نیوز بلاگ/امجد عثمانی
ناقدین بھی” بےحدیے "ہو جاتے ہیں کہ ہر بات کا بھتنگڑ بنا دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔!!!!!
اب نواز شریف کی واپسی پر اخبارات میں شائع ایک "اشتہار "پر ہنگامہ برپا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایسے اشتہارات پہلے بھی شائع ہوتے آئے ہیں۔۔۔۔پون پون صفحے کے جمبو سائز اشتہار۔۔۔۔۔۔۔ہاں کسی زمانے میں جب جناب مجید نظامی اور جناب ضیا شاید ایسے مدیر ہوا کرتے تھے تو” لیڈ سٹوری” کی جگہ پر کوئی "سمجھوتہ” نہیں ہوتا تھا۔۔۔۔۔۔۔فی زمانہ لاہور کے سب سے بڑے ایڈیٹر جناب عظیم نذیر بتا سکتے ہیں کہ جناب ضیا شاید نے ایسے کتنے اشتہارات ٹھکرائے؟ہاں یہ شاید پہلی دفعہ ہوا ہے کہ آٹھ کالم اشتہار نما لیڈ سٹوری چھپی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن اخباری انحطاط کے اس دور میں بھی ڈان اخبار نے یہ اشتہار لیڈ کی جگہ نہیں چھاپا۔۔۔۔۔۔۔الفاظ کی حرمت کے ساتھ صفحات کا بھی تقدس ہے اور ڈان نے اس کا خیال رکھا ہے۔۔۔۔۔۔شاید جناب مجید نظامی اور جناب ضیا شاہد ہوتے تو وہ بھی لیڈ کی جگہ اشتہار نہ چھاپتے کہ وہ پروفیشنل ایڈیٹر تھے۔۔۔۔۔لیکن یہ ‘کمرشل ایڈیٹرز” کا زمانہ ہے۔۔۔۔۔اور ان کے فنانشل ایڈوائزرز کا پیسے کمانے کا پیمانہ بلکہ کشکول کہیے۔۔۔۔۔ اس اشتہار میں اس کی واضح جھلک دکھائی دے رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔اب تو علمائے کرام بھی”کمرشل” ہوگئے ہیں تو ایڈیٹرز سے کیا شکوہ۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟ناقدین بھی کمال کرتے ہیں۔۔۔۔ایویں آی ” بے حدیے” ہو جاتے ہیں۔۔۔۔حالاں کہ وہ خوش ہوتے کہ یہ اشتہار ن لیگ کے میڈیا مینجرز کی” بے دماغی” کی دہائی دے رہا یے۔۔۔۔۔ہاں اس میں ” شہ دماغی” بھی ہو سکتی ہے کہ اخبارات کے ساتھ ساتھ ان کی بھی "کمیشن”کا مسئلہ ہے۔۔۔۔ ورنہ نواز شریف کی واپسی پر ٹی وی چینلز کی خصوصی ٹرانسمشن اور اخبارات کے سپیشل ایڈیشن کے بعد اس لیڈ نما اشتہار کی ایک فیصد بھی ضرورت نہیں تھی۔۔۔۔ اس اشتہار سے مصنوعیت کا تاثر ابھرا اور "فرضی لیڈ "قارئین کی توجہ نہ کھینچ سکی۔۔۔۔ابلاع کے باب میں لیڈ کے الفاظ تو زبان رکھتے ہیں مگر یہ پہلی بدقسمت "گونگی لیڈ "تھی ۔۔۔۔۔اسے اپاہج لیڈ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جو اشارے بھی نہیں کر پائی بلکہ اس کی جانب انگلیاں آٹھ رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔ن لیگ کے میڈیا مینجرز میں دماغ ہوتا تو وہ اس اشتہار کے بجائے بیس اکتوبر کی شب دبئی میں ایک” پری پریس کانفرس” سجاتے۔۔۔۔۔۔۔۔یہ نیوز ٹاک پاکستان کے "پرائم ٹائم "نو بجے ہوتی۔۔۔۔۔۔کہا جاتا نواز شریف اہم بات کرینگے اور پھر وہ دو لفظی بات کرتے کہ میں انتقام لینے پاکستان نہیں جا رہا۔۔۔۔۔۔تب تمام چینلز پر یہ پریس کانفرنس لائیو چلتی اور اگلے دن اخبارات کی لیڈ بھی بن جاتی۔۔۔۔۔اس کے لیے تھوڑی میڈیا مینجمنٹ کی ضرورت بھی پڑتی تو چائے کے کپ پر معاملہ طے پا جاتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن وہ میڈیا مینجمنٹ ہی کیا جس میں میڈیا مینجرز بار بار سر نہ پکڑیں۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔ بڑے بڑے وائوچر نہ بنائیں۔۔۔۔۔۔۔۔ہمارے خیال میں تو اس سے بہتر تھا کہ نواز شریف صاحب جناب صالح ظافر سے ایک رقت آمیز نیوز سٹوری لکھوا لیتے اور اسے اشتہار کا درجہ دیکر اخبارات کے صفحہ اول پر چھپوادیتے تو اور نہیں تو ن لیگ کے کارکن ہی کئی دن تک دل فگار اور اشکبار رہتے۔۔۔۔۔بہر کیف یہ ن لیگ کا مسئلہ ہے کہ ہم” ناقدین” میں سے ہیں نہ” بے حدیے”۔۔۔۔۔۔۔۔۔”بے حدیے”ہمارے ایک مرحوم پی ایچ ڈی استاد گرامی جناب محمد حسین کی اصطلاح ہے جو وہ شکرگڑھ کے کے کچھ” اچھل کودیوں” کے بارے استعمال کرتے تھے۔۔۔۔۔ارشاد ٹی سٹال پر چائے کی چسکی لیتے جب بھی ان سے پوچھا کہ علامہ صاحب یہ” بے حدیے” کیا ہوتے ہیں تو وہ بڑی سنجیدگی سے ایک ہی جملہ ارشاد فرماتے ۔۔۔۔۔۔شکل سے انسان عقل سے حیوان۔۔۔۔۔۔؟؟؟