تحریر: کاشف جاوید
ایک دن یونہی بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ یہ جو ہمارے دماغ میں ہر وقت خیالات کی پینگ جھولتی رہتی ہے اس کا کوئی مصرف بھی ہے یا نہیں۔ کیا سوچنا واقعی ہمارے وجود کا ثبوت ہے یا دماغ کا کوئی پرانا پنکھا ہے جو مسلسل چلتا رہتا ہے چاہے بجلی ہو یا نہ ہو۔
اسی سوچ میں ڈوبے ہمیں یاد آیا کہ فلسفے کے ایک چکر باز پہلوان ہوا کرتے تھے رینے ڈیکارٹ۔ انہوں نے فلسفے کے ساتھ وہی سلوک کیا جو ہمارے ہاں بعض اینکر حضرات ملکی سیاست کے ساتھ کرتے ہیں۔ ہر چیز پر سوال ہر حقیقت پر شک اور ہر سچائی کے پیچھے کسی شیطانی سازش کی بو۔ڈیکارٹ نے کہا جناب عالی ہوشیار رہیے۔ جو کچھ آپ دیکھ رہے ہیں جو سن رہے ہیں اور جو محسوس کر رہے ہیں سب فریب ہو سکتا ہے۔ انہوں نے تو یہاں تک فرض کر لیا کہ شاید کوئی بہت چالاک شیطان ہمارے دماغ کے پروجیکٹر پر ایک فلم چلا رہا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ زندگی ہے۔ یعنی جس پھول کو آپ محبوبہ کے بالوں میں سجانے کے خواب دیکھتے رہے وہ حقیقت میں شاید کدو ہو۔
لیکن اس ساری علمی اکھاڑ پچھاڑ کے بیچ ڈیکارٹ کو ایک بات کا پورا یقین ہو گیا۔ میں سوچتا ہوں لہٰذا میں ہوں۔کیوں۔ اس لیے کہ اگر شک بھی کر رہا ہوں تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ شک کرنے والا کوئی موجود ہے۔ جیسے اگر کسی فیس بک پوسٹ پر واہ جی واہ لکھا ہے تو کوئی نہ کوئی تو کی بورڈ پر انگلیاں چلا رہا ہے۔
تاہم فلسفے کی دنیا میں ہر بیان ایک نیا دنگل کھول دیتا ہے۔ کچھ فلسفی میدان میں کود پڑے اور بولے بھائی صاحب مان لیا سوچ ہو رہی ہے لیکن یہ میں کہاں سے آ گیا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بس خیالات ہی فضا میں تیر رہے ہوں اور انہیں سوچنے والا کوئی نہ ہو۔ جیسے ہر الیکشن سے پہلے وعدے تو بہت ہوتے ہیں لیکن انہیں پورا کرنے والا کوئی نہیں نکلتا۔اب یہاں ڈیکارٹ نے فلسفیانہ دال میں ایسی مرچ ڈالی کہ سب کو چپ لگ گئی۔ اس نے کہا بھائی اگر خیالات ایک دوسرے سے جُڑ رہے ہیں منطقی ربط پیدا کر رہے ہیں تو کوئی نہ کوئی مرکز کوئی میں تو ہونا چاہیے جو ان کا ربط قائم رکھے۔ ورنہ یہ ویسا ہی ہوگا جیسے بندہ زردے میں دہی ڈال کر کہے یہ بریانی ہے۔
یہی وہ نکتہ ہے جہاں سے ڈیکارٹ کا شک ایک نئے یقین کی بنیاد بن گیا۔ یعنی ہر چیز پر شک کیا جا سکتا ہے۔ جسم دنیا یہاں تک کہ خدا پر بھی۔ لیکن سوچنے کے عمل پر شک ممکن نہیں۔ اور جب سوچ ہے تو سوچنے والا بھی ہے۔یوں ڈیکارٹ نہ صرف جدید فلسفے کا بانی بن گیا بلکہ اس نے انسانی شعور کی بنیاد پر ایک پوری عمارت کھڑی کر دی۔ ایک ایسی عمارت جس کی پہلی اینٹ خود شک ہے اور آخری یقین۔
اب سوال یہ ہے کہ آج کا انسان جو دن رات سوچتا ہے۔ کبھی نوکری کے بارے میں کبھی محبوب کے بارے میں کبھی اگلی قسط کے کلائمکس کے بارے میں۔ کیا وہ واقعی سوچتا ہے یا بس ذہنی عادت بن چکی ہے۔ کیا یہ میں ہوں والا یقین آج بھی قائم ہے یا اب صرف نیورون فائر ہو رہے ہیں کا سائنسی بیان بچا ہے۔
شاید آج ہمیں پھر سے ڈیکارٹ کی طرح رک کر خود سے پوچھنا چاہیے
میں کیا سوچ رہا ہوں
اور اس سے بھی اہم سوال
کیا یہ واقعی میں ہی سوچ رہا ہوں یا کوئی اور میری سوچوں کی چابی گھما رہا ہے
نوٹ: "قلم کلب” مصنفین کے ذاتی خیالات سے ضروری طور پر متفق نہیں ہوتا۔