تحریر : کاشف جاوید
پاکستان کے مسائل پر سوچتے ہوئے بندہ سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ دنیا مریخ پر بستیاں بسانے کی بات کر رہی ہے مصنوعی ذہانت نئی دنیا بنا رہی ہے اور ہم وہیں کے وہیں کھڑے ہیں بلکہ شاید پیچھے جا رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے ہم نے وقت کے ساتھ کوئی دشمنی پال رکھی ہو۔ سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ یہ مسئلہ ہمارے ڈی این اے میں ہے، ہماری اجتماعی سوچ میں ہے، ہمارے تاریخی فیصلوں میں ہے یا پھر بٹوارا ہی کسی غلط منطق پر ہوا تھا۔
قیام پاکستان کا نظریہ بڑا شاندار تھا مگر یہ کبھی پریکٹیکل نہیں ہو سکا۔ بٹوارے کے وقت جو قتل و غارت ہوئی، جو نفرتیں پھیلیں وہ آج بھی ہمارے اندر زندہ ہیں۔ یہ وہ زخم ہیں جنہیں بھرنے کی بجائے ہم بار بار کریدتے ہیں بلکہ کبھی کبھار نمک بھی چھڑک دیتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان کا قیام برطانوی استعمار کی سازش تھی کچھ اسے مسلمانوں کے خواب کی تعبیر سمجھتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم آج بھی طے نہیں کر پائے کہ ہم بنے کیوں تھے اور کرنا کیا تھا۔
مشہور تاریخ دان ایریک ہوبزباوم کہتے ہیں "قوم پرستی ایک مصنوعی تصور ہے جو مخصوص سیاسی اور معاشی مفادات کے تحت تشکیل دیا جاتا ہے۔” اگر ہم اس نکتہ نظر سے دیکھیں تو پاکستان کا قیام ایک مصنوعی قوم پرستی کے تحت ہوا جس میں مذہب کو ایک سیاسی آلہ بنایا گیا لیکن یہ قوم پرستی کبھی مستحکم ریاست میں نہیں ڈھل سکی کیونکہ یہ علاقائی، لسانی اور ثقافتی تنوع کو ساتھ لے کر چلنے میں ناکام رہی۔
اب آتے ہیں ہماری اجتماعی سوچ کی طرف۔ ہمیں سوال کرنے کی عادت نہیں، بس جو کہا جاتا ہے مان لیتے ہیں۔ عقل استعمال کرنے کی بجائے جذبات میں بہنا ہمیں زیادہ پسند ہے۔ کہیں اگر کوئی تنقید کر دے تو فوراً فتویٰ لگا دیتے ہیں "یہ تو غدار ہے” یا "یہ تو ایجنٹ ہے۔” اور جو بندہ تھوڑا سا بھی الگ بات کرے وہ یا تو "ملحد” ہے یا "مغرب زدہ۔” مطلب دماغ کھپاؤ مت بس نعرے مارو۔ کارل پوپر نے سچ ہی کہا تھا "ایک کھلا معاشرہ وہی ہوتا ہے جو تنقید کو برداشت کرے کیونکہ تنقید کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔”
پاکستانی سماج میں اختلاف رائے کو دبانے کی روایت مضبوط ہے چاہے وہ مذہبی معاملات ہوں، سیاسی بیانیہ ہو یا تعلیمی نظام۔سیاست کا تو خیر پوچھو ہی مت۔ یہاں جمہوریت ایک تماشہ ہے، معیشت بستر مرگ پر ہے اور اشرافیہ پورے ملک کو جاگیر سمجھتی ہے۔ عام آدمی کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون وزیر اعظم بنا کیونکہ کھیل وہی پرانا ہے چہرے بدل جاتے ہیں مگر اسکرپٹ وہی رہتا ہے۔ بروس ریڈل نے کہا تھا "پاکستان ایک ایسی ریاست ہے جہاں جمہوریت کو ہمیشہ پس پردہ قوتوں نے محدود رکھا اور یہی اس کی عدم استحکام کی بنیادی وجہ ہے۔” جنہیں ووٹ دیا جائے وہی لوٹ لیں تو بندہ جائے کہاں؟
اب آتے ہیں حل کی طرف۔ دیکھو حل سب کو پتا ہے، صرف کوئی ماننے کو تیار نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ تعلیم ٹھیک کرنی ہے، کرپشن ختم کرنی ہے، جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے مگر کرے گا کون؟ کوئی نہیں۔ کیونکہ ہر بندہ یہی سوچ رہا ہے کہ "بس میں تو ٹھیک ہوں باقی سب خراب ہیں۔” یہی ہمارا المیہ ہے۔ ایک استاد بچوں کو رٹا لگوا کر خوش ہے، ایک سیاستدان کرسی پر بیٹھ کر پیسے بنا کر خوش ہے، ایک عام آدمی بھی کسی نہ کسی موقع پر دھوکہ دے کر خوش ہے۔ جب ہر بندہ اپنے اپنے دائرے میں بے ایمانی کر رہا ہو تو ملک کیسے چلے؟
اب اصل سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم واقعی کوئی سبق سیکھ سکتے ہیں؟ فریڈرک نطشے نے کہا تھا "جس نے اپنے ماضی کو تسلیم نہ کیا وہ اسے دہراتا رہے گا۔” پاکستان کا مسئلہ کوئی بیرونی سازش نہیں، یہ ہماری اپنی اجتماعی سوچ اور فیصلے ہیں جو ہمیں اس حال تک لے آئے ہیں۔ مگر ہم نے پھر بھی کچھ نہیں سیکھا اور سیکھیں گے بھی نہیں کیونکہ ہمیں اپنی خامیوں پر بات کرنے سے زیادہ دوسروں کی سازشیں ڈھونڈنے کا شوق ہے۔ ہم ہمیشہ کی طرح ترقی کی دوڑ میں "انشاء اللہ، ماشاءاللہ، اللہ خیر کرے گا” کہہ کر اپنی قسمت پر چھوڑ رہے ہیں۔
نوٹ: لکھاریوں کےذاتی خیالات سے”قلم کلب”کامتفق ہوناضروری نہیں ہے۔