محمد احمد
نظریات بھی کوئی شے ہوتے ہیں،جس انسان کا کوئی نظریہ،فکر اور سوچ نہیں وہ ایک ناکام اور ناکارہ انسان سمجھا جاتا ہے۔ ذی شعور انسان اور تعلیم یافتہ معاشرے کی علامت یہ ہے کہ اس کے افراد ایک نظریہ اور سوچ رکھتے ہوں،یہی انکی بیداری اور سجاگی کی دلیل ہے۔ لیکن کجھ انسان لکیر کے فقیر ہوتے ہیں، اپنی سوچ اور فکر نہیں،دوسروں کی اندھی تقلید کرتے ہیں۔ ایسے افراد کا مجموعہ بیکار،سست اور غافل معاشرہ کہلاتی ہے۔ ان کی ترقی اور کامیابی کی راہیں مسدود اور محدود ہوجاتی ہیں۔بس ان پر لیڈر کا جادو چلتا ہے،وہ ایک نعرے کے پیچھے دوڑتے ہیں، صدیاں گذر جاتی ہیں لیکن انکا ضمیر نہیں جاگتا، وجہ یہ ہے وہ عقل کی نعمت کو درست استعمال نہیں کرتے،سرسبز نعروں اور بلند وبانگ دعووں میں انکو صداقت نظر آنے لگتی ہے
حالانکہ انسان کا لاشعور بھی اسکا پتہ دیتا ہے کہ اس چیز میں مصنوعی رنگ بھرا ہے اور یہ قیادت بتکلف عوام کو الو بنانے میں مصروف ہے۔ لیکن جب کسی کی عقل پر پردے پڑ جائیں تو اسکی چھٹی حس بھی اس کو بیدار نہیں کرسکتی، اس کا لاشعور بھی جواب دے دیتا ہے۔ آپ ترقی یافتہ معاشروں اور ترقی پذیر ممالک کا جائزہ لیں تو بینادی فرق اور کامیابی وکامرانی کا راز قوم کی بیداری ہے۔ یہ بیداری، سجاگی، سوچ، فکر اور نظریہ نری تعلیم سے نہیں پیدا ہوتا بلکہ اس کے لیئے مربی، مرشد اور رہنما کی ضرورت ہوتی ہے جو راہ راست دکھائے اور اس رستے چلنے پر آمادہ کرے۔ تعلیم کی کمی تو کہیں نہیں، فقدان ہے تو تربیت کا ہے، جس کی وجہ سے نری تعلیم کوئی فائدہ نہیں دے رہی ہے۔ ہر طرف اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، مدارس اور جامعات کا جال بچھا ہوا ہے۔ اربوں روپے کا بجٹ اور سالانہ لاکھوں کی تعداد میں افراد فارغ ہورہے ہیں۔ لیکن معاشرے اور سوسائٹی میں بہتری کے کوئی اثرات نظر نہیں آرہے بلکہ یہاں گنگا الٹی بہہ رہی ہے، بجائے فائدے کے نقصان ہورہا ہے۔ عوام کو سدھارنے والے خود بگڑےجاتے ہیں۔
وطن عزیز کی مثال دیکھ لیجیئے،یہ ملک بہتر سال گذرنے کے باوجود ترقی نہیں کرسکا، کسی ملک کی ترقی اور کامیابی کے لیئے یہ بہت بڑا عرصہ ہے۔ ہمارے پڑوس میں مثالیں موجود ہیں جنہوں نے آزادی کی نعمت اور دولت ہم سے بعد میں حاصل کی لیکن ان کی سجاگی اور سچائی نے آج ان کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں کھڑا کیا ہوا ہے۔ جبکہ ہمارے حالات روز بروز ابتر ہوتے جارہے ہیں، دنیا آگے جارہی ہے اور ہم پیچھے کی طرف سفر کررہے ہیں۔ ملک اندرونی مسائل اور بیرونی خلفشار کا شکار ہے، امن امان کی صورتحال اطمینان بخش نہیں، مہنگائی کا طوفان، تعلیم کا بحران،صحت کا فقدان ہے۔ یہاں لوگوں کو ضروریات زندگی میسر نہیں، تقریبا آدھی آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے، لوگ بنیادی سہولتوں پانی، بجلی اور تعلیم سے محروم ہیں۔ گڈگورننس کا برا حال ہوچکا ہے، میرٹ کا جنازہ نکل چکا ہے۔ کرپشن نے ملک کی جڑیں کھوکھلی کردی ہیں۔ بیرونی قرضوں کا حجم بڑھتا جارہا ہے۔ اس کے باوجود حکمران عیاشی اور شاہانہ زندگی گذرانے پر فخر محسوس کررہے ہیں، ان کی شاہ خرچیوں اور بے جا بیرونی اسفار میں کمی نہیں آرہی ہے۔ وزراء کی فوج ظفر موج قوم پر مسلط ہے۔
