چونیاں — 22 مئی 2025
پنجابی ادب کا ایک روشن چراغ ہمیشہ کے لیے بجھ گیا، جب پنجابی زبان کے معروف اور معتبر شاعر تجمل کلیم انتقال کر گئے۔ خاندانی ذرائع کے مطابق ان کا انتقال چونیاں، ضلع قصور میں ہوا۔ وہ ایک طویل عرصے سے پنجابی زبان میں جدت اور فکری وسعت کا استعارہ سمجھے جاتے تھے۔
تجمل کلیم، جنہیں ادبی حلقوں میں استاد کلیم کے نام سے بھی جانا جاتا تھا، پنجابی شاعری میں اپنے منفرد انداز اور گہرے فکری اظہار کے باعث نہایت معتبر مقام رکھتے تھے۔ ان کی شاعری میں روایت، مزاحمت، درد، اور عوامی احساسات کا حسین امتزاج ملتا ہے۔
تجمل کلیم کی ادبی خدمات کو ان کی کئی مشہور کتب نے دوام بخشا، جن میں برفاں ہیٹھ تندور (1996)، ویہڑے دا رکھ (2010)، ہان دی سولی (2012)، اور چیکدا منظر (2017) شامل ہیں۔ ان کا کلام نہ صرف ادبی محفلوں میں گونجتا رہا، بلکہ نوجوان نسل کے لیے بھی ایک فکری رہنمائی کا ذریعہ بنا۔
ان کی ایک مشہور نظم کے اشعار کچھ یوں ہیں:
مرن توں ڈر دے او بادشاہو
کمال کر دے او بادشاہو
کسے نوں مارن دا سوچدے او
کسے تے مردے او بادشاہو
یہ اشعار ان کے لب و لہجے کی شدت، سوال اٹھانے کی جرات اور سماجی شعور کو ظاہر کرتے ہیں۔ وہ ان معدودے چند شاعروں میں شامل تھے جو پنجابی شاعری کو جدید اسلوب اور عوامی حقیقتوں سے جوڑنے میں کامیاب ہوئے۔
تجمل کلیم کے انتقال پر ادبی حلقوں، پنجابی زبان کے چاہنے والوں اور عام قارئین میں گہرا رنج و غم پایا جا رہا ہے۔ ان کی وفات پنجابی ادب کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔
ادبی تنظیموں اور دوست احباب نے اُن کی رحلت پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ان کے کام کو ہمیشہ یاد رکھنے کا عزم کیا ہے۔ تجمل کلیم کا کلام ان کے بعد بھی دلوں کو جھنجھوڑتا رہے گا اور پنجابی شاعری میں ان کی خدمات ہمیشہ زندہ رہیں گی۔