تحریر : کاشف جاوید
یہ تو بھئی ٹرمپ صاحب نے کمال ہی کر دیا! اب جو ہے، وہ ہر طرف ٹیرف ہی ٹیرف نظر آ رہے ہیں۔ خاص طور پر کینیڈا، میکسیکو اور باقی بچارے ممالک پر، جو پہلے ہی امریکی معیشت کی راہ میں کوئی کانٹے نہیں تھے، لیکن اب انہیں باقاعدہ کانٹے بنا دیا گیا ہے۔
اب کچھ لوگ پوچھتے ہیں کہ بھئی یہ "ٹیرف” ہوتا کیا ہے؟ تو سیدھی سی بات ہے، ایک قسم کا ٹیکس ہے جو دوسرے ملک سے آنے والی چیزوں پر لگایا جاتا ہے تاکہ مقامی چیزیں زیادہ بکی، اور باہر والوں کو ناک میں دم آ جائے۔ ٹرمپ صاحب کو شاید لگا ہوگا کہ اس سے امریکی معیشت کو فائدہ ہوگا، روزگار بڑھے گا، اور "میڈ اِن یو ایس اے” کی بہار آ جائے گی۔ لیکن حضور! دنیا میں معیشت کا پہیہ ایسے نہیں چلتا جیسے آپ کے ریئلٹی شو میں ہوتا تھا کہ جو مرضی فیصلہ کر لیا اور سب واہ واہ کرنے لگے۔
یہاں مسئلہ یہ ہے کہ جب امریکہ دوسرے ملکوں پر ٹیرف لگائے گا، تو وہ بھی ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھیں گے، بلکہ فوراً بدلہ لیں گے۔ میکسیکو کہے گا، "اچھا جناب! آپ ہماری چیزوں پر ٹیکس لگائیں گے؟ تو لیجیے، ہم بھی آپ کی گاڑیوں پر ایسا ٹیکس لگائیں گے کہ فورڈ والوں کی نیندیں اڑ جائیں!” کینیڈا بھی سوچے گا، "ابے بھائی! تم ہمارے اسٹیل پر ٹیرف لگاؤ گے؟ ہم بھی تمہاری دودھ کی بوتل پر ٹیکس لگا دیں گے، دیکھتے ہیں کیسے ناشتے میں کارن فلیکس کھاتے ہو!”
یہ سارا سلسلہ ایسے ہی بڑھتا جائے گا، اور ایک وقت آئے گا جب ہر ملک دوسرے ملک کی چیزوں پر ٹیکس لگاتا پھرے گا، اور عوام مہنگائی سے تنگ آ کر ہاتھ جوڑ کر کہیں گے، "حضور! بس کر دیجیے، ہمیں ویسے ہی معیشت نے مار دیا ہے!” لیکن سیاست دانوں کو ان باتوں کی کب فکر ہوتی ہے؟ ان کا کام تو صرف یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ اگلی تقریر میں کس نعرے پر زیادہ تالیاں بجیں گی۔
تو کل ملا کہ یہ ٹیرف ویرِف لگا کر دنیا کا کاروبار بہتر نہیں، بلکہ بدتر ہوگا۔ امریکہ چاہتا تھا کہ باقی دنیا اس کے ہاتھ پر بیعت کر لے، لیکن اب لگتا ہے کہ باقی دنیا نے بھی قسم کھا لی ہے کہ "ہم بھی دیکھتے ہیں، کون کسے زیادہ تنگ کر سکتا ہے!” نتیجہ؟ مہنگائی بڑھے گی، کاروبار برباد ہوں گے، اور آخر میں سیاستدان ایک دوسرے کو قصوروار ٹھہرا کر چین کی نیند سو جائیں گے، جبکہ عوام یہی سوچتی رہے گی کہ یہ سب آخر ہوا کیا!
نوٹ: لکھاریوں کےذاتی خیالات سے”قلم کلب”کامتفق ہوناضروری نہیں ہے۔