سب سے بڑی بات قیادت کا فقدان ہے، باصلاحیت لیڈر شپ نایاب ہے۔ یہاں سیاسی پارٹیاں عوام، ملک وملت کے مفادات بجائے اپنی ذاتی مفادات میں الجھی ہوئی ہیں۔ حکمرانوں نے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر مقدم رکھا ہوا ہے۔ ان سارے سوالوں کا جواب مشکل نہیں، ہرایک جانتا ہے کہ ہماری ناکامی کی وجہ بس ایک ہے، ہماری قوم جذباتی ہے اور نظریات سے عاری ،فکر سے خالی ہے۔ ان سے شعور کی دولت چھین لی گئی ہے،انکے ذہن مفلوج اور دماغ ماؤف ہوچکے ہیں۔ یہ بیچاری ستر سال سے سرسبز نعروں کے پیچھے سفر کررہی ہے اور بے رحم قیادت کے رحم وکرم پر ہے۔ کبھی روٹی کپڑا اور مکان، تو کبھی احتساب کے چکر میں اور کبھی اسلام کے نام پر انہوں نے بارہا ملک کی باگ دوڑ نااہلوں کے سپرد کی ہے۔ برسر اقتدار جماعتوں نے کبھی ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے سنجیدہ اقدامات نہیں کیئے اور سیاسی پارٹیوں نے کبھی اپنے ورکروں کی نظریاتی تربیت کی فکر نہیں کی، جسکا نتیجہ ہمیں اس صورت میں مل رہا ہے کہ ایک نااہل جاتا ہے تو دوسرا اس سے کہیں درجہ بڑھ کر نااہل مسند اقتدار پر براجمان ہوجاتا ہے۔ اس میں قصور وار کوئی ایک پارٹی اور جماعت نہیں بلکہ ہر ادارہ،ہر مسلک ،ہر مکتبہ فکر اور ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اس کے ذمہ دار اور مجرم ہیں۔علماء، وکلاء، اساتذہ، خطیب، صحافی، جج، جرنیل اور دانشور سب برابر کے شریک ہیں۔ جنہوں نے قوم کو بیداری اور سجاگی کا سبق نہیں پڑھایا، جسکے نتیجے میں قوم بہتر سالوں سے بدترین ذہنی غلامی کی زندگی گذار رہی ہے۔
بس اب وقت ہوا چاہتا ہے کہ قوم کو اس یوم استقلال کے موقعہ پر قائدین کی روحوں کو راحت پہنچانے کے واسطے ، آئین پاکستان سے وفاداری اور اپنے فرض منصبی کی لاج رکھتے ہوئے بھلایا ہوا سبق پڑھایا جائے، جس قوم نے انگریز استعمار سے لڑ کر آزادی حاصل کی وہ اب اپنوں کے ہاتھوں ذلیل وخوار ہورہی ہے۔ آمریت اور جمہوریت کی چھتری عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کجھ نہیں کرسکی، ضرورت اس امر کی ہے اب ہم بانیان پاکستان کی خواہشوں اور آئین پاکستان کے مطابق ملک وملت کو تعمیر وترقی کی راہ پر گامزن کریں، ہم اقتدار تک ان لوگوں کو پہنچائیں جو قائدین کے ویژن کو جانتے ہوں اور پاکستان اور اسلام کے ساتھ سچے اور مخلص ہوں۔ جس روز قوم نے یہ فیصلہ کرلیا وہ دن ہماری کامیابی اور خوشحالی کے دن ہونگے۔ان شاء اللہ
نوٹ:قلم کلب ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا کالمسٹ یا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