پاکستان کرکٹ کا بحران: انڈیا کے خلاف 17 میں سے 2 کامیابیاں!
تحریر: کاشف جاوید
پاکستان کرکٹ ٹیم کی بھارت کے خلاف ناکامیوں کی داستان ایک بار پھر دہرائی گئی، جب قومی ٹیم کل دبئی میں ایک اور شکست کھا کر نہ صرف ٹورنامنٹ سے باہر ہو گئی بلکہ اس کے ساتھ ہی پاکستانی کرکٹ کا مستقبل مزید دھندلا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں، کیونکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے آئی سی سی ٹورنامنٹس کے میچز ہمیشہ ہی شائقینِ کرکٹ کی توجہ کا مرکز رہے ہیں، لیکن بدقسمتی سے پاکستان کی کارکردگی ان اہم ترین مقابلوں میں انتہائی مایوس کن رہی ہے۔ اگر اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو اب تک کے 17 باہمی مقابلوں میں پاکستان محض دو ہی فتوحات حاصل کر سکا ہے، جو کہ 2017 چیمپئنز ٹرافی کے فائنل اور 2021 کے ورلڈ ٹی20 میں ملی تھیں۔ یہ ایک چونکا دینے والا ریکارڈ ہے، جو پاکستان کرکٹ ٹیم کی بھارت کے خلاف بڑے میچز میں ذہنی مضبوطی اور میدان میں کارکردگی پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیتا ہے۔
آئی سی سی ٹورنامنٹس میں پاکستان اور بھارت کے باہمی مقابلے درج ذیل نتائج کے ساتھ سامنے آتے ہیں: 1992 ورلڈ کپ میں بھارت نے 43 رنز سے جیتا، 1996 ورلڈ کپ میں 39 رنز، 1999 ورلڈ کپ میں 47 رنز، 2003 ورلڈ کپ میں 6 وکٹوں، 2007 ورلڈ ٹی20 کے گروپ اسٹیج میں بھارت نے باؤل آؤٹ میں جیتا، اسی سال کے فائنل میں بھارت نے 5 رنز سے، 2011 ورلڈ کپ میں 29 رنز، 2012 ورلڈ ٹی20 میں 8 وکٹوں، 2014 ورلڈ ٹی20 میں 7 وکٹوں، 2015 ورلڈ کپ میں 76 رنز، 2016 ورلڈ ٹی20 میں 6 وکٹوں، 2017 چیمپئنز ٹرافی کے گروپ میچ میں 124 رنز، 2017 چیمپئنز ٹرافی فائنل میں پاکستان نے 180 رنز سے جیتا، 2019 ورلڈ کپ میں بھارت نے 89 رنز (DLS میتھڈ) سے، 2021 ورلڈ ٹی20 میں پاکستان نے 10 وکٹوں سے جیتا، 2022 ورلڈ ٹی20 میں بھارت نے 4 وکٹوں سے اور 2025 کے حالیہ میچ میں بھارت نے 6 وکٹوں سے فتح حاصل کی۔ ان مسلسل شکستوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان ٹیم کی بھارت کے خلاف کارکردگی میں تسلسل سے خامیاں نظر آتی ہیں، جنہیں دور کیے بغیر بہتری کی کوئی امید نہیں۔
کل دبئی میں ہونے والے میچ میں بھی پاکستان کی وہی پرانی کمزوریاں کھل کر سامنے آئیں۔ بیٹنگ لائن ایک بار پھر دباؤ میں بکھر گئی، جہاں ٹاپ آرڈر نہ صرف بھارتی بولنگ کے خلاف بے بس دکھائی دیا بلکہ مڈل آرڈر بھی دباؤ برداشت نہ کر سکا۔ پاکستانی بلے باز وکٹ پر رکنے کے بجائے جلد بازی میں غلط شاٹس کھیل کر اپنی وکٹیں گنواتے رہے، جس کے نتیجے میں ایک کمزور ہدف بنا۔ اس کے برعکس، بھارتی بلے بازوں نے پراعتماد انداز میں کھیلتے ہوئے نہ صرف پاکستانی بولنگ کو آسانی سے قابو میں رکھا بلکہ موقع ملتے ہی میچ کا رخ اپنی جانب موڑ لیا۔ فیلڈنگ میں بھی پاکستانی ٹیم کی پرانی خامیاں برقرار رہیں، جہاں آسان کیچ چھوڑنے اور غلط فیلڈنگ کے باعث بھارت کو اضافی مواقع ملے، جو شکست کی ایک اور بڑی وجہ بنے۔
یہ شکست صرف ایک میچ کی نہیں، بلکہ ایک طویل عرصے سے چلی آ رہی نفسیاتی رکاوٹ، منصوبہ بندی کی کمی اور بنیادی تکنیکی خامیوں کی کہانی ہے۔ فلسفے میں ایک اصول ہے کہ "جس مسئلے کی جڑ نہ پکڑی جائے، وہ بار بار نئی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔” پاکستان کرکٹ کے مسئلے کی جڑ یہی ہے کہ ہم نتائج تبدیل کرنا چاہتے ہیں لیکن اپنی سوچ اور طریقہ کار تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں۔ اگر پاکستان کو مستقبل میں بھارت جیسی ٹیموں کے خلاف کامیاب ہونا ہے تو اسے اپنی بنیادی خامیوں پر قابو پانا ہوگا۔ دباؤ میں کھیلنے کی صلاحیت، مضبوط فیلڈنگ، بیٹنگ میں تسلسل اور میچ وننگ کھلاڑیوں پر انحصار کیے بغیر اجتماعی کارکردگی کو بہتر بنانا ناگزیر ہو چکا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو جدید کرکٹ کی ضروریات کے مطابق ایک طویل مدتی منصوبہ ترتیب دینا ہوگا، ورنہ آنے والے آئی سی سی ایونٹس میں بھی یہی کہانی دہرائی جاتی رہے گی اور شکستوں کی فہرست مزید طویل ہوتی جائے گی۔