تحریر : کاشف جاوید
پاکستان میں محبت ایک عجیب و غریب قسم کا ڈرامہ بن کے رہ گئی ہے جب دو لوگوں کو محبت ہو جائے تو وہ آپس میں رونا دھونا شروع کر دیتے ہیں بجائے اس کے کہ وہ خوش رہے محبت تو خوش رہنے کے لیے ہوتی ہے ابھی تک ہم لوگ میچور نہیں ہوئے پتہ نہیں کب ہوں گے مرنے کے بعد؟ پتہ نہیں ہر عورت کو ضرورت سے زیادہ پیسے چاہیے اس سے انکار نہیں کہ زندگی گزارنے کے لیے پیسہ چاہیے ہوتا ہے اور ہر مرد کو تازہ گوشت چاہیے بیس سے تیس سال والا تو بھائی یہ کیا چیز ہے یہ بیہودگی ہے یہ محبت تو نہیں ہے؟
محبت عجیب چیز ہے جب نئی ہوتی ہے تو دل کی دھڑکن تیز کر دیتی ہے نیندیں اڑا دیتی ہے اور جب پرانی ہو جائے تو ایک بوجھ بن جاتی ہے لوگ محبت کے نام پر جان دینے کو تیار ہو جاتے ہیں لیکن کچھ دہائیاں گزرتے ہی یہی محبت بیزاری میں بدل جاتی ہے یہ سلسلہ بہت عام ہے پہلے پیار ہوتا ہے پھر شادی پھر بچے اور پھر اچانک وہی عورت جس کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں تھا زہر لگنے لگتی ہے وہی ہنسی جو کبھی زندگی کی سب سے خوبصورت آواز تھی اب شور محسوس ہوتی ہے وہی باتیں جو کبھی دل بہلاتی تھیں اب کانٹے بن جاتی ہیں یہ محبت تھی یا محض جسم کی طلب یہ کشمکش کیا ہے یہ محبت کی حقیقت ہے یا محض ایک سماجی دھوکہ
انسانی رشتوں کی اس بے رحمی پر کئی ادب پارے شاہد ہیں دوستوئیفسکی کا "کرائم اینڈ پنشمنٹ” ہمیں دکھاتا ہے کہ کیسے ایک انسان کا ذہنی انتشار اسے ایسی جگہ پہنچا دیتا ہے جہاں احساس جرم اور محبت دونوں بے معنی ہو جاتے ہیں کافکا کے "میٹامورفوسس” میں گریگر سامسا کی تبدیلی محض ایک جسمانی تبدیلی نہیں بلکہ اس حقیقت کی علامت ہے کہ جیسے جیسے انسان کی حیثیت بدلتی ہے اس کے اپنے بھی اسے پرایا سمجھنے لگتے ہیں یہ کہانی صرف سامسا کی نہیں یہ ہر اُس عورت کی کہانی ہے جو وقت کے ساتھ بے وقعت ہو جاتی ہے
اگر اردو ادب کو دیکھیں تو عصمت چغتائی کے کرداروں میں وہ عورت ملتی ہے جو محبت کے سپنے دیکھتی ہے گھر بساتے ہی وہ خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں منٹو کی تحریروں میں وہ محبت بھی ہے جو بازار میں بکتی ہے اور وہ محبت بھی جو دلوں میں دفن ہو جاتی ہے قرۃ العین حیدر کے ہاں محبت وقت کی سنگدلی میں تحلیل ہو جاتی ہے جہاں عورت کسی کی بیوی کسی کی ماں کسی کی بہن تو بن سکتی ہے مگر خود اپنے لیے کوئی مقام نہیں بنا سکتی
روسی ادب میں "اینا کارینینا” کی مثال لیجیے محبت کی جستجو میں وہ کہاں سے کہاں جا پہنچی مگر آخر میں کیا ملا ایک بربادی ایک افسوس یہ کہانیاں صرف ناولوں میں نہیں یہ ہر روز ہمارے ارد گرد دہرائی جاتی ہیں پہلے چاہت کے دعوے پھر قربت پھر شادی پھر لاتعلقی اور آخر میں وہ دن جب محبت کا نام تک لینا گناہ لگنے لگتا ہے
اصل محبت تو چالیس سال کے بعد شروع ہوتی ہے جب چہرے پر جھریاں آ جاتی ہیں بالوں میں چاندی اتر آتی ہے اور جسم ویسا نہیں رہتا جیسا بیس کی دہائی میں تھا اس وقت جو انسان آپ کے ساتھ کھڑا ہے وہی اصل محبت ہے حسن تو جوانی میں سب کے پاس ہوتا ہے مگر جو محبت بڑھاپے میں بھی حسن دیکھ لے جو جھریوں میں بھی رفاقت تلاش کرے وہی سچی محبت ہے یہی وہ محبت ہے جو عارضی نہیں جو وقتی نہیں جو وقت کے ساتھ ختم نہیں ہوتی بلکہ نکھرتی ہے وہی محبت جو ایک صوفی کی دعا اور ایک فنکار کے شاہکار کی طرح امر ہو جاتی ہے
پوسٹ میں ایک تصویر دی گئی ہے ایک فلم ہے وومن ان لو اپ ضرور دیکھیں تاکہ اپ کو تھوڑی سی سمجھ ائے کہ پیار ہوتا کیا ہے میں آپ کو فلم کی تھوڑی سی کہانی بتا دیتا ہوں لیکن آپ یہ فلم ضرور دیکھیں گُڈرون اپنی شناخت کی تلاش میں ہے کسی روایتی بندھن میں قید ہونا نہیں چاہتی جبکہ اُرسُلا محبت کے روایتی تصورات کے ساتھ جینے کی خواہش رکھتی ہے یہ کشمکش ہر دور کی عورت کے اندر کہیں نہ کہیں موجود رہتی ہے چاہے محبت میں ڈوب جانا ہو یا خود کو بچا کر رکھنا سماج کے اصولوں سے سمجھوتہ کرنا ہو یا اپنی راہ خود متعین کرنا یہ کہانی صرف جذبات کی نہیں آزادی اور رشتوں کے بیچ جاری ایک مسلسل جدوجہد کی ہے جو ہر عورت کے لیے کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ موجود رہتی ہے
نوٹ: لکھاریوں کےذاتی خیالات سے”قلم کلب”کامتفق ہوناضروری نہیں ہے۔
htye4y