• Qalam Club English
  • ہمارے ساتھ شامل ہوں
  • ہم سے رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
بدھ, 27 ستمبر, 2023
Qalam Club
  • صفحۂ اول
  • پاکستان
  • انٹرنیشنل
    • چائنہ کی خبریں
  • ہماری خبر
  • کرائم اینڈ کورٹس
  • تقرروتبادلے
  • شوبز
  • وی لاگ/ ویڈیوز
    • دلچسپ و عجیب
    • سائنس اور ٹیکنالوجی
    • صحت و تعلیم
  • کھیل
  • تبصرہ / تجزیہ
  • نوکریاں / انٹرویو
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • پاکستان
  • انٹرنیشنل
    • چائنہ کی خبریں
  • ہماری خبر
  • کرائم اینڈ کورٹس
  • تقرروتبادلے
  • شوبز
  • وی لاگ/ ویڈیوز
    • دلچسپ و عجیب
    • سائنس اور ٹیکنالوجی
    • صحت و تعلیم
  • کھیل
  • تبصرہ / تجزیہ
  • نوکریاں / انٹرویو
No Result
View All Result
Qalam Club
No Result
View All Result
Home تبصرہ / تجزیہ

”جنسی آزادی” جنسی مسائل کا حل یا وجہ ؟ ڈاکٹر عزیر سرویا

برطانیہ میں پچاسی فیصد جبکہ امریکا میں ستاسی فیصد لڑکیوں کو پبلک پلیس پر چھیڑا گیا

News Editor by News Editor
اگست 4, 2019
in تبصرہ / تجزیہ
0 0
0

 ڈاکٹر عزیر سرویا

 

پچھلے دنوں لاہور ٹھوکر نیاز بیگ کے پاس ایک بھائی صاحب گزرگاہ پر نامناسب حرکات کرتے پائے گئے، سوشل میڈیا پر مشہور ہوئے اور آخرکار پولیس کی جانب سے گرفتار کر لیے گئے۔

اس خبر پر ہمارے لوکل دیسی لبرل دانشوروں نے اپنا وہی پرانا گھسا پِٹا منجن پھر بیچنا چاہا کہ “چونکہ پاکستان میں نوجوانان کے پاس جنسی آزادی نہیں جس کی وجہ سے شدید گُھٹن اور فرسٹریشن پائی جاتی ہے، اس لیے یہاں ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ مغربی طرز کی جنسی آزادی دے دی جائے”۔

یہ بات تقریباً ہر اس جنسی جرم کی خبر پر دہرائی جاتی ہے جس کا میڈیا پر چرچا ہو جائے۔ اسے اتنی بار دہرایا جا چکا ہے کہ اچھے بھلے معقول لوگ بھی اس پر “یقین” رکھتے ہیں۔ ایک سائنسی ذہن معاشرتی امراض کی درست تشخیص اور علاج “اندھے یقین” اور “فلسفیانہ تجزیے” سے نہیں بلکہ سائنسی تحقیق اور اعداد و شمار کی روشنی میں کرتا ہے۔ آئیے کچھ اعداد وشمار اس ضمن میں دیکھتے ہیں۔

