ہسپانوی پارلیمنٹ نے ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے اسرائیل کے خلاف اسلحے کی خرید و فروخت پر پابندی لگانے کی قرارداد کو منظوری دے دی ہے۔ یہ فیصلہ یورپ میں بڑھتے ہوئے عوامی دباؤ اور غزہ میں جاری نسل کشی کو روکنے کے عالمی مطالبات کے تناظر میں سامنے آیا ہے، جو گزشتہ ڈیڑھ سال سے جاری ہے۔
منگل کی رات، بائیں بازو اور قوم پرست جماعتوں کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد کو 176 میں سے 171 ووٹ ملے، جبکہ کنزرویٹو پیپلز پارٹی اور دائیں بازو کی ووکس پارٹی نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔ قرارداد میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ایسے ممالک کو ہتھیاروں کی فروخت بند کی جائے جو نسل کشی میں ملوث ہوں، جس میں اسرائیل کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔
قرارداد کے تحت اسرائیل کو کوئی بھی ایسا ہتھیار یا مواد فراہم نہیں کیا جائے گا جو اس کی فوجی طاقت کو بڑھا سکے۔ اس کے علاوہ، اسپین کے غیر ملکی تجارتی قوانین میں بھی اصلاحات کی سفارش کی گئی ہے تاکہ اس پابندی کو قانونی تحفظ حاصل ہو۔
ہسپانوی وزیراعظم پیڈرو سانچیز نے اس قرارداد کی حمایت کی اور عالمی سطح پر اسرائیل کو ثقافتی مقابلوں سے بھی باہر رکھنے کا مطالبہ کیا، جیسا کہ روس کو یوکرین پر حملے کے بعد کیا گیا تھا۔ سانچیز نے کہا کہ ’’ثقافت میں بھی دہرے معیار کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔‘‘
گذشتہ سال اپریل میں، ہسپانوی حکومت نے اسرائیلی کمپنی سے گولہ بارود کی خریداری کا معاہدہ بھی منسوخ کیا تھا، عوامی مفادات کے پیش نظر۔ اس کے علاوہ، 7 اکتوبر 2023 کے بعد اسپین نے اسرائیل سے کسی بھی قسم کا اسلحہ خریدا یا بیچا نہیں، اور آئندہ بھی اس سلسلے کو روکا جائے گا۔
اس کے جواب میں، اسرائیلی وزارت خارجہ نے یروشلم میں اسپین کے قونصل خانے پر پابندی عائد کر دی ہے، جس کے تحت اب وہاں فلسطینیوں کو قونصلر خدمات فراہم نہیں کی جا سکیں گی۔
یہ قرارداد عالمی برادری کی جانب سے اسرائیل کے خلاف سخت موقف کی عکاسی کرتی ہے، جبکہ امریکہ کی حمایت میں اسرائیل کی غزہ میں جاری کارروائیوں نے اب تک سینکڑوں ہزاروں افراد کی جانیں لے لی ہیں۔