ہاتھی، اندھے اور عالمی سیاست – سب اپنی اپنی سناتے ہیں!
مولانا رومی کی مشہور حکایت ہے کہ چند اندھے ایک ہاتھی کو ٹٹول کر اس کی ماہیت کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک سونڈ کو چھو کر کہتا ہے کہ یہ سانپ ہے، دوسرا پیر کو چھو کر اسے درخت قرار دیتا ہے، تیسرا کان کو پکڑ کر اسے پنکھا سمجھتا ہے۔ ہر کوئی اپنی محدود فہم کے مطابق مکمل سچائی کا دعویدار ہوتا ہے، مگر حقیقت کہیں ان کی سوچ سے پرے رہتی ہے۔ یہی حال آج کی عالمی سیاست کا ہے، جہاں ہر طاقتور ملک اپنی محدود نظر سے دنیا کے پیچیدہ معاملات کا حل تجویز کر رہا ہے، جیسے کل کی وائٹ ہاؤس پریس کانفرنس، جہاں ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کے صدر زیلینسکی کو نہ صرف دبانے کی کوشش کی بلکہ ایک تلخ حقیقت بھی بیان کر دی: "اگر ہم نے تمہیں 350 بلین ڈالر نہ دیے ہوتے، اگر یہ اسلحہ، یہ ٹینک، یہ فوجی امداد نہ ہوتی، تو روس تمہیں دو ہفتوں میں ٹیک اوور کر چکا ہوتا!” اس بیان نے اس جنگ کی حقیقت کو عیاں کر دیا کہ یوکرین کی بقا صرف امریکی سرمائے پر ٹکی ہوئی ہے، اور حقیقت میں یہاں کوئی جمہوریت، اصول، یا انسانی حقوق کا سوال نہیں، بلکہ صرف طاقت اور سرمائے کی برتری کا کھیل جاری ہے۔
پریس کانفرنس میں ٹرمپ کا انداز واضح تھا۔ زیلینسکی کچھ کہنے کی کوشش کرتے رہے مگر انہیں خاموش کروا دیا گیا، اور ٹرمپ نے دوٹوک الفاظ میں کہا: "تم ہمیں ڈکٹیٹ نہیں کر سکتے، تم سیریس نہیں ہو، تم ورلڈ وار تھری کے ساتھ کھیل رہے ہو!” اصل سوال یہ ہے کہ کون سیریس ہے؟ اگر یوکرین واقعی سنجیدہ ہوتا تو وہ کسی سفارتی حل کی تلاش میں ہوتا، اگر امریکہ واقعی سنجیدہ ہوتا تو جنگ ختم کرنے کے لیے عسکری نہیں بلکہ سیاسی حکمت عملی اختیار کرتا، اگر روس سنجیدہ ہوتا تو وہ یوکرین پر چڑھ دوڑنے کے بجائے اپنی طاقت کو کسی اور طریقے سے مستحکم کرتا، اور اگر یورپ سیریس ہوتا تو وہ نیٹو کو وسعت دینے کے بجائے کوئی قابلِ قبول حل نکالتا۔ مگر یہ سب مل کر ایک ایسی آگ کو بھڑکا رہے ہیں جس کا دھواں پوری دنیا میں پھیل سکتا ہے، اور کوئی بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔
یہی وہ لمحہ ہے جہاں رومی کی حکایت ایک آئینہ بن جاتی ہے۔ امریکہ کو لگتا ہے کہ پیسہ اور اسلحہ ہی ہر مسئلے کا حل ہے، یوکرین کو یقین ہے کہ مغرب ہمیشہ اس کا ساتھ دے گا، روس طاقت کے نشے میں مبتلا ہے، اور یورپ کو لگتا ہے کہ نیٹو کی توسیع ہی اس کا تحفظ ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سب ہاتھی کا صرف ایک ایک حصہ دیکھ رہے ہیں، اور مکمل سچائی کسی کے فہم میں نہیں آ رہی۔ اگر 350 بلین ڈالر سے جنگ ختم نہیں ہوئی، تو 50 بلین ڈالر کیسے جنگ کو دو ہفتوں میں ختم کر سکتے ہیں؟ کیا آگ کو بجھانے کے لیے مزید تیل ڈالنا کوئی عقلمندی ہے؟ یا یہ سب بس طاقتور ملکوں کا ایک اور کھیل ہے جہاں پسنے والے ہمیشہ کمزور ہی رہیں گے؟
جب ہر کوئی اپنی محدود سوچ کو مکمل سچائی سمجھنے لگے، تو جھگڑا کبھی ختم نہیں ہوتا۔ اگر عالمی طاقتیں اپنی روش نہ بدلیں اور ہر کوئی اپنی عینک سے صرف اپنا مفاد دیکھتا رہا، تو یہ جنگ کبھی ختم نہیں ہوگی بلکہ ایک دن سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ دنیا کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ ہاتھی کو پورا دیکھنا چاہتی ہے یا ہمیشہ کے لیے اندھی بنی رہنا چاہتی ہے۔ اگر نہیں، تو تاریخ اپنا فیصلہ خود کرے گی، اور یہ فیصلہ شاید بہت بھیانک ہو۔
ڈسکلیمر:
یہ تحریر مصنف کے ذاتی خیالات اور آرا پر مشتمل ہے۔ اس میں بیان کردہ نکات سے قلم ڈاٹ کام کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ ادارہ کسی بھی قسم کی وابستگی یا ذمہ داری سے مبرا ہے۔