مجیب الرحمان شامی صحافتی تاریخ میں کم و بیش چار دہائیوں سے منفرد پہچان رکھتے ہیں، وہ نصف صدی سے پاکستان اور اسکے حکمرانوں کے احوال کے شاہد ہیں۔ ان کا تجزیہ ہمیشہ سے ہی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ صحافی غیر جانبدار ہوتا ہے مگر حقیقت میں غالب ترین اکثریت کا جھکاؤ ان کے قلم اور زباں سے ہوتا رہتا ہے۔ البتہ ایک فیصد کو استثناء دیا جاسکتا ہے۔ شامی صاحب نے بھی حکمرانوں کی قربتوں میں بہت وقت گزارا، انکی رہنمائی مقتدروں پر کس حد تک اثر انداز ہوئی آج کے حالات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی 72 ویں سالگرہ کی مناسبت سے کل منہاج یونیورسٹی لاہور میں ہونے والی پر وقار تقریب میں انہیں سننے کا اتفاق ہوا۔ شامی صاحب نے شیخ الاسلام کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں بہترین معلم، داعی، مصنف، مفسر، محدث، خطیبِ بے مثل، فقیہہ اور ادارہ ساز قرار دیا۔ گفتگو سے ان کے نظریاتی ارتقاء سے واقفیت ہوئی، ریاست کی زبوں حالی پر وہ کس قدر دل گرفتہ ہیں اس کا اندازہ بھی ہوا ۔
اُنہوں نے شیخ الاسلام کی ہمہ جہت عالمگیر جدوجہد کی اثر انگیزی، قبولیت تنوع اور حجم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک شخص کا نہیں لاکھوں کا کام ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے 40 سالوں میں جو نتائج دیئے ہیں وہ ایک انسان کے بس کی بات نہیں اور ایسا توفیق الٰہی کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا۔ اُنہوں نے حقیقت پسندی سے یہ بھی فرمایا کہ ’’پچھلی کئی صدیوں تک ایسی نظیر ڈھونڈنا ممکن نہیں ہے‘‘۔ یہ جملہ اپنے اندر اعتراف کا ایک جہاں آباد کئے ہوئے تھا کیونکہ کئی اسلامی جماعتوں کے بانیان اور بڑی بڑی قد آور شخصیات کا جھرمٹ گزشتہ صدیوں میں ان مٹ نقوش کے ساتھ موجود ہے۔
انہوں نے واشگاف انداز میں اپنی ذات کے حوالے سے حاضرین و ناظرین کے سامنے یہ عقدہ بھی کھولا کہ انہیں شیخ الاسلام اپنی پوری زندگی میں واحد شخص ملے جو تنقید کے بعد بھی ان سے ناراض نہیں ہوئے، اختلافات کے باوجود ویسے ہی مسکرا کر ملتے رہے۔ شامی صاحب کی طرف سے جو تنقیدِ مسلسل ہوتی رہی اور جو اختلاف وہ کرتے رہے عوام اس سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اختلاف اور تنقید محترم شامی صاحب کا بطور صحافی حق تھا اور ان کو ہمیشہ محبت دینا اور مسکرا کر اُن کے اختلاف کو عزت دینا بھی شیخ الاسلام جیسی ہستی کا ہی ظرف ہے۔
ایسے اعلیٰ رویے انسانی زندگی میں پانی کے مسلسل گرنے والے ان قطروں کی مانند ہوتےہیں جو بالآخر پتھر کا سینہ چاک کرکے پیش قدمی کی راہ ڈھونڈ لیتے ہیں اور اُس سنگ اور اس کے نیچے اور آگے کی سطح کو سیراب کر جاتے ہیں۔ شیخ الاسلام کی فکر اور نظریے کا خمیر آقائے دوجہاں ﷺکےافکارات اعلیٰ و ارفع سے اُٹھا ہے اس لئے یہ ہو نہیں سکتا کہ ان کے نظریے کا جادو سر چڑھ کر نہ بولے۔ بلاشبہ حق کے باطن سے اٹھنے والے نظریات اور رویوں نے ہی غالب آنا ہوتا ہے اور شامی صاحب بھی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ اللہ نے انہیں مرد حق کی تائید میں اظہار کی توفیق سے نوازا۔
محترم مجیب الرحمان شامی نے امن عالم کے قیام کیلئے شیخ الاسلام کی طرف سے ملنے والی فکری و عملی رہنمائی کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا ’’دہشت گردی کا عفریت جب انسانی جانوں کو نگل رہا تھا، وحشت کا ہر سو راج تھا، دنیا کے بڑے بڑے مفکرین، مفسرین، محدث اور علماء رد عمل کے خوف سے خاموشی کو اپنی پہلی ترجیح بنا کر دُبکے ہوئے تھے۔
