امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر ممکنہ حملے کا فیصلہ فی الحال مؤخر کر دیا ہے، جسے عالمی تجزیہ کار یورپی طاقتوں کے سفارتی دباؤ اور پاکستانی فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ہونے والی ملاقات کا براہ راست نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔
الجزیرہ کے ایک تازہ تجزیے میں کہا گیا ہے کہ یورپی ممالک، خاص طور پر فرانس، نے امریکا پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل ایران کشیدگی کو بات چیت کے ذریعے حل کرے۔ اس تنبیہ نے واشنگٹن کے پالیسی سازوں کو ایران کے خلاف فوری کارروائی سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔
ادھر عرب ذرائع ابلاغ کے مطابق، صدر ٹرمپ کی پاکستانی آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر سے دو گھنٹے طویل ملاقات نے بھی امریکی پالیسی میں واضح نرمی پیدا کی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹرمپ اب ایران کے خلاف فوجی طاقت استعمال کرنے سے پہلے سفارتی آپشنز پر مکمل غور کرنا چاہتے ہیں۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ ایران میں حکومت کی تبدیلی کے حق میں نہیں اور صرف سفارتی حل کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔
مزید برآں، برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو روکنے کا یہی فیصلہ کن وقت ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے ایران پر حملے کا فیصلہ مؤخر کرنا، خطے میں امن کے لیے ایک نادر موقع فراہم کرتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر امریکا اس تنازعے میں کودتا ہے تو اُسے یورپی حمایت کی اشد ضرورت ہو گی — اور چونکہ یورپ ایران پر بمباری یا حکومت کی تبدیلی کا حصہ بننے سے انکار کر چکا ہے، اس لیے واشنگٹن کو اپنے فیصلے پر کئی بار سوچنا پڑ رہا ہے۔