پانچ سال قبل Stop Street Harassment نامی این جی او کی جانب سے اٹھارہ سے پچیس سال تک کی لڑکیوں پر سروے میں پتا چلا کہ برطانیہ میں پچاسی فیصد %85 جبکہ امریکا میں ستاسی فیصد %87 لڑکیوں کو پبلک پلیس پر چھیڑا گیا۔ پاکستان میں یہ شرح نوے فیصد سے بھی اوپر تھی۔ پھر بچوں پر بات کر لیں تو کونسل آف یورپ کے آفیشل اعداد و شمار کے مطابق یورپ کا ہر پانچواں بچہ زندگی میں جنسی درندگی کا شکار ہوتا ہے۔ امریکہ کے مشہورِ زمانہ CDC سنٹر فار ڈیزاِیز کنٹرول کے آفیشل اعداد و شمار کہتے ہیں کہ ہر پانچویں امریکی خاتون اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار ریپ ہوئی ہے۔ جبکہ قریباً پینتالیس فیصد کسی نہ کسی طرح کے جنسی تشدد کا براہ راست شکار رہیں۔ اقوام متحدہ کی تحقیق کے مطابق مغرب کی ہر تیسری خاتون کو یونیورسٹی میں جنسی ہراسگی کا سامنا ہے۔ یہ سب تو چلیں اپنی جگہ ہیں، متعدد ریسرچ آرٹیکلز کے نتائج کے مطابق مغرب میں جنسی آزادی کی تحریک (ساٹھ کی دہائی سے شروع ہونے والی) سے اب تک جنسی جرائم میں نسبتاً کمی واقع ہونے کی بجائے بڑھوتری کا رجحان ہے (نظام عدل کی بہتری کے سبب جرائم رپورٹ کرنے کی شرح میں بالعموم اضافہ تو ہوا ہی ہے لیکن یہ جنسی جرائم میں اضافہ فقط جرائم کی رپورٹنگ بڑھنے سے منسلک نہیں بلکہ قطعی absolute terms میں اضافہ ہے)۔

ہم مان لیتے ہیں کہ پاکستان میں چونکہ پولیس اور عدلیہ کا نظام انتہائی پھٹیچر ہے اور اس کے ساتھ ساتھ غیرت و عزت کے کانسیپٹ کی وجہ سے بہت سارے جنسی جرائم سِرے سے رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ بلکہ جو جرائم رپورٹ ہو بھی جائیں ان پر بھی کوئی سزا نہیں ہوتی جس کی وجہ سے جرم پنپتا ہے۔ مان لیا کہ پاکستان میں جنسی فرسٹریشن عروج پر ہے اور شدید گھٹن بھی پائی جاتی ہے۔

لیکن اگر ہم اپنے لوکل لبرل و نیم لبرل دانشوروں کی مان لیں کہ جنسی آزادی ایسی گیدڑ سنگھی ہے جو گوروں کے ہاتھ آنے سے سب اچھا ہو چکا ہے یا بتدریج ہوتا جا رہا ہے تو ان اعداد و شمار کو کس گڑھے میں دبائیں گے؟ پھر اوپر جس دلیل سے انہوں نے ثابت کیا ہے کہ پاکستان میں جنسی جرائم کمزور نظام عدل کی وجہ سے کم رپورٹ ہوتے ہیں جبکہ اصل میں شرح بہت زیادہ ہے اسی دلیل کو ذرا ریورس کر کے آپ مغرب کے اعداد و شمار کو دیکھیں تو آنکھیں مزید کھل جائیں گی: مغرب کا ایسا موثر و مربوط نظام عدل (کہ جہاں مجرم فوری پکڑا بھی جاتا ہے اور انصاف ملنے سے جرم کی حوصلہ شکنی بھی ہوتی ہے)، اتنا سرگرم و آزاد میڈیا، اتنے جنسی طور پر آزاد اور “گھٹن” سے پاک افراد، اگر اس سب کے باوجود وہاں یہ حال ہے جرائم کا اور بڑھتی شرح کا تو ذرا سوچیے اگر نظام عدل وہاں پاکستان جیسا ہوتا تو یہ شرح کہاں ہوتی؟

