تحریر سدرہ ثاقب
پاکستان جیسے ملک میں جہاں انسان اپنی زندگی کی جنگ جیتنے کے لئے ایک طرف تو عبادات مکمل طریقے سے ادا کرتے ہیں تو دوسری طرف کسی کا گلا کاٹنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ہم مسلمان عبادات میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے مگر دوسری جانب ظلم اور ناانصافی میں بھی ہم کسی سے پیچھے نہیں آج کا پاکستان ویسا نہیں رہا جیسا آج سے کچھ سال پیشتر تھا کہا جاتا ہے کہ پاکستان پر اللّٰہ کا فضل ہے مگر یہ فضل تب تک تھا جب تک ہم نے خود کو ٹھیک رکھا جب حکمرانوں میں عیاشیوں اور اپنے عوام کے کپڑے اتروا کر ذلیل کرنے کا جذبہ خدمت میں ہی عبات ہے سے بڑھ گیا تو یہی اس کے اثرات واضح ہیں کہ عوام اپنے جسم سے روح کا رشتہ بھی برقرار نہیں رکھ پا رہے
حالیہ بجلی کے ظالمانہ بلوں اور اس پر حکمرانوں کی بے حسی نے عوام کو خون کے آنسو بہانے کے ساتھ ساتھ خودکشیوں کی شرح میں بے تحاشا اضافہ کر دیا ہے مگر اس کا زمہ دار کوئی اور نہیں ہم عوام خود ہیں جنہوں نے پچھتر سالوں سے خود کو ظلم برداشت کرنے کا عادی بنا لیا ہے کبھی ہمارا بھائی نامعلوم ہو جاتا ہے تو کبھی ہماری بیٹی کبھی سو روپے کی خاطر دوست دوست کو گولی ماری دیتاتو کبھی کوئی شوہر اپنی بیوی کو جوئے میں ہار جاتاہے انصاف کے لئے جب کوئی عدالت یا پولیس سٹیشن جائے تو اسے تاریخ پر تاریخ دے کر ذلیل اور بے حال کر دیا جاتا ہے
ریاست پاکستان ایک ایسا ٹائم بم بن چکی ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے پٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ اور مہنگائی پر اس کے اثرات سونے پہ سہاگا ہیں بجلی کی قیمت میں بے انتہا اضافے نے مذہبی طبقہ کو بھی متاثر کرنا شروع کر دیا ہے اور مساجد سے یہ اعلانات کروائے گئے کہ بجلی کے بل ادا نہ کئے جائیں کیونکہ مساجد کو دئے جانے والے چندے میں اس مہنگائی کی لہر کی وجہ سے حالیہ کچھ عرصہ میں شدید کمی ہوئی ہے اور ہماری مساجد اہل علاقہ اور مخیر حضرات کے تعاون سے ہی چلتی ہیں
لوگوں کو اپنی جان کے لالے پڑے ہیں تو وہ چندے کا انتظام کدھر سے کریں مجھے آج قاسم کے ابا یاد آ رہے ہیں جو 2018 میں حکومت میں آنے سے پہلے کہا کرتے تھے کوئی بجلی کے بل ادا نہ کرے اور سول نا فرمانی کا اعلان کیا تھا خواہ اس کے مقاصد جو بھی رہے ہوں آج 2023؛مئں لوگ خود اپنے بجلی کے بل جلا رہے ہیں اور احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں کسی نے سچ کہا ہے کہ جس ریوڑ کا رکھوالا بھیڑیا ہو تو اس پر کوئی جانور حملہ نہیں کرتا آج لوگ بیٹیوں کے کانوں کی بالیاں اپنی موٹر سائیکلیں اور موبائل فون بیچ کر بجلی کے بل ادا کر رہے ہیں اور لوٹنے والے ریڑھی بان سے پچاس روپے لوٹنے سے بھی دریغ نہیں کر رہے جب معاشروں کے حالات اس طرح کے ہو جائیں تو وہ دن قریب ہوتا ہے جب عوام اشرافیہ کے محلات پر حملہ کر دیں سترہویں صدی کا انقلاب فرانس کچھ ایسے ہی حالات کا شاخسانہ تھا
ہمارا پڑوسی ملک بھارت جو چاند پر پہنچ چکا ہے لاکھ مسلمانوں کا دشمن سہی مگر اپنے ہندو دھرم کے ماننے والوں کے لئے ہیرو ہے کیونکہ مودی نے بحثیت لیڈر اپنے ملک کو باعزت مقام دلوایا ہے ایک حالیہ سروے کے مطابق جنوری سے جولائی کے درمیان تقریباً بارہ لاکھ نوجوان پاکستان چھوڑ کر جا چکے ہیں کچھ اپنی مرضی سے اور کچھ جان بچانے کے لئے ان میں ڈاکٹر انجینئر بینکرز صحافیوں کے ساتھ دیگر ہنر مند افراد ڈرائیور پینٹرز میکینکس وغیرہ شامل ہیں اگر یہ ظلم اور نا انصافی کا نظام مزید کچھ عرصہ چلتا رہا تو یہ ملک اپنے جوان ذہنوں اور افرادی قوت سے محروم ہو جائے گا اور یہاں وہی لوگ رہ جائیں گے یا تو رشوت خور کرپٹ سرکاری افسران ہوں گے یا انکو ملک چھوڑنے کا موقعہ نہیں ملا ہو گا کیونکہ حلال طریقے سے رزق کما کر بچوں کو پالنا آج جھاد سے کم نہیں دنیا چاند سے آگے دوسرے سیاروں میں زندگی تلاش کر رہی ہے اور ہم پاکستان میں چاند پر بسنے والوں کی زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ وہاں نہ پانی ہے نہ بجلی اور یہی حال ایک عام پاکستانی کا ہے کاش ہمارے حکمران اور طاقتور طبقات اپنے اور اپنی انا اور ضد کو پرے کرتے ہوئے عوام اور ملک کی بہتری کا سوچیں ورنہ ایسا نہ ہو کہ عوامی صبر جواب دے جائے تو بھوکی عوام کسی کو کھاتا دیکھ کر برداشت نہیں کر پائے گی ریاست اس گھر کی مانند جسکی ماں مر چکی ہو اور بچے سوتیلی ماں کے رحم و کرم پر ہوں