تحریر : ہراکلیٹس ہراک
پاکستان میں ہر چند سال بعد کوئی نیا دھندہ نکل آتا ہے کوئی نیا کاروبار کوئی نئی چورن بیچنے والی اسکیم کبھی جعلی پیر فقیر کبھی ٹی وی پر تعویذ بیچنے والے کبھی ہر مرض کا علاج کرنے والے ہومیوپیتھک ڈاکٹر اور اب ایک نیا طبقہ وجود میں آچکا ہے موٹیویشنل اسپیکرز یہ لوگ اصل میں سیلف ہیلپ انڈسٹری کے پاکستانی ورژن ہیں جو لوگوں کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ اگر وہ روز آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر خود کو کامیاب انسان کہیں تو ایک دن وہ بل گیٹس اور ایلون مسک جیسے بن جائیں گے
یہ اسپیکرز کہتے ہیں کہ اگر تم ناکام ہو تو قصوروار تم خود ہو تمہاری قسمت تمہاری قسمت کا ذمہ دار تم ہو یہ سسٹم یہ معیشت یہ تعلیمی بدحالی ان سب کا کوئی قصور نہیں بس تمہارے اندر کچھ کمی ہے اگر تمہیں نوکری نہیں مل رہی اگر تم غربت میں پس رہے ہو تو یہ سب تمہارے اندر پازیٹیو سوچ کی کمی کی وجہ سے ہے یعنی ساری دنیا میں جو امیر اور کامیاب لوگ ہیں وہ محض مثبت سوچنے کی وجہ سے وہاں پہنچے ہیں ان کی تعلیم مہارت محنت مواقع کچھ بھی معنی نہیں رکھتا
یہ صرف قاسم علی شاہ نہیں بلکہ اس دوکان کے اور بھی کئی بڑے نام ہیں عمیر جالیا والا شیخ عاطف احمد وسیم احمد صالح الدین قیصر راجہ ساحل عدیم اور کامران رضوی جیسے کئی موٹیویشنل اسپیکرز جو روزانہ ہزاروں نوجوانوں کو بیوقوف بنانے کا مشن جاری رکھے ہوئے ہیں
مغرب میں اس دھندے کو کافی پہلے ہی بے نقاب کیا جا چکا ہے یونیورسٹی آف ہرٹفورڈشائر کے ماہر نفسیات "ڈاکٹر ریچرڈ وائزمین” نے اپنی تحقیق میں لکھا ہے کہ "موٹیویشنل اسپیکرز جذباتی نعروں کے ذریعے لوگوں کو وقتی طور پر خوش کر دیتے ہیں مگر ان کے لیکچرز کا اثر زیادہ سے زیادہ اڑتالیس گھنٹے رہتا ہے اس کے بعد لوگ دوبارہ وہیں آ جاتے ہیں جہاں وہ پہلے تھے بلکہ اکثر مزید مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں”کتاب کا نام: "59 سیکنڈز: تھنک آ لٹل، چینج آ لاٹ”
چیپٹر کا نام: "موٹیویشن”
اسی طرح اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے ماہر نفسیات( یاد رہیں یہ خاتون ہیں جن کو اپنے ہاں ناقص عقل مخلوق کہا جاتا ہے اس لئے یہ عقل کی بات آپ ویسے ہی مسترد کر سکتے ہیں) "کارل ڈویک” نے لکھا ہے کہ "موٹیویشنل اسپیکرز جو سب سے بڑی غلطی کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ ناکامی کی اصل وجوہات کو نظرانداز کر دیتے ہیں اور لوگوں کو ایک غیر حقیقی جادوئی سوچ کی طرف دھکیل دیتے ہیں اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ عملی اقدامات کرنے کے بجائے محض خود کو خوش فہمی میں مبتلا رکھتے ہیں”
کتاب کا نام: "مائنڈ سیٹ: دی نیو سائیکالوجی آف سکسیس”, چیپٹر کا نام: "فکسڈ بمقابلہ گروتھ مائنڈ سیٹ”
"یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا” کی تحقیق کے مطابق "نوے فیصد موٹیویشنل اسپیکرز کی باتیں سائنسی بنیادوں پر غلط ثابت ہوتی ہیں اور ان کے دعوے حقیقت پر نہیں بلکہ محض جذباتی بیانیے پر مبنی ہوتے ہیں”