دراصل مسائل مشرق و مغرب دونوں جگہ ہی ہیں۔ ان کے ہاں قانون کی حکمرانی ہے اور نظام عدل انتہائی ایفی شینٹ ہے، نیز لوگوں میں civic sense تمدنی شعور یہاں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس لیے ادھر ہر قسم کے جرائم کی شرح یہاں سے کم ہے اور رہنے کے لیے وہ موزوں ممالک سمجھے جاتے ہیں۔ جنسی گھٹن جو ہمارے معاشرے کا مسئلہ ہے اگر تنہا اسی نے جنسی جرائم کو جنم دیا ہوتا تو مغرب میں یہ سب ختم ہو گئے ہوتے۔ مگر لوگ ادھر بھی پبلک پلیسز پر نامناسب حرکات کرتے پائے جاتے ہیں، لڑکیاں بھی چھیڑتے ہیں اور زیادتیاں بھی کرتے ہیں۔ جنسی آزادی نے مسائل کو کم نہیں کیا بلکہ شاید چند نئے اپنے ہی مسائل کو جنم دیا ہے جن کا سدباب کرنے کی گورے خود بھی فکر میں لگے ہیں۔ بلکہ اسی ضمن میں وہاں اب بہت سی آوازیں کھلے اختلاط (free mixing) پر قدغنیں لگانے کے حق میں بھی بلند ہو رہی ہیں۔

مگر سلام ہے ہمارے دانشوروں کو۔ یہ صرف لنڈے سے گوروں کے استعمال شدہ کپڑے اور مارکیٹوں سے ان کی استعمال شدہ مصنوعات ہی نہیں ان کے سارے اچھے و برے نظریات بھی اپنانے کے حامی ہیں۔ ذہنی غلامی ایسی ہی ہوتی ہے کہ جس چیز کو وہ خود کہہ رہے ہیں کہ یہ کوئی مسئلے کا حل نہیں ہے یہ لوگ اس کو نسخہ کیماء بتا کر یہاں اس کی مارکیٹنگ کر رہے ہیں۔

اصل حل وہی ہے جو انسانوں کے بنانے والے نے دیا ہے۔ کبھی مادر پدر جنسی آزادی کا تجربہ کریں، اور کبھی ہندوانہ کلچر (جو ہمارے یہاں اسلام کے نام پر رائج ہے) کے دفاع میں ہلکان ہو کر مسائل کا انکار کریں، دونوں منفی ذہنیت کی علامت ہیں۔ اگر آپ کی اپنی عقل سے چیزیں ٹھیک ہونی ہوتیں تو جتنے تجربات کر کے آپ دیکھ چکے ہیں اور جو مزید دیوار میں سر مارے جا رہے ہیں تو کچھ نہ کچھ نتائج برآمد ہو چکے ہوتے۔ مسائل کا حل صرف وہی نظام ہو سکتا ہے جو سب سے متوازن ہو، اور ایسا نظام بس وہی دے سکتا ہے جو العلیم و الحکیم ہو

 

نوٹ:قلم کلب ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Share this:

  • Click to share on Twitter (Opens in new window)
  • Click to share on Facebook (Opens in new window)
  • Click to share on WhatsApp (Opens in new window)

Related


Tags: global phenomenonmasturbation at public placePublic place harassmentsexual harassment
Previous Post

طاقت کے ذریعے کامیابی ممکن نہیں، عمران اللہ مشعل

Next Post

مقبوضہ جموں کشمیر، کیا ہونے جارہا ہے؟ ڈاکٹرمشتاق احمد

News Editor

News Editor

Next Post

مقبوضہ جموں کشمیر، کیا ہونے جارہا ہے؟ ڈاکٹرمشتاق احمد

Please login to join discussion

تازہ خبریں

کرپشن و بد دیانتی کے خاتمے سے متعلق آگاہی کیلئے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف نیورو سائنسز میں سیمینار

ستمبر 26, 2023
آشوب چشم

آشوب چشم کے مرض میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا، ماہرین کے مطابق آنکھوں کا انفیکشن مزید ایک ماہ تک رہنے کا امکان

ستمبر 26, 2023
وفاقی وزیر اطلاعات

اوگراپٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سے متعلق قیاس آرائیوں کا حصہ نہیں، وفاقی وزیر اطلاعات

