تحریر : ہراکلیٹس ہراک
پائیتھاگورس کا نام سنتے ہی ذہن میں وہی منحوس تھیورم آتا ہے جس نے نہ جانے کتنے طلبہ کی نیندیں حرام کر دیں کچھ نوجوان اگر رات کو ڈر کر اٹھتے ہیں تو ان کے سرہانے پائیتھاگورین تھیورم ہی نظر آتا ہوگا اگر کبھی امتحان سے ایک رات پہلے کوئی طالبعلم اس فارمولے کو یاد کرنے کی کوشش میں بیٹھا ہو تو اس کے دل میں پائیتھاگورس کے لیے وہی جذبات ہوتے ہیں جو کسی موٹر سائیکل والے کے دل میں ٹریفک پولیس کے چالان کاٹنے والے افسر کے لیے ہوتے ہیں لیکن اگر آپ سمجھتے ہیں کہ پائیتھاگورس محض ایک ریاضی دان تھا تو آپ شدید غلطی پر ہیں یہ حضرت صرف جیومیٹری کے ماہر نہیں تھے بلکہ ایک پراسرار خفیہ فرقے کے بانی بھی تھے جو بیک وقت فلسفے مذہب اور ریاضی کا عجیب و غریب امتزاج تھا اور سب سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ انہیں چنوں سے خدا واسطے کا بیر تھا اب یہ دشمنی کسی بچپن کے صدمے کا نتیجہ تھی یا واقعی کوئی گہرا فلسفہ تھا یہ تو وہی جانتے ہوں گے لیکن پہلے ذرا پس منظر دیکھتے ہیں کہ یہ سارا فلسفہ آیا کہاں سے
چھٹی صدی قبل مسیح میں یونان میں فلسفے کی بنیاد رکھی جا رہی تھی اور سب سے پہلا سوال تھا کہ کائنات کی اصل حقیقت کیا ہے تھیلیز نے کہا کہ ہر چیز کی بنیاد پانی ہے مگر ان کے شاگرد انکسی مینڈر نے اختلاف کیا اور کہا کہ اصل حقیقت اپیرون ہے جو ایک لامحدود اور غیر متعین شے ہے پھر انکسی مینیز نے کہا کہ نہیں پانی اور اپیرون کچھ نہیں حقیقت ہوا میں ہے جو مختلف اشکال میں تبدیل ہو کر ہر چیز کو وجود میں لاتی ہے پھر آیا ایلیٹک اسکول جس کے بانی پارمیندیس نے اعلان کر دیا کہ تبدیلی اور حرکت محض ایک سراب ہے یعنی اگر آپ کو لگتا ہے کہ دنیا بدل رہی ہے تو دراصل آپ کا دماغ آپ کو دھوکہ دے رہا ہے اس نظریے کے برعکس ہرقلائٹس نے کہا کہ دنیا میں واحد مستقل چیز تبدیلی ہے
ان سب کے درمیان پائیتھاگورس نے ایک انوکھا نظریہ پیش کیا اور کہا کہ کائنات کی اصل کسی مادی شے میں نہیں بلکہ اعداد میں ہے ان کے نزدیک دنیا میں ہر شے کے پیچھے ریاضیاتی ترتیب کارفرما ہے موسیقی بھی ریاضی کے اصولوں پر چلتی ہے اور کائنات کی ہم آہنگی بھی ایک مخصوص عددی ترتیب کے تحت چل رہی ہے یہی وہ تصور تھا جسے بعد میں افلاطون نے اپنے فلسفے میں شامل کیا مگر پھر ارسطو نے ان سب خیالات کو چیلنج کیا اور کہا کہ اصل حقیقت اعداد میں نہیں بلکہ مادی دنیا میں ہے