اس وقت پوری قوت سے شیخ الاسلام کی آواز اسلامی تعلیمات کی سچائی بن کر اُبھری اور دنیا بھر کو اسلام کا حقیقی پیغام امن و سلامتی میسر آیا۔ ان کے تاریخی فتوے کے بعد ریاستوں نے اپنی پالیسیوں کو بدلا اور آج شیخ الاسلام کا ویژن اسلام کیلئے ڈھال اور فخر بنا ہوا ہے۔ اسی تسلسل میں مجیب الرحمان شامی نے درد سے معمور لہجے میں آج کے پاکستان کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہا کہ ’’سہما، لڑکھڑاتا، لرزتا اور اپنے مستقبل سے خوف کھاتا پاکستان آج اس کے معتبر اداروں سے سوال کررہا ہے کہ بے یقینی کی اس دلدل سے مجھے کون نکالے گا؟‘‘ ریاست زبانِ حال سے 23کروڑ عوام سے کہہ رہی ہے کہ مجھےاور خود کو بچا لو۔
مجیب الرحمان شامی صاحب نے کہا کہ ’’آج ہمیں ڈاکٹر طاہر القادری کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری آئندہ نسلوں کا مستقبل اور یہ سوہنی دھرتی دونوں محفوظ و مامون ہوسکیں۔ مجیب الرحمان شامی صاحب نے اپنے خطاب کے دوران ٹکڑوں میں اقبالؒ کی مشہور زمانہ نظم کے اکثر اشعار پڑھے وہ ان اشعار کو بتدریج شیخ الاسلام کی جہدمسلسل کی مختلف جہتوں سے جوڑتے رہے۔
قارئین کی دلچسپی کیلئے اقبالؒ کی کتاب ’’ضرب کلیم‘‘ کی وہ نظم بھی حاضر خدمت ہے ؎
ہرلحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن
گفتار ميں، کردار ميں، اللہ کي برہان!
قہاري و غفاري و قدوسي و جبروت
يہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
ہمسايہء جبريل اميں بندئہ خاکی
ہے اس کا نشيمن نہ بخارا نہ بدخشان
يہ راز کسي کو نہيں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے ، حقيقت ميں ہے قرآن!
قدرت کے مقاصد کا عيار اس کے ارادے
دنيا ميں بھی ميزان، قيامت ميں بھی ميزان
جس سے جگر لالہ ميں ٹھنڈک ہو، وہ شبنم
درياؤں کے دل جس سے دہل جائيں، وہ طوفان
فطرت کا سرود ازلي اس کے شب و روز
آہنگ ميں يکتا صفت سورۂ رحمن
بنتے ہيں مری کارگہ فکر ميں انجم
لے اپنے مقدر کے ستارے کو تو پہچان
تقریب کے ماحول میں کلامِ اقبال نے جو کیفیت پیدا کر دی تھی اس سے محسوس ھورھا تھا کہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی توجہ کا مرکز شیخ الاسلام اور ان کی منہاج یو نیورسٹی بنی ھوئی ھے ۔مجیب الرحمان شامی صاحب نے امت مسلمہ اور انسانیت کے لئے شیخ الاسلام کی لازوال خدمات کا جس محبت، حقیقت پسندی اور وسعت قلبی سے انہوں نے ذکر کیا وہ ایک فرد کا نہیں پاکستان کے باشعور اور صاحب الرائے طبقے کا شیخ الاسلام کے حق میں اجتماعی اعتراف ہے۔
مجیب الرحمان شامی منہاج یونیورسٹی میں ہونے والی اس تقریب کے آخر میں کہہ گئے کہ پاکستان بچانا ہے تو مکروہ سیاست اور کرپٹ نظام کو قومی غفلتوں اور کوتاہیوں کی ٹوکری میں پھینکنا ہوگا۔ وہ بین السطور یہ بھی کہہ گئے کہ ’’نیا نظام وہی دے سکتا ہے جس نے کرپٹ اور فرسودہ نظام کے خلاف سیاسی میدان میں اداروں اور عوام کے مختلف طبقات کا شعور بیدار کرنے میں زندگی لگا دی ہو‘‘۔
مینارِ پاکستان پر ہونے والے 23 دسمبر 2012ء کے جلسے کی تاریخ ساز تقریر ہو، جنوری 2013ء کے دھرنے کے مطالبات یا 2014ء کے دھرنے کے 72 دن کی وہ تقاریر شیخ الاسلام نے اداروں کو ان کی ذمہ داری ادا کرنے کا احساس دلایا اور عوام کو ان کے حقوق کے لئے نکلنے کا شعور دیا۔
بد قسمتی دونوں کی آنکھ نہ کھل سکی نتیجتاً آج پاکستانیوں پر حیات کا دائرہ تیزی سے تنگ ہو رہا ہے۔ انہی گھمبیر حالات کا نقشہ کھینچ کر جب شامی صاحب ڈائس سے اتر کر منہاج یونیورسٹی کے روح رواں پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری صاحب کے ساتھ اپنی نشست کو دوبارہ رونق بخشنے کیلئے بڑھ رہے تھے،بے ساختہ میری نظریں بیک ڈراپ پر شیخ الاسلام کی خوبصورت مسکراتی تصویر پر جم گئیں اور ذہن کی تختی پر فیض کا یہ مصرع ابھر آیا کہ: چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
نوٹ:قلم کلب ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ newsdesk@qalamclub.com پر ای میل کیجیے۔