تحریر : ہراکلیٹس ہراک
8 مارچ آتے ہی کچھ لوگوں کو عجب قسم کا بخار چڑھ جاتا ہے۔ سال بھر جو حضرات "حلال تفریحات” میں مصروف رہتے ہیں، وہ اچانک تہذیب کے چوکیدار بن جاتے ہیں۔ مسجدوں کے اسپیکر بھی ہائی الرٹ پر آ جاتے ہیں، سوشل میڈیا کے دیندار بھی جاگ جاتے ہیں، اور ہر دوسرے کونے سے ایک ہی آواز سنائی دیتی ہے: "یہ بے حیائی ہے!”
اور اس بار تو حد ہی ہو گئی! 8 مارچ پانچویں روزے کو آ رہا ہے، یعنی رمضان کی برکتوں میں غیرت کی ڈوز پہلے سے زیادہ سخت ہوگی۔ ویسے تو ان محترم حضرات کی غیرت سارا سال "بیٹری سیور موڈ” پر رہتی ہے، مگر جوں ہی عورتوں کے حقوق کی بات ہوتی ہے، یکایک فول چارج ہو جاتی ہے۔ اس بار چونکہ روزے کا بھی اثر ہے، تو غصہ بھی ذرا زیادہ مقدس ہوگا، چیخ و پکار میں مزید روحانی جوش نظر آئے گا، اور یقیناً زیادہ فتوے "نازل” ہوں گے۔
یہی لوگ جب سیاستدانوں کی بددیانتی، قبضہ گروپوں کی وارداتوں اور چینی مافیا کی لوٹ مار پر چپ سادھ لیتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ غیرت کی بیٹری صرف عورت مارچ کے دن ہی کیوں چارج ہوتی ہے؟عورت اگر اپنے حق کی بات کرے تو مغربی ایجنڈا، لیکن اگر یہ حق کوئی مولوی، وڈیرہ یا سیٹھ دے تو شریعت کی روشنی میں جائز؟ مطلب، آزادی "دے دی جائے” تو حلال، مگر عورت خود مانگے تو "بغاوت”؟ واہ!
"میرا جسم، میری مرضی” پر بھنویں ایسے تن جاتی ہیں جیسے کسی نے خلافتِ عثمانیہ کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا ہو۔ ارے بھائی، اگر عورت کے جسم پر اس کی اپنی مرضی نہیں، تو پھر کیا آپ کی مرضی چلے گی؟ یہی سوال ہے جو سب سے زیادہ چبھتا ہے، کیونکہ اس کا جواب دینے کے لیے دلیل درکار ہے، اور دلیل یہاں نایاب ہے۔
ہر سال کہا جاتا ہے کہ عورت مارچ کی شر انگیزی روکی جائے۔ مگر کوئی یہ بتانے کو تیار نہیں کہ اگر واقعی اسلام میں عورت کو سارے حقوق مل چکے ہیں، تو پھر پاکستان میں ہر سال ہزاروں خواتین کیوں قتل ہوتی ہیں، کتنی تعلیم سے محروم ہیں، اور کتنی اپنی مرضی کی شادی کرنے پر زندہ جلائی جاتی ہیں؟
خواتین کے بنیادی حقوق پر اعتراض کرنے والے ذرا اس دن ٹھنڈے پانی سے غسل کریں، یوٹیوب کے لیکچر بند کریں، اور ایک لمحے کو سوچیں کہ اگر عورت کے برابر حقوق مانگنے سے آپ کو تکلیف ہو رہی ہے، تو شاید مسئلہ عورتوں میں نہیں، آپ کی غیرت کے "سافٹ ویئر” میں ہے، جو اپ ڈیٹ ہونے کے بجائے ہر 8 مارچ کو کریش کر جاتا ہے۔
نوٹ: لکھاریوں کےذاتی خیالات سے”قلم کلب”کامتفق ہوناضروری نہیں ہے۔