درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئیے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں
ڈاکٹر عثمان انور کا شمار پاکستان پولیس سروس کے انتہائی پروفیشنل، ایماندار اور فرض شناس افسران میں ہوتا ہے۔
آپ کا تعلق پاکستان پولیس سروس کے تئیسویں کامن سے ہے۔ آپ نے 1995 میں بطور اے ایس پی پولیس سروس جوائن کی۔
ڈاکٹر عثمان انور اس سے قبل پنجاب میں ایڈیشنل آئی جی اسپیشل برانچ کے عہدے پر تعینات رہ چکے ہیں۔ ڈاکٹر عثمان انور سی ٹی ڈی پنجاب، ایس ایس پی آپریشنز فیصل آباد، سی آئی ڈی اور چیف ٹریفک آفیسر راولپنڈی بھی تعینات رہ چکے ہیں۔انہوں نے پرائم منسٹر آفس اسلام آباد، ڈی پی او اوکاڑہ ، ڈی پی او سرگودھا ، ٹیلی کمیونیکیشن اور ایلیٹ پولیس میں بھی فرائض سر انجام دیے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ سندھ اور اسلام آباد پولیس میں بھی اہم عہدوں پر فرائض ادا کیے ہیں۔
ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہم کو صرف پولیس کی خامیاں ہی نظر آتی ہیں خوبیاں نہیں۔ ہم نے اپنی خامیاں دیکھنے والی آنکھ کو اتنا کھلا رکھا ہوا ہے کے ہم ہر اچھے کام کو چاہے وہ جو بھی کرے صرف نظر کر جاتے ہیں۔ پولیس بھی ایک ایسا ہی ادارہ ہے جس میں کسی بھی دوسرے ادارے کی طرح اچھے یا برے لوگ موجود ہیں، عموماً پولیس کے اچھے کام کو اتنا سراہا نہیں جاتا جتنے کہ وہ حقدار ہوتے ہیں البتہ ان کی ذرا سی بھی دانستہ یا غیر دانستہ غلطی میڈیا کی بریکنگ نیوز بن جاتی ہے۔
ڈاکٹر عثمان انور پولیس افسر ہونے کے علاوہ بھی بہت کچھ ہیں، بہت سے افسرانہ اوصاف کے ساتھ ساتھ بیشمار انسانی خوبیوں کے مالک ہیں ، ہر طرح کے کمپلیکس سے آزاد، صاف گو، راست باز، منافقتوں سے کوسوں دْور ایک ہمدرد اور ماتحت پرور افسر جو اپنے جونئیرز کی عزت آبرو کا ہمیشہ خیال رکھتے رکھتے ہیں ، جونئیرز کو اگر سمجھانا ہو بہت اچھے الفاظ کا چْناؤ کرتے ہیں ، وہ نہ صرف انتہائی مضبوط قوت فیصلہ کے حامل افسرہیں بلکہ اپنے فیصلوں پر ڈٹ جانے کی خصوصیت بھی رکھتے ہیں .
دو ماہ قبل میانوالی میں ایک تھانہ پر دہشت گردوں کا حملہ پولیس نے پسپا کر دیا۔ موجودہ آئی جی صاحب بھی موقعہ پر گئے۔ ایک ویڈیو میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں آئی جی صاحب متعلقہ ایس ایچ او کے ہاتھ پر ہاتھ مار رہے ہیں اور ایک اہلکار کو تین دفعہ ماتھے پر بوسہ دے رہے ہیں۔ یہ ویڈیو اور اس کی باڈی لینگوئج بڑی حیران کن تھی۔ یہ ناقابل یقین تھا کہ یہ آئی جی ہیں۔ بالکل ایسے جیسے دو یار دوست آپس میں خوش ہو کر ایکدوسرے کے یاتھ پر یاتھ مارتے ہیں۔
مجھے یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ میں نے بارہ آئی جی صاحبان کی ماتحتی میں سرو کیا ہے اور یہ خوبی صرف ڈاکٹر عثمان انور صاھب میں ہی ہے کہ میں نے اکثر آئی جی صاحب کو اکیلے ہی آئی جی آفس کی کسی نہ کسی راہداری میں کام کی نگرانی کرتے پایا۔ ان کے ذہن پر کچھ نیا کر گزرنے کی اس قدر دھن سوار ہے کہ وہ ہر وقت میٹنگ, تجاویز, فالواپ اور حکم دیتے نظر آتے ہیں۔ میٹنگز کے لئیے اہتمام میں وقت صرف نہیں کرتے بلکہ کسی بھی کمرہ میں خود ہی چلے جاتے ہیں. اپنے دروازے ماتحت عملہ کے لئے عملی طور پر کھول دئیے۔ اک دن خبر آتی کہ شہداء فنڈ میں اضافہ کر دیا گیا ہے تو دوسرے دن خبر ملتی کہ غازیوں اور دوران سروس فوت ہونے والے ملازمین کے فنڈز میں سو گنا اضافہ کر دیا گیا۔ میڈیکل الاؤنس تین کروڑ سے 63 کروڑ روپے کر دیا گیا۔ جہاں انعام کی مد میں 10 کروڑ روپے مختص کیے گئے وہیں کاسٹ آف انویسٹیگیشن میں 100 گنا اضافہ کیا گیا۔ غازی جو محکمہ کی خاطر موت و حیات کی کشمکش میں مبتلاء رہتے ہیں وہ گھٹ گھٹ کر زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ کیونکہ ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو مستقل معزوری کا شکار ہو گئے۔ نہ نوکری چھوڑ سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی کام کرنے کے قابل ہیں۔ پنجاب پولیس کی تاریخ میں پہلی مرتبہ غازیوں کی بھی حوصلہ افزائی کی گئی اور جہاں کبھی آئی جی صاحب کی گاڑی کھڑی ہوتی تھی اس ڈیوڑھی کو شہداء اور غازیوں کی تصاویر اور کارناموں کے لئیے مختص کر دیا۔ فنون سپہ گری کے اصولوں کو بالاۓ طاق رکھتے ہوۓ کچہ کے علاقہ میں ائی جی صاحب نہ صرف اپنی فورس کے ساتھ موجود رہے بلکہ فرنٹ سے لیڈ کیا۔ اب غور کریں کہ جس فورس کا سپہ سالار اگلی صفحوں میں موجود ہو تو اس فورس کے مورال کا کیا عالم ہو گا۔
بہرکیف اُن کے آنے سے پنجاب پولیس کی کارکردگی میں 10,20 نہیں تو 15,20 کا فرق ضرور پڑا ہے ۔ کیوں کہ وہ یقینا اس بات کو سمجھتے ہیں عوام کی تھانوں تک بغیر رشوت رسائی اولین ترجیح ہے، اس کے لیے تھانوں میں جو فرنٹ ڈیسک قائم کیے گئے ہیں اُن کو فعال بنایا گیا ہے ۔ مزید یہ کہ آئی جی پنجاب کو براہِ راست شکایت درج کرانے اور ان شکایات کے ازالے کیلئے 1787 ہیلپ لائن مکمل طور پر فعال کیا گیا ہے ، کیوں کہ عوام کے مطابق اُن کی شکایات پر کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔ اس کے علاوہ ویب بیسڈ کمپلینٹ ریزولیشن سسٹم قائم کیا گیا ہے اس سارے سسٹم کو خود آئی جی صاحب دیکھتے ہیں اور فالو اپ لیتے ہیں اس کے علاوہ لاہور میں ای چیک پوسٹس کے پائلٹ پروجیکٹ کے تحت شہر کے داخلی راستوں پر قائم کی گئی ہیں یہ ای چیک پوسٹس نادرا، ایکسائز اور کریمنل ریکارڈ آفس سے منسلک ہیں۔ جو مشکوک افراد یا گاڑی کی فوری نشاندہی کرتی ہیں۔ ان چیک پوسٹس کو دیگر اضلاع میں بھی متعارف کرایا جا رہا ہے .
موجودہ آئی جی صاحب نے محکمہ پولیس کے لئیے وہی کام کیے ہیں جو کوئی بھی عظیم انسان اپنی قوم یا انسانیت کے لئیے کرتا ہے۔ آئی جی صاحب کو نہ تو اضافی فنڈ ملا, نہ موافق حالات میسر آۓ الیکشن کا ماحول اور ایک بے یقینی کی کفیت اور ہمہ روز کے پروٹیسٹ آئی جی صاحب کو کوئی مجبوری نہ تھی کہ وہ اس جمود کو توڑتے, وہ چاہتے تو روٹین کی پالیسنگ کر کے اپنی پوسٹنگ پوری کر سکتے تھے۔ مگر بقول احمد فراز
شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
جس بات کا سب سے زیادہ افسوس ہے وہ یہ ہے کہ آئی جی صاحب کو غلط وقت پر موقع ملا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ کام جو آئی جی صاحب کر رہے ہیں ان کی بنیاد پر ان کی اگلی پوسٹنگ نہیں ہونی کیونکہ یہ پوسٹنگ کرنے والوں کے متعلقہ نہ ہیں۔ ہاں مگر اس کے ثمرات سے پنجاب پولیس اور پنجاب کے عوام سالوں تک ضرور مستفید ہوں گے۔
مصنف سمیع احمد کلیا پولیٹیکل سائنس میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور سے ماسٹرز، قائد اعظم لاء کالج، لاہور سے ایل ایل بی اور سابق لیکچرر پولیٹیکل سائنس۔ اب پنجاب پولیس میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