ستمبر 26, 2023
  • Trending
  • Comments
  • Latest

ایف آئی اے میں بھرتیوں کا اعلان

مئی 11, 2020

سی ٹی ڈی پنجاب میں نوکری حاصل کریں،آخری تاریخ 18 اپریل

اپریل 17, 2020

پنجاب پولیس میں 318 انسپکٹر لیگل کی سیٹوں کا اعلان کردیا گیا

اپریل 19, 2020

حسا س ادارے کی کاروائی، اسلام آباد میں متنازعہ بینرزلگانے والے ملزمان گرفتار

اگست 7, 2019
APP93-30
NEW YORK: August 30 - Pakistan’s Ambassador, Dr. Maleeha Lodhi speaking at the debate on UN Peacekeeping Operations. APP

پاکستان نے اقوام متحدہ میں نفرت انگیز بیانات کے خلاف 6 نکات پیش کردیے

2

کرپشن و بد دیانتی کے خاتمے سے متعلق آگاہی کیلئے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف نیورو سائنسز میں سیمینار

0

أونشارتد: أحدث العروض التوضيحية المفقودة تراث عرض الكنز الصيد ديو في المزامنة

0

مشاهدة جوستين تيمبرليك ‘صرخة لي نهر’ تعال إلى الحياة في الرقص مليء بالجمال

0

کرپشن و بد دیانتی کے خاتمے سے متعلق آگاہی کیلئے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف نیورو سائنسز میں سیمینار

ستمبر 26, 2023
آشوب چشم

آشوب چشم کے مرض میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا، ماہرین کے مطابق آنکھوں کا انفیکشن مزید ایک ماہ تک رہنے کا امکان

ستمبر 26, 2023
وفاقی وزیر اطلاعات

اوگراپٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سے متعلق قیاس آرائیوں کا حصہ نہیں، وفاقی وزیر اطلاعات

ستمبر 26, 2023
رانا تنویر حسین

ثاقب نثار اور عمر عطا بندیال کے آئینی فیصلوں نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ھے، رانا تنویر حسین

ستمبر 26, 2023
Qalam Club

دورجدید میں سوشل میڈیاایک بااعتباراورقابل بھروسہ پلیٹ فارم کے طورپراپنی مستحکم جگہ بنا چکا ہے۔ مگر افسوس کہ چند افراد ذاتی مقاصد کےلیےجھوٹی، بےبنیاد یاچوری شدہ خبریں پوسٹ کرکےاس کا غلط استعمال کررہے ہیں۔ ایسےعناصر کےخلاف جہاد کےطورپر" قلم کلب" کا آغازکیاجارہاہے۔ یہ ادارہ باصلاحیت اورتجربہ کارصحافیوں کاواحد پلیٹ فارم ہےجہاں مصدقہ خبریں، بے لاگ تبصرے اوربامعنی مضامین انتہائی نیک نیتی کےساتھ شائع کیے جاتے ہیں۔ ہمارے دروازےان تمام غیرجانبداردوستوں کےلیےکھلےہیں جوحقائق کومنظرعام پرلا کرمعاشرے میں سدھارلانا چاہتے ہیں۔

نوٹ: لکھاریوں کےذاتی خیالات سے"قلم کلب"کامتفق ہوناضروری نہیں ہے۔

  • ہمارے ساتھ شامل ہوں
  • ہمارے بارے میں
  • ہم سے رابطہ کریں
  • رازداری کی پالیسی
  • شرائط و ضوابط
  • ضابطہ اخلاق

QALAM CLUB © 2019 - Reproduction of the website's content without express written permission from "Qalam Club" is strictly prohibited

قلم کلب © 2019 - تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں.

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • پاکستان
  • انٹرنیشنل
    • چائنہ کی خبریں
  • ہماری خبر
  • کرائم اینڈ کورٹس
  • تقرروتبادلے
  • شوبز
  • وی لاگ/ ویڈیوز
    • دلچسپ و عجیب
    • سائنس اور ٹیکنالوجی
    • صحت و تعلیم
  • کھیل
  • تبصرہ / تجزیہ
  • نوکریاں / انٹرویو

قلم کلب © 2019 - تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں.

Login to your account below

Forgotten Password?

Fill the forms bellow to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
 

Loading Comments...
 

You must be logged in to post a comment.