پائیتھاگورس نے ایک تنظیم قائم کی جو بظاہر تو فلسفے اور ریاضی کی تھی مگر حقیقت میں یہ ایک سخت گیر خفیہ سوسائٹی تھی اس میں شامل ہونے والوں کو پانچ سال تک مکمل خاموشی اختیار کرنی پڑتی تھی تاکہ وہ سوچنے اور سیکھنے کے قابل ہو سکیں اگر کوئی نیا رکن معصومیت میں پوچھ لیتا کہ سر یہ a² + b² = c² کہاں سے آیا تو وہ شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا اور شاید فرقے سے ہی نکال دیا جاتا یہاں تک کہ محبت تک کو اعداد کے ذریعے پرکھا جاتا تھا یعنی اگر کسی نے عشق بھی لڑانا تھا تو پہلے دیکھنا ہوتا کہ اس کا عددی تناسب کیا بنتا ہے
پائیتھاگورس کا ایک اور عجیب و غریب عقیدہ چنوں سے نفرت تھا وہ کہتے تھے کہ چنے ناپاک ہیں انہیں کھانا بھی جرم ہے اور ان پر قدم رکھنا بھی ممنوع ہے اب اس کی کیا وجہ تھی کچھ مورخین کا خیال ہے کہ وہ چنوں میں انسانی روحوں کے حلول پر یقین رکھتے تھے کچھ کے مطابق یہ محض ایک ذاتی چڑ تھی اور کچھ یہ بھی کہتے ہیں کہ چنے کھانے سے ان کو بدہضمی ہو جاتی تھی بہرحال چنوں سے ان کی نفرت اتنی شدید تھی کہ کہا جاتا ہے جب دشمن ان کے پیچھے لگے تو وہ ایک کھیت میں پہنچے مگر وہ چنوں کا کھیت تھا چونکہ ان کے عقیدے میں چنوں پر قدم رکھنا بھی منع تھا وہ رک گئے اور دشمنوں نے انہیں وہیں ختم کر دیا
پائیتھاگورس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی ایک ٹانگ سونے کی تھی اب یہ حقیقت تھی یا ان کے پیروکاروں کی مبالغہ آرائی یہ معلوم نہیں مگر یہ کہانی اس بات کا ثبوت ہے کہ پائیتھاگورین فرقے کے لوگ انہیں ایک عام انسان نہیں بلکہ ایک روحانی شخصیت سمجھتے تھے
خاموشی کا مشاہدہ سب سے بڑی حکمت ہے دنیا میں سب سے زیادہ اہم چیز نمبر ہیں کیونکہ ہر چیز ان پر منحصر ہے انسان کو وہی چیز تباہ کرتی ہے جسے وہ سب سے زیادہ پسند کرتا ہے خود کو جاننا ہی سب سے بڑی طاقت ہے ہر چیز کا ایک عددی تناسب ہے جسے سمجھنے والا حقیقت کی جڑوں تک پہنچ جاتا ہے
پائیتھاگورس کے سب سے بڑے کارنامے یہ ہیں انہوں نے وہ مشہور زمانہ تھیورم پیش کیا جس نے ہر طالبعلم کی زندگی کا امتحان بن کر اسے تنگ کیا اگر ایک مثلث قائم الزاویہ ہو تو اس کے اضلاع کے درمیان
a² + b² = c²
کا تعلق ہوتا ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اصول پائیتھاگورس نے ایجاد نہیں کیا تھا بلکہ یہ مصری بابلی اور ہندوستانی ریاضی دانوں کو پہلے سے معلوم تھا مگر چونکہ پائیتھاگورین جماعت علم کو خفیہ رکھنے پر یقین رکھتی تھی اس لیے انہوں نے اسے اپنے نام سے مشہور کروا دیا
پائیتھاگورس کا دوسرا بڑا کارنامہ ان کا عددی فلسفہ تھا ان کا ماننا تھا کہ ہر چیز کا ایک عددی تناسب ہوتا ہے جیسے دس ان کے نزدیک مقدس تھا کیونکہ وہ 1+2+3+4 کا مجموعہ ہے انہوں نے موسیقی کے اصولوں پر بھی تحقیق کی اور ثابت کیا کہ موسیقی کی سروں کا تعلق بھی ریاضی سے ہے
نوٹ: لکھاریوں کےذاتی خیالات سے”قلم کلب”کامتفق ہوناضروری نہیں ہے۔