھر اوپر جس دلیل سے انہوں نے ثابت کیا ہے کہ پاکستان میں جنسی جرائم کمزور نظام عدل کی وجہ سے کم رپورٹ ہوتے ہیں جبکہ اصل میں شرح بہت زیادہ ہے اسی دلیل کو ذرا ریورس کر کے آپ مغرب کے اعداد و شمار کو دیکھیں تو آنکھیں مزید کھل جائیں گی: مغرب کا ایسا موثر و مربوط نظام عدل (کہ جہاں مجرم فوری پکڑا بھی جاتا ہے اور انصاف ملنے سے جرم کی حوصلہ شکنی بھی ہوتی ہے)، اتنا سرگرم و آزاد میڈیا، اتنے جنسی طور پر آزاد اور “گھٹن” سے پاک افراد، اگر اس سب کے باوجود وہاں یہ حال ہے جرائم کا اور بڑھتی شرح کا تو ذرا سوچیے اگر نظام عدل وہاں پاکستان جیسا ہوتا تو یہ شرح کہاں ہوتی؟
دراصل مسائل مشرق و مغرب دونوں جگہ ہی ہیں۔ ان کے ہاں قانون کی حکمرانی ہے اور نظام عدل انتہائی ایفی شینٹ ہے، نیز لوگوں میں civic sense تمدنی شعور یہاں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس لیے ادھر ہر قسم کے جرائم کی شرح یہاں سے کم ہے اور رہنے کے لیے وہ موزوں ممالک سمجھے جاتے ہیں۔ جنسی گھٹن جو ہمارے معاشرے کا مسئلہ ہے اگر تنہا اسی نے جنسی جرائم کو جنم دیا ہوتا تو مغرب میں یہ سب ختم ہو گئے ہوتے۔ مگر لوگ ادھر بھی پبلک پلیسز پر نامناسب حرکات کرتے پائے جاتے ہیں، لڑکیاں بھی چھیڑتے ہیں اور زیادتیاں بھی کرتے ہیں۔ جنسی آزادی نے مسائل کو کم نہیں کیا بلکہ شاید چند نئے اپنے ہی مسائل کو جنم دیا ہے جن کا سدباب کرنے کی گورے خود بھی فکر میں لگے ہیں۔ بلکہ اسی ضمن میں وہاں اب بہت سی آوازیں کھلے اختلاط (free mixing) پر قدغنیں لگانے کے حق میں بھی بلند ہو رہی ہیں۔
مگر سلام ہے ہمارے دانشوروں کو۔ یہ صرف لنڈے سے گوروں کے استعمال شدہ کپڑے اور مارکیٹوں سے ان کی استعمال شدہ مصنوعات ہی نہیں ان کے سارے اچھے و برے نظریات بھی اپنانے کے حامی ہیں۔ ذہنی غلامی ایسی ہی ہوتی ہے کہ جس چیز کو وہ خود کہہ رہے ہیں کہ یہ کوئی مسئلے کا حل نہیں ہے یہ لوگ اس کو نسخہ کیماء بتا کر یہاں اس کی مارکیٹنگ کر رہے ہیں۔
اصل حل وہی ہے جو انسانوں کے بنانے والے نے دیا ہے۔ کبھی مادر پدر جنسی آزادی کا تجربہ کریں، اور کبھی ہندوانہ کلچر (جو ہمارے یہاں اسلام کے نام پر رائج ہے) کے دفاع میں ہلکان ہو کر مسائل کا انکار کریں، دونوں منفی ذہنیت کی علامت ہیں۔ اگر آپ کی اپنی عقل سے چیزیں ٹھیک ہونی ہوتیں تو جتنے تجربات کر کے آپ دیکھ چکے ہیں اور جو مزید دیوار میں سر مارے جا رہے ہیں تو کچھ نہ کچھ نتائج برآمد ہو چکے ہوتے۔ مسائل کا حل صرف وہی نظام ہو سکتا ہے جو سب سے متوازن ہو، اور ایسا نظام بس وہی دے سکتا ہے جو العلیم و الحکیم ہو
نوٹ:قلم کلب ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