تحریر:امجد عثمانی
چیف جسٹس پاکستان عزت مآب قاضی فائز عیسیٰ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ ضیا الحق کو صدر نہیں مانتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بندوق کی نوک پر کوئی صدر نہیں بن جاتا۔۔۔۔آئندہ اس عدالت میں انہیں دوبارہ صدر مت کہیے گا۔۔۔۔۔انہوں نے کہا کہ ضیا الحق واحد شخص ہیں جس کا نام آئین میں لکھا ہوا ہے۔۔۔۔ وقت کا نہیں معلوم ہوتا لیکن ضیا نے لکھوایا کہ وہ صدر ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اٹارنی جنرل نے عدالت کے گوش گزار کیا کہ 18 ویں ترمیم میں ضیاالحق کا نام آئین سے نکال دیا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جناب چیف جسٹس نے درست فرمایا کہ وقت کا کیا پتہ کہ کل کیسا ہو اور کون کہاں؟مگر کیا کیجیے چیف صاحب کہ ہر "مسند نشین”کا یہی” وہم” کہ وہ "اہم” ہے،اسے "گھن” کی طرح کھا جاتا ہے۔۔۔۔اسے پتہ ہی نہیں چلتا اور وہ سابق بلکہ "قصہ پارینہ” ہوجاتا ہے۔۔۔۔۔وہی بات جو جناب حبیب جالب نے سمجھائی تھی:
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
ابھی کل کی بات ہے جناب عمران خان”ہینڈ سم پرائم منسٹر”کہلایا کرتے تھے۔۔۔۔اس سے پہلے تین مرتبہ کے وزیر اعظم جناب نواز شریف اور صدر زرداری۔۔۔۔۔۔
جناب عمر عطا بندیال۔۔۔۔ثاقب نثار بھی چیف جسٹس تھے اور قاضی القضا جناب افتخار چودھری بھی جنہیں عوام نے کندھوں پر اٹھایا۔۔۔۔۔اسی طرح جنرل قمر جاوید باجوہ سپہ سالار تھے اور کبھی مکا لہراتے جنرل پرویز مشرف آرمی چیف بھی اور صدر پاکستان بھی۔۔۔۔۔۔
یہ لطیفہ اپنی جگہ دلچسپ ہے کہ عمران خان کے”معاشی دماغ” شبر زیدی اینکر پرسن سید علی حیدر سے لائیو شو میں الجھ پڑے کہ آرمی چیف کو سپہ سالار کیوں کہا۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟منطق یہ گھڑی کہ سپہ سالار اسے کہتے ہیں جو محاذ جنگ پر ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
بہر حال چیف جسٹس نے درست فرمایا کہ بھلا کوئی بندوق کی نوک پر بھی صدر کہلایا ہے۔۔۔۔کاش وہ صرف صدر ضیا الحق ہی نہیں بندوق کی نوک پر صدور بننے والوں کو "سندجواز” بخشنے والے چیف جسٹس صاحبان کو بھی "شریک جرم” ٹھہراتے اور کہتے کہ میں کسی آمر کے ہم نوا منصف کو بھی چیف جسٹس نہیں مانتا تو آئین پاکستان کا سر فخر سے بلند ہوجاتا۔۔۔۔مگر کیا کیجیے صاحب کہ چیف صاحب کو۔۔۔نام کے ساتھ ۔۔۔”حافظ قرآن”۔۔۔لکھنے ایسے سنگین مسئلے سے فرصت ملے تو "ہائوس ان آرڈر”کریں۔۔۔۔۔۔!!!!