تحریر : کاشف جاوید
یہ دنیا بھی عجیب ہے۔ کہیں لوگ ویزے کے لیے مہینوں دھکے کھاتے ہیں، اور کہیں پانچ ملین ڈالر میں شہریت تھالی میں رکھ کر پیش کر دی جاتی ہے۔ اور اگر قسمت اچھی ہو تو ساتھ میں امریکی صدر کی مسکراہٹ بھی مفت مل جاتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے جب "گولڈ کارڈ” ویزے کا اعلان کیا تو انداز بالکل وہی تھا جیسے کوئی بزنس مین نئی اسکیم لانچ کر رہا ہو۔ "بس پانچ ملین ڈالر نکالیے، اور امریکی پاسپورٹ آپ کا!” گویا شہریت بھی کوئی نیویارک کا پینٹ ہاؤس ہو، جو کسی بھی اولیگارک یا کلپٹو کریٹ کے بینک اکاؤنٹ سے چند ادائیگیاں نکال کر حاصل کی جا سکتی ہے۔
یہ کوئی نئی بات نہیں۔ پہلے بھی کئی ممالک نے "گولڈن ویزے” بیچے، لیکن پھر کسی کو خیال آ گیا کہ شاید یہ اسکیمیں بدعنوانوں کے لیے نرمی کا دروازہ کھول رہی ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ یورپ سے لے کر برطانیہ تک، ایک ایک کر کے کئی ممالک نے یہ راستے بند کر دیے۔ لیکن ٹرمپ وہ شخصیت ہیں جو بند دروازوں کو توڑ کر کھولنے کا فن جانتے ہیں۔ یہ سوچنا ہی بے وقوفی ہے کہ جو آدمی میکسیکو کی سرحد پر دیوار کھڑی کرنے کے خواب دیکھتا ہو، وہ خود پیسے لے کر کسی کے لیے امریکی دروازے کھولنے میں ہچکچاہٹ کرے گا۔
مسئلہ صرف یہ نہیں کہ ٹرمپ نے امریکی شہریت فروخت کرنے کا نیا طریقہ نکالا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس میں یہ دیکھنے کی کوئی زحمت ہی نہیں کی گئی کہ پیسہ کہاں سے آ رہا ہے، کون لا رہا ہے اور اس کا ماضی کیا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا روسی اولیگارک بھی اس اسکیم میں شامل ہو سکتے ہیں، تو جواب ملا: "ہاں، ممکن ہے۔ میں کچھ روسی اولیگارکوں کو جانتا ہوں، وہ بہت اچھے لوگ ہیں۔”
اب سوال یہ ہے کہ "اچھے لوگ” کون ہوتے ہیں؟ کیا وہ جو ٹرمپ کے ہوٹلوں میں کمرے بک کرائیں، ان کی کمپنیوں میں سرمایہ لگائیں، یا وہ جن کے ساتھ ٹرمپ کی کوئی پرانی کاروباری یادیں وابستہ ہوں؟ کیونکہ دنیا کو اچھی طرح معلوم ہے کہ "اچھے” اور "برے” کی تعریف کیسے بدلی جا سکتی ہے، خاص طور پر جب بات چند ملین ڈالر کی ہو۔
یہ بھی کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ دنیا بھر کے کلپٹو کریٹس ایسے ویزوں کے دیوانے رہے ہیں۔ قبرص، مالٹا، برطانیہ، کیریبیئن کے کئی جزائر… جہاں موقع ملا، ان لوگوں نے وہاں شہریت خریدی اور دولت کے انبار لگائے۔ برطانیہ میں ہونے والی تحقیقات سے پتا چلا کہ روسی ارب پتی وہاں کی اسکیموں کے سب سے بڑے فائدہ اٹھانے والے تھے، اور بدلے میں کسی نے ان سے یہ نہیں پوچھا کہ پیسہ آیا کہاں سے۔
امریکہ میں پہلے بھی EB-5 ویزا پروگرام تھا، جس کے تحت سرمایہ کاری کے بدلے گرین کارڈ مل جاتا تھا۔ کم از کم وہاں یہ بہانہ تو تھا کہ سرمایہ کار امریکی معیشت میں سرمایہ لگا رہے ہیں، نوکریاں پیدا کر رہے ہیں۔ لیکن اس نئی اسکیم میں تو سیدھا سیدھا پیسے لے کر پاسپورٹ تھما دیا جائے گا، کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا کہ یہ پیسہ آیا کہاں سے، اور جو لے رہا ہے اس کے پس پردہ کیا کہانی ہے۔
ٹرمپ کے نزدیک مسئلہ یہ نہیں کہ امریکہ کی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ مسئلہ یہ بھی نہیں کہ اس اسکیم سے امریکی معیشت کو کوئی بڑا فائدہ ہوگا یا نہیں۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ "یہ لوگ امیر ہیں، کامیاب ہیں، بہت پیسہ خرچ کریں گے، بہت سارے ٹیکس دیں گے، اور بہت ساری نوکریاں پیدا کریں گے۔” اب نوکریاں کس کے لیے پیدا ہوں گی، پیسہ کہاں خرچ ہوگا، اور یہ لوگ کتنے "اچھے” ہوں گے، یہ سوال نہ ہی کریں تو بہتر ہے۔
یہ سب کچھ سن کر اگر کسی کو لگ رہا ہو کہ امریکہ اب سرکاری طور پر کلپٹو کریٹس اور اولیگارکوں کے لیے محفوظ جنت بننے جا رہا ہے، تو شاید وہ غلطی پر نہیں ہے۔ کیونکہ جس دنیا میں جمہوریتیں بھی نیلامی پر لگی ہوں، وہاں شہریت کی قیمت طے ہونا کوئی بڑی بات نہیں۔
نوٹ: لکھاریوں کےذاتی خیالات سے”قلم کلب”کامتفق ہوناضروری نہیں ہے۔