ان اسپیکرز کے سیمینارز میں ہزاروں نوجوان شرکت کرتے ہیں مہنگے ٹکٹ خریدتے ہیں اور چند گھنٹوں کے لیے ایسا محسوس کرتے ہیں جیسے ان کی زندگی بدل گئی ہے مگر جب اگلے دن وہی نوجوان اپنے حالات پر واپس آتے ہیں تو انہیں احساس ہوتا ہے کہ کچھ بھی نہیں بدلا
قاسم علی شاہ اور دیگر اسپیکرز اپنے سیشنز میں کہتے ہیں کہ آپ خواب دیکھیں بڑی سوچ رکھیں خود کو کامیاب سمجھیں کائنات آپ کی غلام بن جائے گی یہ بات سچ ہوتی اگر دنیا خواب دیکھنے سے بدلتی مگر "یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے” کی تحقیق یہ ثابت کر چکی ہے کہ "جو لوگ حقیقت پسندانہ حکمت عملی اور مہارت پر کام کرتے ہیں وہ زیادہ کامیاب ہوتے ہیں جبکہ وہ لوگ جو صرف پازیٹیو تھنکنگ اور خوابوں پر بھروسہ کرتے ہیں وہ ناکامی اور مایوسی کا زیادہ شکار ہوتے ہیں”
یہ اسپیکرز خاص طور پر اس طبقے کو نشانہ بناتے ہیں جو سب سے زیادہ مایوس ہوتا ہے میٹرک اور ایف ایس سی کے طلبہ وہ نوجوان جو یونیورسٹی کی ڈگری لے کر نوکریاں ڈھونڈ رہے ہیں اور وہ لوگ جو کئی سالوں سے بے روزگار ہیں
یہ لڑکوں کو بتاتے ہیں کہ اگر میں کر سکتا ہوں تو تم بھی کر سکتے ہو حالانکہ خود ان کی کامیابی کی کہانی ایسی ہوتی ہے جس میں حقیقت کم اور مبالغہ زیادہ ہوتا ہے ایک لیکچر میں وسیم احمد نے کہا تھا کہ بس اپنے اندر کے خوف کو مارو پھر تمہیں کوئی روک نہیں سکتا یہ وہ جملہ ہے جو ہر موٹیویشنل اسپیکر مختلف الفاظ میں دہراتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ اگر کامیابی کا تعلق صرف خوف مارنے سے ہے تو کیا پاکستان میں صرف بزدل لوگ رہتے ہیں کیا ہر شخص جسے نوکری نہیں مل رہی وہ خوف کی وجہ سے ناکام ہے
اصل بات یہ ہے کہ کامیابی کسی موٹیویشنل لیکچر سے نہیں آتی بلکہ محنت تعلیم مہارت اور صحیح مواقع سے آتی ہے اگر کوئی لڑکا انجینئرنگ کی ڈگری لے کر نوکری کے لیے دھکے کھا رہا ہے تو یہ اس کی نیگیٹو سوچ کی وجہ سے نہیں بلکہ سسٹم کی خرابی معیشت کی تباہی اور مواقع کی کمی کی وجہ سے ہےپاکستان میں اس وقت موٹیویشنل اسپیکرز کا کاروبار عروج پر ہے مگر یہ زیادہ عرصہ نہیں چلے گا جیسے ہی لوگ حقیقت کو سمجھیں گے ان پر ان جعلی موٹیویشنل لیکچرز کا اثر ختم ہو جائے گا
اب سوال یہ ہے کہ کیا نوجوانوں کو موٹیویشن کی ضرورت ہے ہاں مگر وہ موٹیویشن جو حقیقت پر مبنی ہو جو انہیں حقیقت پسندانہ اقدامات کی ترغیب دے نہ کہ وہ جو انہیں خوابوں میں رکھے اور ان کے مسائل کا حل سوچنے میں نکالے لہذا اگر کوئی موٹیویشنل اسپیکر تمہیں کہے کہ بس خواب دیکھو سب کچھ خود بخود ہو جائے گا تو اس سے کہنا "سر اگر ایسا ہے تو آپ اپنی سیمینار فیس بھی خواب میں لے لیں ہم حقیقت میں پیسے نہیں دیں گے”
نوٹ اگر کسی کو زیادہ تحقیقی کیڑا تنگ کر رہا ہے تو وہ یہ کتابیں خرید کے پڑھ لے کیونکہ میں یہاں پہ کوئی ریسرچ پیپر نہیں لکھ رہا میرا مقصد یہ ہے کہ اپ لوگ انسان کے بندے کے پتر بن جائیں شکریہ
نوٹ: لکھاریوں کےذاتی خیالات سے”قلم کلب”کامتفق ہوناضروری نہیں ہے۔